تحریر :ڈاکٹر شاہد ناصر
2024 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے حصے میں آنے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے 231ملیر کے چار پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا اور بلیٹ پیپروں کو آگ لگادی۔
یہ خبر سب نے سنی اور پڑھی ہوگی، لیکن سوچیے کہ اس خبر پر ہمارے میڈیا نے کتنی بات کی۔ اگر یہی خبر کراچی کے کسی مہاجر حلقے یا ایم کیو ایم کی ہوتی تو سارے چینلوں پر ایک ہنگامہ ہوتا، اب کیا کیجیے کہ دوسری طرف “نامعلوم” افراد مبینہ طور پر پیپلزپارٹی کے ہیں اور پیپلزپارٹی نے ہر چینل اور اخبار کا منہ بند کر رکھا ہے اور خیر سے کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہیں اس لیے پی پی مخالف کوئی خبر چلنا آج کل آسان نہیں۔ بس خبر چلی تو اس پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ ایسا ہی ماجرا گذشتہ ماہ تب ہوا جب ملیر کے اس حلقے میں گنتی کے دوران کیا گیا،
نقاب پوش ملزمان نے پولنگ بیگ چھین کر ووٹوں کو نذر آتش کردیا اور بہت آسانی سے وڈیرا جماعت کے حق میں بات چلی گئی اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا، ہونا تو ہی چاہیے کہ اس حلقے میں دوبارہ پولنگ ہو، کیوں کہ اب تو ثابت ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ نشست کس امیداور کے حصے میں آئی۔ تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی یا اور کوئی؟
پی پی امیدوار عبدالحکیم بلوچ صرف 389 ووٹوں سے جیتے تھے،
لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا کیوں کہ پاکستان تعصبات اور دہرے معیار کی سرزمین ہے۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے
افسوس کی بات ہے کہ یہ واقعہ پریڈی تھانے کی حدود صدر میں واقع ریجنل الیکشن کمیشن آفس میں ہوا ہے۔ یعنی کراچی کے مضافات میں نہیں بلکہ نہایت حساس علاقے میں، جو غالباً ریڈ زون کا حصہ ہے، جہاں سامنے ہائی کورٹ اور پاسپورٹ آفس بھی موجود ہے، لیکن ریاست نے کچھ بھی نہیں کیا۔
نامعلوم ملزمان چار پولنگ اسٹیشن 65،71،98 اور 175 کے پولنگ بیگ زبردستی اٹھا کر لے گئے اور انھیں نہایت دیدہ دلیری سے آفس بلڈنگ کے سامنے ہی جلا دیا
اور پولیس کی بھاری نفری کے باوجود وہ “ملزمان” وہاں سے بہ آسانی فرار ہو گئے۔
پریڈی پولیس نے واقعہ کا مقدمہ ریکاؤنٹنگ آفیسر امتیاز علی کلہوڑو کی مدعیت میں دفعہ 147/148/149/353/186/427 اور 382 کے تحت درج کر لیا ، لیکن کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔
Categories