(تحریر: رضوان طاہر مبین)
ہمیں آج آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں کے سرکاری اداروں سے لے کر پولیس اور رینجرزکے اہل کاروں تک سبھی ’غیر مقامی‘ ہیں؟
وہ کون سا ایسا شہر ہے کہ جہاں تجاوزات کے نام پر مقامی شہریوں کے باقاعدہ قانونی اور خریدے گئے گھر اور دکانیں توڑ دی جاتی ہیں؟
اس شہر میں جب بھی کبھی ’غیر قانونی‘ کی کدال چلتی ہے، تو وہ شہر میں پھیلا دی جانے والی کچی آبادیوں اور قبضوں کی جگہوں کے بہ جائے صرف کراچی والوں کے گھروں اور دکانوں پر ہی چلتی ہے، جو اب اپنے ہی ’مقبوضہ شہر‘ میں لاوارث اور بدترین غلام بنا دیے گئے ہیں!
پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے کہ جس کے آدھے وسائل میں بھی مزدوری اور روزگار کے نام پر باہر سے آنے والے ہڑپ کر جاتے ہیں اور نتیجتاً مقامی شہری بدترین طریقے سے رسوا ہوتا ہوا نظر آتا ہے؟
اس ملک میں وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں یہ حالت ہے کہ مقامی محنت کش ایک پتھارا تک نہیں لگا سکتا، لیکن ’غیر مقامی‘ کے ہوٹل اور تجاوزات پوری پوری فٹ پاتھ اور آدھی سڑک تک دھڑلے سے موجود ہوتے ہیں؟
وہ کون سا ایسا شہر ہے کہ جس پر غیر مقامیوں کی طوفانی یلغار اس کے وسائل پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال چکی ہے کہ وہ بہت بڑے بڑے انسانی المیوں کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے؟ کبھی اس شہر کا باسی ٹریفک کے ازدحام میں ’قتل‘ ہوتا ہے، تو کبھی راہ زنوں کے نشانے پر آتا ہے تو کبھی آئے روز پھوٹنے والی وباﺅں کی نذر ہو جاتا ہے اور کبھی خالی بستر نہ ملنے پر اسپتال کی پارکنگ میں سسک سسک کر جان دے دیتا ہے، کیوں کہ اس کے وسائل دیہاتوں اور دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں پر لگ رہے ہیں اور وہ فقط بے بسی سے تماشا دیکھ رہا ہے!
تماشا تو وہ تب بھی دیکھتا ہے کہ جب اس کی گلی میں ’غیر مقامیوں‘ کا ایک غول وارد ہو جاتا ہے اور اس کے شہر میں، اسی کے گھر کی دہلیز پر اس کے گریبان پکڑ کر اُسے اس کی آبائی گلی میں غنڈہ گردی سے رگید کر چلا جاتا ہے! کبھی اس کے محلے میں ’باہر‘ سے ایک گروہ آکر اس پر فائرنگ کر جاتا ہے اور وہ دبک کر اپنے گھر میں جا چھپتا ہے کیوں کہ اس کو تحفظ دینے والا اسلحہ تو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر چھین لیا گیا ہے!
٭ اپنے ہی گھر میں اقلیت
وہ کون سا ایسا شہر ہے، جہاں پانی، بجلی اور گیس سے لے کر سڑکوں اور اسپتالوں تک کے بنیادی وسائل تین سے چار گنا کم ہونے کے باوجود باقاعدہ پورے ملک سے آبادی کا بہاﺅ اس کی طرف موڑ دیا گیا ہے؟
وہ کون سا شہر ہے، جس کا محصولانہ ہی نہیں اب باقاعدہ ’خیراتی استحصال‘ بھی شروع کر دیا گیا ہے اور اس کے ہر چوک، چوراہے پر مفت قورمے اور بریانی کے لنگر شروع کیے گئے ہیں، جو نہ صرف شہریوں کی آمدورفت میں رکاوٹ ہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں ہڈحراموں کی ایک فوج ظفر موج سڑکوں پر آکر پڑنا شروع ہو چکی ہے؟
ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر ’خانہ بدوشوں‘ کو لایا جا رہا ہے، جو اب شہر کی تقریباً ہر سڑک کے کنارے دیکھے جا سکتے ہیں کہیں موٹر سائیکلوں سے جڑی ہوئی ’ٹرالیوں‘ میں آ کر یہاں پڑے ہوئے پورے کے پورے خاندان ہیں، جو وہیں صبح سے شام تک اور کبھی تو رات کو بھی ڈیرے ڈالے رہتے ہیں، انھی میں سے کوئی گھروں اور گلی کوچوں میں چوریاں اور ڈاکے ڈالتا ہے، کسی کی کمائی سڑکوں پر موبائل اور بائیکوں کی چھینا جھپٹی اور راہ زنی پر ہے، کوئی یہاں کی منظم بھیک مافیا کا کارندہ ہے، کوئی کچرا کنڈی بن جانے والے کراچی سے کوڑے کے بڑے بڑے بورے جمع کرنے کا ’کاروبار‘ مرکزی سڑکوں کے کنارے اور فٹ پاتھوں پر پورے دھڑلے سے کر رہا ہے۔ اُسے نہ کوئی بلدیہ والے آکر تنگ کرتے ہیں، نہ تھانے سے کوئی آکر بھتّا لیتا ہے، اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے کو کوئی اعتراض ہوتا ہے! انھی میں سے کچھ لوگ بسوں میں جیب کتروں کے باقاعدہ منظم گروہ کی شکل میں بھی سرگرم ہیں، جو کمال مہارت سے آپ کی شلوار کی جیب تک کو باقاعدہ کتر کر آپ کی مہینے بھر کی کمائی لے اڑتے ہیں اور آپ کا بٹوا چلتی ہوئی بس میں سے ساتھ چلنے والی بائیک سوار ساتھی کو تھما دیتے ہیں!
جنوری تا اکتوبر 2024ئ، کراچی میں 110 شہری ڈکیتوں کے ہاتھوں قتل ہوئے! ذرا ہمیں بتائیے کہ اس ملک کی وہ کون سی لاوارث قوم ہے، جسے اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ اس کے اپنے ہی گھر میں اتنے منظم منصوبے کے تحت اجنبی بنایا جا اور لوٹا جا رہا ہے؟
٭ وسائل پر قبضہ اور بے بسی
اس ملک کا وہ کون سا شہر ہے کہ جس کے باسیوں کو شہر کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے؟
ہمیں بتائیے کہ اس ملک کا وہ ناپُرساں نگر کون سا ہے کہ جس کی قسمت کے فیصلے سامراجی انداز میں ’مالکان‘ اور ’قابض وڈیروں‘ کی پنچائیت میں ہو رہے ہیں؟
ذرا بتائیے کہ اس ملک کی وہ کون سی دوسری قوم ہے، جسے اپنے ہی شہر اور ضلعے پر حکومت اور اختیار حاصل نہیں، اس کے اپنے لیے الگ صوبے کی مانگ پر خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں؟
ملک میں ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں کا شور ہے، تو دوسری طرف یہاں اہم سمندری پودے مینگروز کے پودوں کا صفایا کیا جا رہا ہے، اور مائی کلاچی بائی پاس کے دونوں جانب کی ’سمندری کھاڑی‘ سے لے کر ملیر ندی اور کورنگی ندی کی زمینوں تک پر نہایت خطرناک اور غیر فطری طریقے سے بھرائی کر کے زمینوں کے سودے اس پر پلازوں کی تعمیرات کی جا رہی ہیں، جس سے شہر میں برساتی پانی کی قدرتی نکاسی رک رہی ہے، بلکہ مستقبل میں کراچی میں مختلف سمندری اور قدرتی آفات کے خطرات بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں!
وہ کون سا شہر ہے، کہ جس کو باقاعدہ کنکریٹ کا جنگل بننے کے بعد درجہ حرارت میں اضافے کے تذکرے تو سبھی کرتے ہیں ، لیکن کوئی بے ہنگم تعمیرات اور نقل مکانی روکنے کی بات نہیں کرتا؟ سندھ کا وزیراعلیٰ یہ تو مانتا ہے کہ کراچی کے آدھے لوگوں کے لیے پانی دست یاب ہے، لیکن اس کے باوجود زور شور سے فلک بوس پلازے تعمیر ہو رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس مرتے ہوئے شہر پر یہ تعزیے کیوں کھڑے کیے جا رہے ہیں؟
وہ کون سا شہر ہے، جس میں پانی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے بے دریغ ’بورنگ‘ سے سمندر کے قریبی علاقوں تک میں زیر زمین پانی کی سطح غیر معمولی حد تک گر چکی ہے، جہاں کچھ برس پہلے تک محض ایک فٹ پر پانی نکل آتا تھا، اب 25 فٹ تک بھی پانی کا نام ونشان نہیں مل رہا، اس کے نتیجے میں بھربھری زمین سے یہاں کی تعمیرات کو خوف ناک خطرات لاحق ہو چکے ہیں؟
٭ معاش سے بے دخلی
کراچی میں ایک المیہ اب یہ بھی ہے کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اب یہاں کے شہری اپنے ہی نگر میں معاش سے بھی بے دخل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بڑی دل چسپ اور فکر انگیز بات ہے کہ جہاں پورے ملک کے لوگ روزگار کے لیے آتے ہیں، وہاں اب اس شہر کا رہنے والا ہی معاش سے خارج ہو رہا ہے!
اس شہر میں بڑا سرمایہ کار، صنعت کار اور تاجر مہاجر ہونے کے باوجود بہ تدریج اس پر اب تیزی سے دیگر قوموں کا غلبہ ہوتا چلا جا رہا ہے، پہلے کچھ مخصوص کاروبار سے متعلق کہا جاتا تھا کہ فلانے کام مہاجر نہیں کرتے یا فلاں کام میں دل چسپی نہیں رکھتے اس لیے دوسری قوم کے لوگ اس میں غالب ہیں، لیکن اب تو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے شاید مہاجر کوئی کام ہی نہیں کرتا، تبھی تو ہر دکان، ہر چھوٹا بڑا کاروبار اور دھندا ’غیر مقامیوں‘ کے مضبوط تسلط میں جاتا چلا جا رہا ہے! یہ ایک نہایت پُراَسرار اور بہت گہرا المیہ ہے، جو ایک پورے تحقیقی مقالے کا موضوع ہو سکتا ہے کہ کراچی والوں کے لیے یہ سب حالات کیوں کر پیدا ہوئے؟ لیکن یہاں بھی ہمارا سوال وہی ہے کہ پاکستان کا کون سا شہر ہے، جہاں مقامی آبادی کو محکوم اور غلام بنا کر ان کے شہر کا معاش غیر قوموں کے حوالے کیا گیا ہے؟
اسی کا ایک ضمنی مگر اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں آکر ”کاروبار“ کرنے والوں کے آبائی علاقوں میں گھر بار پہلے ہی بہت آسانی سے پل رہے ہوتے ہیں، وہ کراچی آکر بھی اپنی سبزی اور پھل کی دکان اور چائے کے ہوٹل ہی میں رہ رہا ہے، اس لیے اس کا ’وارا‘ بھی آجاتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں ’کراچی والے‘ کا کوئی ’آبائی علاقہ‘ ہی نہیں اور نہ اس کی ہر سال کوئی فصل کٹتی ہے کہ اس سے سارا سال اس کے بال بچے پلتے رہیں اور وہ بے فکری سے شہر میں کاورباری مسابقت کے سامنے جُتا رہے! وہ تو یہاں دکان پر رہ بھی نہیں سکتا، اُسے تو اپنے لیے اس گنجان آباد شہر کی تنگ گلیوں میں بنے ہوئے دڑبے جیسے فلیٹ کا مہنگا کرایہ بھی نکالنا ہوتا ہے اور گھر والوں کے سارے اخراجات کا بار بھی خود ہی اٹھانا ہوتا ہے، نتیجتاً وہ غیر مقامی ”کارباریوں“ سے بری طرح مات کھا رہا ہے۔
آپ بتائیے، آپ تو بڑی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ملک میں سب کے ساتھ ہی ظلم ہو رہا ہے، تو ہمیں بتائیے کہ یہ المیہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے کس ضلعے، کس شہر، کس صوبے یا کس قوم کے ساتھ برپا ہو رہے ہیں؟؟
٭ اپنے ہی نگر میں بے روزگاری
کراچی کے معاشی معاملات سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اب عام روزگار پر سے بھی مہاجروں کو دیس نکالا مل رہا ہے، اس کی پہلی اور بنیادی ترین وجہ یہ ہے کہ جس قوم کے لوگ یہاں آکر کاروبار کرتے ہیں، وہ اپنے لیے ایک، ایک ملازم تک اپنے گاﺅں اور آبائی شہروں سے ہی لا کر رکھتے ہیں، جب کہ مہاجروں نے اس کے برعکس ہر قوم کو روزگار دیا اور دے رہا ہے، اس نے کبھی یہ تفریق نہیں کی! آپ ہمیں بتا دیجیے، پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے، جہاں باہر کے لوگوں کو تو ملازمت ملتی ہے اور اس قوم کے لوگ بھوکے مرتے ہیں اور اپنی عزت نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکُشیاں کرتے ہیں؟
اس بے روزگاری کا کلیدی پہلو ’خیراتی دسترخوانوں‘ کی ایک ’دہشت گردی‘ بھی ہے، کیوں کہ جب پورے ملک کے ”غریبوں“ اور ”بھوکوں“ کے لیے کراچی کی مصروف شاہ راہوں پر مرغِ مسلّم سجائے جاتے ہیں، تو اس سے کراچی میں غیر مقامی غنڈہ مافیا اور گداگر مافیا تو خوب پلتی ہی ہے، ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی تعداد ایسے ’غیر مقامی‘ محنت کشوں کی بھی دکھائی دیتی ہے، جو مکمل طور پر انھی مفت دسترخوانوں پر انحصار کرتے ہیں اور نتیجتاً یہاں کم پیسوں کی نوکری کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں، ایسے میں مہاجر محنت کش اور ملازم بری طرح مارا جاتا ہے، اسے تو عزت سے اپنی دال روٹی چلانے کے لائق تنخواہ لازمی چاہیے، وہ غیر مقامیوں کی طرح کسی پل کے نیچے اور سڑک کے کنارے کسی ’گھاس پٹی‘ پر نہیں سو سکتا کہ روز کے آنے جانے کا خرچہ بچے، جس کے نتیجے میں اس کی جگہ بھی چاروں صوبوں سے آنے والے نقب لگا جاتے ہیں!
رہی بات سرکاری ملازمتوں کی، تو صاحب، وہاں سے تو مہاجروں کو ایسا نکالا گیا ہے کہ انھوں نے تو اب اس کا شکوہ بھی کرنا چھوڑ دیا ہے، لیکن ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے کہ اندرون سندھ ہی نہیں دیگر صوبوں سے لائے گئے ”پاکستانی“ جب بڑے دھڑلے سے اس شہر میں مختلف سرکاری ملازمتوں پر فائز ہوتے ہیں اور مہاجر حیرت سے یہ سارے عجائبات زمانہ دیکھتا چلا جاتا ہے ہمیں ضرور بتائیے گا کہ ایسی صورت حال پاکستان کی اور کس قوم کے ساتھ برپا کی گئی ہے؟؟
٭ مافیاﺅں کی جنت
کراچی میں امن اور شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی باتیں تو کی جاتی رہیں، لیکن اس حوالے سے جتنی بھی کارروائیاں ہوئیں اس میں صرف مقامی لوگوں ہی کو نشانہ بنایا گیا، آج آپ ٹرانسپورٹ اور ٹینکر مافیا سے لے کر گداگر مافیا تک اور کباڑی مافیا سے لے کر اب ’وکیل مافیا‘ تک کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہ سارے کے سارے مسلح جَتھے غیر قوموں سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور دھڑلے سے اس شہر کے لوگوں کا استحصال کرتے اور ان پر دھونس جماتے ہیں، جس سے مقامی لوگوں میں غم وغصہ اور ردعمل پیدا ہونا عین فطری عمل ہے، ذرا بتائیے پاکستان کے اور کون سے شہر میں باقاعدہ اس طرح مقامی شہریوں کو مختلف غیر مقامی مافیاﺅں کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا ہے؟
کچھ نہیں تو ہیرونچی مافیا ہی کو دیکھیے کہ جس نے شاہ راہ فیصل سمیت شہر کی بے شمار مرکزی شاہ راہوں کے پورے پورے جنگلے نوچ کھائے ہیں، پُلوں کے کناروں پر نصب موٹے موٹے گارڈر اکھاڑ لیے ہیں، پلوں اور نالوں کو توڑ توڑ کر اس کے سریے کھینچ لیے ہیں، یہ نشئی مافیا بالکل ’وفاق‘ اور ’سندھ‘ کی طرح کراچی کو کھسوٹنے کی ایک سستی سی شکل دکھائی دیتے ہیں، ہمیں ضرور بتائیے گا، اس ملک کی کس قوم کا ’گڑھ‘ ایسا ہے، جہاں باہر سے لوگ آکر اس دھڑلے سے یہ ساری بربادیاں کر رہے ہیں اور اس شہر کے لوگوں کے منہ پر پٹی اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے ہیں؟
٭٭٭٭
Categories