(تحریر: رضوان طاہر مبین)
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے، جو پہلے دارالحکومت تھا، محمد علی جناح کے بلاوے پر ہندوستان سے آنے والے مسلمان ہنر مندوں اور ماہرین سے بھرا ہوا تھا، ملک میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ باشعور، مذہبی طور پر متحرک اور سماجی طور پرفعال بھی تھا، جس کے صرف فیڈرل بی ایریا کے تعلیم یافتہ افراد منہا کر دیجیے، تو ملک کی شرح خواندگی پاتال میں لڑھک جایا کرتی تھی اسے کچلنے کی ’رسم ایوبی‘ آگے سمندر ہے کے آمرانہ فرمان سے شروع ہو کر اسی آمرِ اول کے مختلف وارثوں نے ”آگے سمندر ہے اور پیچھے کھائی ہے!“ تک کس نے پہنچا ئی ہے؟
یہ دنیا کا واحد بڑا شہر ہے کہ جس میں کوئی بھی منظم عوامی ٹرانسپورٹ موجود نہیں، اس لاوارث شہر کا شمار دنیا کے ناقابل رہائش شہروں میں ہوتا ہے! اسٹیبلشمنٹ والے اس صوبے میں اپنے کھیل رچانے کے لیے جن ’وڈیروں‘ کے کاندھے سے اپنا کاندھا لگائے ہیں، اس ’یارانے‘ کی قیمت ’پانچویں قوم‘ کی شناخت، بنیادی انسانی حقوق اور فنا کے گھاٹ اتار کر ادا ہو رہی ہے!
”میں ’مقبوضہ کراچی‘ ہوں، میں ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر رسوا ہوں!“
”میں کھلے گٹروں میں گر کر، کبھی کھلے ہوئے نالوں اور کبھی سڑک کے گڑھوں میں گر کر بے بسی سے مر رہا ہوں؟“
کبھی ملک بھر سے یہاں آنے والے ملزمان بندوق کی نوک پر میری عمر بھرکی پونجی سے محروم کردیتے ہیں، تو کبھی دن دھاڑے میرے گھر کا صفایا کر جاتے ہیں، اور ذرا سی بھی مزاحمت کا نتیجہ سفاکانہ موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے!
ظالم اسٹیبلشمنٹ اور متعصب وڈیروں سے زیادہ بڑا مسئلہ اس شہر اور بالخصوص اس قوم کے ’اہل قلم‘ کا ہے، جو اس شہر اور اس شہر والوں کی حالتِ زار سے مکمل طور پر لاتعلق اور بے حس ہوا پڑا ہے!
شاید ہی پاکستان کی کسی اور قوم کے اہل قلم اس درجے پست ہوں، جتنا کہ آج کا مہاجر دانش وَر ہو چکا ہے! یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ طبقہ اپنے قلم کو اس شہر کے بنیادی سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے استعمال کرتا، تو آج ہمارا یہ حال ہو ہی نہیں سکتا تھا، لیکن ہماری یہ بدقمستی ہے کہ یہ طبقہ بھی پروپیگنڈے کا شکار ہوگیا، اسے اپنی بنیادی شناخت ہی پر یقین نہیں رہا، وہ ”نیا سندھی“، ”پرانا ہندی“ اور ”اردو بولنے والا سندھی“ وغیرہ جیسے شرم ناک اور احمقانہ مفروضوں میں الجھتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں اس ملک کے دیگر اہل قلم کی تنگ نظری کو بھی کافی دوش ہے، لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے، پہلا مرحلہ تو آپ کا اپنا ہے، آپ کو اپنی قوم کے لیے مساوات اور انصاف کی بات کرنی چاہیے، یہ آپ کے شہر کا، آپ کے لوگوں کا یہ آپ پر حق ہے، ورنہ آپ اس بات کے اہل ہی نہیں ہیں کہ قلم کو ہاتھ بھی لگائیں!
مہاجر اہل قلم کی بزدلی اور نام نہاد مصلحت کی یہ وجہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام قومی حقوق جانتے مانتے ہیں، لیکن اس ’خوف‘ سے لب کشائی نہیں کرتے کہ فلاں طاقت وَر لابی کا موڈ نہ بگڑ جائے، فلانے بااثر کلب، فلاں کونسل یا فلاں انجمن کی مسند یا مَنچ ان سے چھن جائے گا، لوگ اُسے ”متعصب“ کہیں گے، اور وہ تنہا رہ جائے گا، چناں چہ وہ چپ رہ کر ساری قومی ذلت اور گالیاں تک سہنے کا عادی ہوا جاتا ہے، انتہا تو یہ ہے کہ یہ اپنے سامنے اپنی ہی قوم کے حوالے سے نفرت انگیز اور خلاف حقیقت باتوں کو بھی بے شرمی سے برداشت کرتا رہتا ہے۔ مجال ہے کہ کبھی اس کے منہ سے کوئی ایک لفظ ایسا نکل جائے کہ جس سے اس قوم کے کسی حق کا تھوڑا ہی سہی، دفاع تو ہو سکے! یقیناً یہ مصلحت ہر گز نہیں ہے، یہ طرزِ عمل مفاد پرستی، مجرمانہ اور منفاقانہ زمرے میں داخل ہے۔
شاید کچھ لکھنے والے خوف کا شکار بھی ہوں، لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی جبر اتنا ہے کہ آپ سانس لینے کی آزادی بھی نہ مانگ سکیں، یا کسی طرح اس گھٹن کا اظہار تک نہ کر سکیں، جو آپ کی پوری قوم پر مسلط کر کے رکھ دی گئی ہے! اس لیے ظالموں سے زیادہ مجرم کراچی کے ایسے سارے صحافی، ادیب، شعرا اور نام نہاد ’سوشل میڈیا انفولینسرز‘ ہیں، جو اپنی قوم کے مسئلے کا اظہار ہی نہیں کر رہے!
آپ ذرا غور کیجیے کہ 2016ءسے پہلے تو سارے خبری چینلوں پر ’کراچی کے مسئلے‘ پر خوب بات ہوا کرتی تھی، یہ درست ہے کہ ان دنوں امن وامان کے مسائل کی نوعیت ایسی ہوتی تھی، لیکن بے امنی تو آج بھی ہے، اتنے بڑے پیمانے پر نہ سہی، لیکن کہیں نہ کہیں تو کراچی سنائی دینا چاہیے! لیکن شاید ان لوگوں کے نزدیک کراچی کی سیاسی آزادی ختم کروانا ہی اصل مقصد تھا، ورنہ کیا 30 برس سے اس شہر کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعت پر غیر اعلانیہ پابندی، اس کے کارکنان کو لاپتا، گرفتار اور دباﺅ ڈالا جانا، ان کی لاشیں ملنا، اور پُراسرار انداز میں قتل ہونا، ان کے انتخابی امیدواروں کے گھروں پر چھاپے، انتخابی مہم نہ چلانے دینا، ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہنے دینا، حتیٰ کہ اگر کسی تفریحی مقام پر کچھ نوجوان اس تنطیم کا ترانہ سن لیں، تو ویڈیو سے ان لڑکوں کے چہرے شناخت کر کے انھیں گھروں سے اٹھا لینا! ’سوشل میڈیا‘ پر متحرک ان کے ہمدردوں کو اٹھوا کر ان پر دباﺅ ڈالنا وغیرہ کافی نہیں ہے کہ اس پر کبھی کچھ بات کر لی جائے؟ لیکن اس سب پر کہیں کوئی خبر، کوئی پروگرام، کوئی کالم، کوئی اداریہ، کوئی مضمون اور کوئی آواز ہی موجود نہیں ہے
اب تو لگتا یہ ہے کہ ممکنہ طور پر کراچی کو ”سیاسی آزادی“ تبھی حاصل ہو سکے گی، جب ’ریاستی مالکان‘ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ ’مہاجر‘ اس شہر میں اچھی طرح اقلیت میں آچکا ہے یا ان کی ممکنہ سیاسی قیادت اس لائق ہی نہیں رہی کہ دوبارہ اس شہر والوں کی نمائندگی کے لیے متفقہ طور پر سامنے آسکے، لیکن اگر ایسا ہوا، تو تاریخ میں بھی یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لکھ دیا جائے گا کہ ریاست نے تو اس قوم اور اس شہر والوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہی، لیکن یہاں کے اہل قلم اور اہل دانش اس جبر اور دہشت کے ماحول میں برابر کے مجرم رہے، کیوں کہ وہ اپنے تعصب اور تنگ نظری میں یہ بھول گئے کہ وہ امن وامان کے نام پر جس بدترین ریاستی جبر اور غنڈہ گردی کی وکالت کر رہے ہیں، وہ اس ملک کی پانچویں بڑی قوم کے اوپر کھلا ظلم اور سفاکیت کے سوا کچھ نہ تھا۔
ستم تو یہ کہ ہمارا شاعر ’یوم مہاجر ثقافت‘ کے مشاعرے میں یہ کہہ کر آنے سے انکار کر دیتا ہے کہ ”وہ تو مہاجر ہے ہی نہیں!“ کبھی ہمارے سینئر کالم نگار مظہر عباس ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ سب ’مہاجر سیاست‘ کی وجہ سے ہونے والی بربادیاں ہیں! کبھی انور مقصود صاحب یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”مہاجر شناخت نے نقصان پہنچایا!“ ہمارا احساس کم تری کا مارا قلم کار کبھی کسی ”تہذیب“ میں غوطے مار کر اپنی اصلیت سے نظریں چراتا ہے کہ ”حضور، اردو تو فلاں قوم نے بنا دی، فلاں قوم نے بچالی ہے، ہم اہل زباں تو اردو کے لیے اب بالکل تہی دست ہیں!“ گویا جداگانہ تشخص کے باوجود ہماری کوئی شناخت ہے اور نہ کوئی نام! ہم پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے ”اردو بولنے والے بنگالی“ اور ”اردو بولنے والے افغانی“ جیسی بے ہودگیاں کرتے پھر رہے ہیں!
کبھی تو اس قوم میں کوئی ان اہل قلم میں ’محسن بھوپالی‘ کی رسم پر چلنے والا نکلے کوئی اجمل دہلوی سا بااصول بنے کوئی ایچ اقبال کی طرح حق ادا کرے اور کوئی عارف شفیق کی سی جرا¿ت دکھا جائے!
کیا کراچی میں اب کوئی ایک بھی ایسا مدیر، صحافی، شاعر اور ادیب ”زندہ“ باقی نہیں رہا؟
کیا نام نہاد ’انسانی حقوق کمیشن‘ کو کراچی میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آرہیں یا ’بیرونی اشاروں‘ کی بنا پر ان کی قریب کی نظر ”کمزور“ ہوگئی ہے؟ تبھی تو وہ امن وامان کے نام پر اس شہر کو تاراج کرنے والوں کے خلاف ایک چوں تک بھی نہیں کرتے آج ان میں اتنا سا بھی ظرف باقی نہیں کہ وہ اس شہر والوں کے معطل بنیادی جمہوری حقوق کی بحالی اور یہاں سیاسی انجینئرنگ بند کرنے کی بات کر سکیں!
شاید ان صحافیوں، دانش وَروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد عَلم برداروں کے بالوں سے زیادہ ان کے خون سفید ہوگئے ہیں اور یہ سفیدی تعصب یا تفریق کا زہر بن کر ان کی رگوں میں دوڑ رہی ہے، تبھی انھیں ملزمان تک کے عدالتی ٹرائل کے بنیادی حق بھی بھولے ہوئے ہیں! تبھی وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کے نام پر شہر کی سیاسی آزادی کو پابند کرنے پر راضی دکھائی دیتے ہیں، اس لیے کہ شاید انھیں تو صرف بلوچستان وغیرہ پر شور مچانے کے پیسے ملتے ہیں مہاجروں یا کراچی والوں کا تو ”انسانی حقوق منڈی“ میں کوئی بھاﺅ ہی نہیں ملتا، تو کاہے کو ہاہاکار مچاویں!
٭٭٭
Categories