(تحریر: محمد اطیب)
آپ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ میں آپکے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ ا ب یہ خدمت ہوگی کیسے؟ اس پر بات کرلیں؟
اس وقت ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دُنیا بھر میں اس پر تحقیقاتی کام جاری ہے اور عالمی فورمز منعقد ہورہے ہیں۔ آپ بطور نوجوان اُس میں شریک ہوں۔ عالمی ماہرین سے سیکھیں اور پاکستان کے لئے کوئی منصوبہ تیار کریں۔ اگر منصوبہ اچھوتا ہوا تو گرانٹ بھی مل جائے گی۔
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلجنس ) اس وقت وطن عزیز میں ہر شعبے میں چیٹ جی پی ٹی یا کچھ ٹولز سے زیادہ کچھ نہیں۔ شعبہ تعلیم سے لے کر صحت تک، تھانے سے لے کر کورٹ کچہریوں تک سب جگہ customized AI tools ناگزیر ہیں جو کرپشن کی روک تھام اور سسٹم کو شفاف بنا سکیں۔
شعبہ تعلیم میں تحقیق کا شعبہ زبوں حالی کا شکا ر ہے۔ اس وقت دُنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں اسکالرشپس، فیلوشپس اور تحقیقی گرانٹس ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کام شروع کریں۔ قابلیت حاصل کریں اور پاکستان کے برسوں کے نظام کو کوئی جدت کا تحفہ دیں۔
سرکاری اداروں میں اور نوکریوں میں ظالم بیٹھے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ نعرے لگائیں جو کہ آپکو جمہوری حق ہے انکار نہیں۔ دوسرا طریقہ مشکل ہے کہ اپنے آپکو قابل بنائیں۔ کچھ عرصہ زیر زمین چلے جائیں۔ اپنے آپکو وقف کردیں۔ پھر ان جابز پر اپلائی کریں۔ سسٹم کو شکست دیں۔ پھر ان اداروں کی ریفارمز کا بیڑا اُٹھائیں۔ میں آپ سے یہ تاریخی جھوٹ نہیں کہہ سکتا کہ سرکاری جابز میں ہماری کوئی جگہ نہیں۔
پاکستان میں عالمی ادارے مختلف پروجیکٹس کے لئے Expression of interest کا اشتہار جاری کرتے ہیں۔ ہم معاشی مسئلوں میں اُلجھے مڈل کلاس لوگوں کے لئے اس کا وقت نہیں ہوتا لہذا یہ پروجیکٹس غیر معیاری کام کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں عالمی اداروں کے ساتھ ٹوٹا پھوٹا کام کرنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں۔ خام خیالی میں کچھ نہیں لکھا۔
سرکاری اداروں کو نجی افراد کی ضرورت رہتی ہے جو بطور کنسلٹنٹ اُنکے ساتھ کام کرسکیں۔ لیکن اس کے لئے اتنا دم چاہیئے ہوتا ہے کہ آپ سیاسی کارکن کو شکست دے کر میرٹ پر آگے آسکیں۔ اور یہ ممکن ہے۔
پاکستان میں مسئلوں کی وجہ سے ہر دوسرا بندہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ مینٹل ہیلتھ کی سہولیات کا فقدان ہے۔ خون کے آنسو رُلا دینے والی کہانیاں ہیں۔ آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ شعبہ نفسیات کا انتخاب کریں۔ کرائم سائیکولوجی ، چائلڈ سائیکالوجی، انڈسٹریل سائیکالوجی ، کلینکل سائیکولوجی اور اس جیسے بے شمار شعبے موجود ہیں۔ اُن پر تحقیق کریں اور جُرم کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
معاشی طور پر مضبوط افراد / بزنس مین کالا دھن سفید کرنے کے لئے یا اخلاقی طور پر بھی کروڑوں روپے کے سی ایس آر پروجیکٹس شروع کرتے ہیں۔ بھاری فنڈنگ سے پاکستان میں خیر کے ادارے چل رہے ہیں۔ اگر پاکستان ایسے ہی چلانا ہے جو کہ چل رہا ہے تو پھر معاشی مضبوطی ضروری ہوئی نا۔ لیکن یہ وہ والی دوا ہے جس میں زہر کا اثر شامل ہے۔ اس لئے اسے سب سے آخر میں تحریر کیا ہے۔ میں نے اس معاشی مضبوطی میں لوگوں کے جنازوں کا انتظام بھی صاحب ثروت افراد سے کروایا ہے۔ اگر یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو سوچنے کی ضرورت تو ہوئی نا۔
اب اورلکھ دیتا ہوں کہ کراچی یا پاکستان سے باہر نکل کر آپکے لئے سب ٹھیک ہوجاتا ہے؟ نہیں! آپکو survival کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ معاشی معاشرتی ذہنی ہم آہنگی کے حوالے سے ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ چوبیس چوبیس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ ارتکاز کے علاوہ کچھ ہوتا نہیں ہے۔ بنیادی ضروریات آپکے پاس ہوتی ہیں جس کے سہارے آپکو سانس لینے کا گزارا کرنا ہوتا ہے باقی پورا وقت کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ آپ نے گھر اور معاشرے کی ذمہ داریاں اُٹھائی ہوتی ہیں۔ اور یہ اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ کراچی میں انٹرنیٹ معطل، بجلی بند، ٹریفک جام، ٹوٹی سڑکوں ، امن و امان کے مسائل وغیرہ کی وجہ سے یہ سب ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس لئے باہر آئیں۔ زور بازو آزمائیں ۔ پھر حالات تبدیل کرنے کے لئے کچھ بڑا کریں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو شکست دینے کے لئے ہوائی چپل پہن کر کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ اشرافیہ بننا پڑے گا اور صلاحیتوں سے لیس ہونا پڑے گا جبھی سامنے والا آپ سے دب کر رہے گا۔ یہ الفاظ اُس وقت لکھ رہا ہوں کہ اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ سرکاری طور پر علمی و تحقیق کام کررہا ہوں ۔ اب وہ فارم 47 والے مسلط شدہ ہوں یا برسوں سے بیٹھے ہوئے بابے! اُنہیں بات کرنی پڑتی ہے اور میں بھی کام دھندے سے زیادہ بحث نہیں کرتا اور جہاں موقع لگا اُنہیں کچوکہ ضرور لگاتا ہوں کہ یہاں جھوٹ اور دھوکہ دہی کا کاروبار چل رہا ہے۔ کچھ شرم کرلو!کراچی کا لڑکا ہوں بہت کچھ سہا ہے۔ لیکن دوسرے شہر میں ہونے کا مطلب نہیں کہ دب کر رہیں گے!اسے ٹھیک کرو ورنہ سوشل میڈیا موجود ہے !
میں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی کے ایسے کراچی کے لڑکوں کو جانتا ہوں جنہوں نے شہر یا ملک چھوڑا ہے مگر اپنی جگہ رہ کر لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں۔ ان میں اور عام سیاسی کارکن میں اپروچ کا فرق ہے کہ یہ غلط کو غلط کہتے ہیں اور معاشی مضبوطی یا اسکلز کو اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لئے اب وہ جہاں بھی کھڑے ہوجائیں اُنکی بات سُنی بھی جاتی ہے اور اثر بھی پڑتا ہے۔ بہرحال یہاں اسلام آباد میں وہ لڑکے خاموشی سے سرکاری اداروں میں ہلا مچاتے پھر رہے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ ہم ساتھ بیٹھتے ہیں تو بات یہی کرتے ہیں ” گالی دے نہیں سکتا فیملی دیکھتی ہے ” مگر واللہ ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے اور ہم ہر چیز لکھ نہیں سکتے کیونکہ ہم اپنوں کے ہاں راندہ درگاہ کردیے جاتے ہیں۔
ان شاء للہ اپنے شہر کے لئے بھی ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے!
Categories
نوجوانوں کے لیے کن شعبوں میں مواقع ہیں؟
