Categories
Interesting Facts Karachi Media MQM PPP ایم کیو ایم پیپلز پارٹی دل چسپ ذرایع اِبلاغ سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

کراچی صوبہ؟ آدھی آبادی تو غیرمہاجر ہے! ندیم فاروق پراچا

23 اگست 2025 کو روزنامہ “ڈان” میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (PILDAT) کے بانی و صدر احمد بلال محبوب نے نشان دہی کی ہے کہ جو لوگ نئے صوبوں کے حامی ہیں، وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ “ہمارے تمام تر گورننس کے مسائل اُس وقت حل ہو جائیں گے جب ہم نئے صوبے بنائیں گے۔” وہ بجا طور پر اس نتیجے کی عملی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار نجم سیٹھی — اگرچہ وہ خود بھی نئے صوبوں کے حق میں ہیں — اس امکان کے بارے میں حقیقت پسندانہ شکوک رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، ملک کی زیادہ تر نسلی گروہوں میں ذیلی قوم پرستانہ جذبات اس قدر شدید ہیں کہ وہ اور ان کے راہ نما اس حوالے سے وفاقی حکومت سے کسی بھی سمجھوتے پر تیار نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثر حکومت اور اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان مرکزی سیاسی جماعتیں اس معاملے پر گفتگو کرنے سے اجتناب کرتی ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابی مقبولیت کھو بیٹھیں گی!
لیکن یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نئے صوبوں کی تجاویز دینا ہمیشہ سے ایک چال رہی ہے تاکہ صوبوں پر دباؤ ڈال کر انہیں ریاست کے حق میں کچھ رعایتیں دینے پر مجبور کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، عسکری اسٹیبلشمنٹ، جو ہمیشہ ایک مضبوط مرکزی نظام کی حامی رہی ہے، سمجھتی ہے کہ صوبوں کو مرکز سے ملنے والے مالیاتی وسائل پر دوبارہ بات چیت کرنی چاہیے — خاص طور پر اب، کیوں کہ ‘پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت’ اور عالمی نظام میں بدلتی ہوئی صورت حال ایک مضبوط مالیاتی حیثیت رکھنے والی وفاقی حکومت اور مسلح افواج کا تقاضا کرتی ہے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے مطالبات اکثر اس دعوے کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ یہ گورننس کے مسائل کو حل کر دیں گے۔ لیکن کراچی کی طویل اور پرتشدد تاریخ یہ دکھاتی ہے کہ نسلی خدشات اور طاقت کی کشمکش ایسے ’حل‘ کو کہیں زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
اس کے باوجود، جہاں اکثر پاکستانی نسلی مفادات کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کے حق میں نہیں، وہیں کچھ جماعتوں میں موجود کارکن اور سیاستدان اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اردو بولنے والوں کی نمائندہ قوم پرست جماعت متحدہ قومی موومنٹ (MQM) ہے۔ 1984 میں بننے والی یہ جماعت 1980 کی دہائی کے آخر تک کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن چکی تھی۔ اس کی ایک بڑی مطالبہ یہ ہے کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔
MQM اور بیشتر غیر سندھی مڈل کلاس کراچی والے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ مطالبہ اس بنیاد پر مان لیا جائے کہ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، تو ایک اور حقیقت اس دلیل کو کمزور کر دیتی ہے: کراچی میں مہاجر آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔
1951 میں کراچی کی آبادی کا تقریباً 60 فی صد مہاجرین پر مشتمل تھا، جو 1998 میں 48 فی صد، 2017 میں 42 فی صد پر آ گیا۔ تاہم 2023 میں یہ دوبارہ بڑھ کر تقریباً 50 فی صد ہو گئی، لیکن شہر میں پشتون آبادی کہیں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پشتون اب کراچی کی دوسری سب سے بڑی نسلی آبادی بن چکے ہیں، جن کے بعد سندھی، پنجابی، بلوچ اور سرائیکی آتے ہیں۔
انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جب تک برطانوی سامراج نے کراچی پر قبضہ نہیں کیا تھا، تب تک یہ ایک چھوٹا سا ساحلی شہر تھا جس کی آبادی صرف 50ہزار سے کچھ زائد تھی۔ ان میں اکثریت سندھیوں اور بلوچوں کی تھی، اور یہ شہر اُس وقت کے سندھ کے دارالحکومت حیدرآباد سے چلنے والے سندھی حکمرانوں کے ماتحت تھا۔
1840 میں برطانوی حکومت نے کراچی کو سندھ کا نیا دارالحکومت بنایا، لیکن صرف تین سال بعد سندھ اور اس کا دارالحکومت برطانوی ہند کے ایک بڑے انتظامی یونٹ ‘بمبئی پریذیڈنسی’ میں شامل کر دیے گئے، جس کا مرکز بمبئی (موجودہ ممبئی) تھا۔
اس فیصلے کے خلاف سندھی سیاست دانوں اور دانش وروں نے ایک طویل جدوجہد کی، لیکن برطانوی حکومت نے کراچی کو ایک جدید بندرگاہی شہر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے باعث شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ 1936 میں، جب بمبئی پریذیڈنسی ختم ہوئی اور سندھ دوبارہ ایک الگ صوبہ بنا، تو کراچی ایک بار پھر سے صوبہ سندھ کا دارالحکومت بن گیا۔
کراچی کو اس کی مضبوط معیشت کی وجہ سے ‘سرپلس سٹی’ سمجھا جانے لگا۔

1941 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی کا 60 فی صد سے زائد حصہ سندھی تھا، جب کہ اردو بولنے والے صرف چھے فیصد تھے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد، 1947 میں لاکھوں مہاجرین بھارت سے کراچی آ گئے، جس کے باعث شہر کی آبادی کا تناسب مکمل طور پر بدل گیا۔ 1951 تک شہر کی 60 فی صد آبادی اردو بولنے والے مہاجروں پر مشتمل ہو چکی تھی، جب کہ سندھی آبادی صرف چھے فی صد رہ گئی تھی۔
مزید یہ کہ 1948 میں وفاقی حکومت نے کراچی کو سندھ سے علاحدہ کرنے اور اسے وفاقی دارالحکومت قرار دینے کی تجویز پیش کی۔ سندھی سیاست دانوں اور دانش وروں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ انھیں اس عمل کے ’تکبر آمیز انداز‘ پر بھی شدید اعتراض تھا۔ معروف مورخ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کے مطابق، جب اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ سندھ ایوب کھڑو نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان سے اس معاملے پر احتجاج کیا، تو لیاقت علی خان نے کہا “سندھ حکومت کو یہاں سے نکلنا ہی ہو گا… جا کر اپنا دارالحکومت حیدرآباد بنا لو۔”
سندھی عوام کی جانب سے بارہا احتجاج کے باوجود سندھ حکومت نے بالآخر وفاقی حکومت کی بات مان لی، مگر صرف اس شرط پر کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے وعدہ کیا کہ سندھ کو اپنے امیر دارالحکومت سے محروم ہونے کے باعث ہونے والے مالی نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہ وعدہ کبھی پورا نہ ہو سکا۔
1955 میں وزیرِاعظم محمد علی بوگرا اور قائم مقام سربراہ مملکت اسکندر مرزا نے مغربی پاکستان کے تمام صوبے ختم کر کے ایک ’ون یونٹ‘ بنا دیا۔ اس اقدام کی حمایت پنجاب اور مہاجروں نے کی، مگر دیگر نسلی گروہوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ یہ اقدام اُن کی نظر میں ریاست کی جانب سے سندھی، بلوچ، پشتون اور بنگالی قوموں کے سیاسی و ثقافتی مفادات کو دبانے کی سازش تھا۔
1959 میں کراچی کو وفاقی دارالحکومت ہونے کا درجہ بھی چھین لیا گیا۔ اسلام آباد کو نیا دارالحکومت بنا دیا گیا، اور جب تک اسلام آباد تعمیر نہیں ہوا، اُس وقت تک راولپنڈی عبوری دارالحکومت کے طور پر کام کرتا رہا، یہاں تک کہ 1967 میں اسلام آباد فعال ہوا۔
جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور کے آخری سالوں میں ‘ون یونٹ’ کے خلاف تحریکیں تیز ہو گئیں۔ اگرچہ ایوب کے دور میں کراچی میں تیزی سے صنعت کاری ہوئی، مگر شہر کی مہاجر اکثریت اپنی سیاسی اور معاشی حیثیت کھونے لگی۔ البتہ مہاجر معاشی اشرافیہ کو ایوب خان کی معاشی پالیسیوں سے فائدہ ہوتا رہا۔
کراچی میں پہلی بڑی نسلی جھڑپ 1965 کے اوائل میں پشتونوں اور مہاجروں کے درمیان ہوئی۔ ایوب کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد، مارچ 1969 میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کر کے صوبے بحال کر دیے۔
پھر یکم جولائی 1970 کو ملک کے پہلے بڑے پارلیمانی انتخابات سے قبل، کراچی کو ایک بار پھر سندھ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ اس دن ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹوڈیوز سے سندھی موسیقی نشر کی گئی، جو اس سے پہلے اکثر ممنوع ہوتی تھی۔ پروگرام کا آغاز معروف سندھی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے ایک شعر سے کیا گیا۔
کراچی کو تین بار سندھ کا دارالحکومت بنایا گیا اور دو بار یہ حیثیت چھین لی گئی۔ آج یہ شہر مکمل طور پر کثیرالثقافتی اور نسلی اعتبار سے متنوع ہے۔ تاہم، اس کی جڑیں اب بھی سندھ کی تاریخ میں ہیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ “ڈان” کراچی)
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights