تحریر: رضوان طاہر مبین
صاحب، زندگی تو کٹھن ہے، اور بہت کٹھن!
بالخصوص ہم جیسے حساس ترین لوگوں کے لیے یہ وبال بن جاتی ہے، تاآں کہ اس میں روانی اور سکون ہو۔
سو ہم جیسے تو روز کڑھتے اور جلتے رہیں گے، یہ الگ بات ہے کہ یہ جلنا کُڑھنا نہ حسد کا ہوگا اور نہ بغض وعناد کا، یہ بس ایسا ہوگا کہ اس کی کہانی پھر کبھی۔ یہ ایسا ہے کہ یار لوگ بھی “اذیت پسند” کہہ کر پرے دھکیل دیتے ہیں۔
زندگی ہر گز سہل نہیں ہے، یہ تو سبھی کہتے ہیں، ہم بھی ہانپے جاتے ہیں، لیکن جب اسپتال کی انتظار گاہ کی اسٹیل کی ٹھنڈی مسند پر لمبی ٹانگوں کو سکیڑ کر سونے کی کوشش کی تھی تو پہلی بار تب ہی گھر کے اپنے بستر کی قدر معلوم ہوئی تھی!
بس معاملہ کچھ یہی ہے، شاید انسان واقعی ناشکرا ہے، مقصد ہمارا یہ نہیں کہ صبروشکر کے نام پر استحصالی قوتوں اور جابرانہ عناصر کو راہ دے دی جائے۔ ہر گز نہیں، ظلم اور ناانصافی کے خلاف وہ جہاد اپنی جگہ برحق اور جاری رہنا چاہیے، لیکن کچھ مقام شکر ہیں، جو ضروری ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔
الحمدللہ، ہم ایک مکمل انسان ہیں
ہم دیکھ سکتے ہیں
اچھی طرح بول سکتے ہیں
سن سکتے ہیں
سونگھ سکتے ہیں
چکھ سکتے ہیں
محسوس کرسکتے ہیں
ہماری جسمانی ساخت بھی ٹھیک ہے،
قد کاٹھ بھی مناسب ہے
رنگ روپ کے رائج پیمانوں کو ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھیے، نقش اور رنگ اگر کچھ انیس بھی ہے تو بہت سوں سے تو اب بھی بھلا ہے۔
ہم بہت آرام سے چل پھر سکتے ہیں
مرضی سے سفر بھی کر سکتے ہیں
ہمارے ہاتھ ہمارا مکمل ساتھ دیتے ہیں
ہم کھا پی بھی سکتے ہیں
یہ کچھ بہت بنیادی سی نعمتیں ہیں، جو یقیناً بہت سوں کے پاس اس طرح نہیں ہوں گی، جیسے ہمارے پاس ہیں۔
ہم اگر دس بار اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں، تو ایک بار اس سب کے لیے شکر ادا کرنا بھی حق ہے۔
کیا ہوا اگر ان نعمتوں کے بعد بھی اگر کوئی اور کمی رہ گئی ہے،
کوئی اور گنجائش ہے، کوئی ناکامی ہے، کوئی محرومی ہے، کوئی کسک ہے، کوئی پچھتاوا ہے، کوئی حسرت ہے اور کوئی خواہش نا آسودہ رہ گئی ہے!
ہے سو ہے، یہی زندگی ہے،
جو ہے اس کا شکر کیجیے، جو ہوسکتا ہے اس کے لیے جدوجہد کیجیے
یہی زندگی ہے اور زندہ رہنے کا تقاضا بھی ہے۔
Categories
One reply on “دس بار شکایت کی، تو ایک بار شکر بھی ادا کیجیے!”
ہم انسان بہت ناشکرے ہیں جب بیمار ہوجاتے ہیں تب ہمیں خیال آتا ہے کہ اللّٰہ نے بھلے کوئی من پسند شے سے نہیں نوازا تھا لیکن صحت جیسے انمول تحفے سے نوازا تھا