(تحریر:سعد احمد)
کراچی کے تاجروں نے نواز لیگ کے وفاقی وزیر احسن اقبال سے یہ کیا کہہ دیا کہ مراد علی شاہ لے لو مریم نواز دے دو، پیپلزپارٹی اوپر سے لے کر نیچے تک انگاروں پر لوٹ رہی ہے، ادھر بوکھلائے ہوئے کٹھ پتلی تاجر عتیق میر صاحب وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں کہ قسم لے لو، ہم نے مذاق میں کہا تھا، ساتھ ہی کراچی میں بیٹھ کر مریم نواز پر تبرا کرنا بھی ضروری سمجھا۔ عتیق میر یا تو عقل سے فارغ ہیں یا انتہائی ریموٹ کنٹرول ہیں یا پھر منافق اور ہلکے۔ کراچی والوں کو شکار پوری سمجھتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے دیہی سندھ کے وڈیروں نے کراچی کھنڈر بنا دیا ہے، اس کے مقابلے میں پنجاب میں ہر وزیراعلیٰ نے ترقی کے پچھلے ریکارڈ کو بہتر کیا ہے۔ چاہے وہ پرویز الٰہی ہوں، شہباز ہوں یا مریم نواز۔ لیکن کراچی کو پرایا مال سمجھنے والی پیپلپزپارٹی نے ہمیشہ مفتوحوں جیسا سلوک کیا ہے۔ سلوک تو خیر اس نے سندھ کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا، لیکن حضور سچ کہا ہے تو اتنی ہمت اور حوصلہ رکھیے کہ کہہ سکیے کہ ہاں پنجاب اور لاہور میں لگاتار ترقی ہو رہی ہے، کراچی کو پیپلزپارٹی کے سبز قدم نگل گئے ہیں۔ کراچی برباد کردیا گیا ہے اور یہ بربادیاں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں۔
عتیق میر اور کراچی کے وہ بے شرم سفید بالوں والے مختلف صحافیوں کو جو کل سے تکلیف ہو رہی ہے وہ یہ بتائیں کہ کیا چین کے لوگ بھی پاگل ہیںجو پولیس کی بھتا خوری کی شکایت لے کر سندھ ہائیکورٹ پہنچے ہیں؟؟ کیا وہ بھی مہاجر ہیں؟ یا سندھ دشمن یا پیپلزپارٹی دشمن ہیں؟؟ چینی سرمایہ کاروں نے عدالت عالیہ میں پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی درخواست پر نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔ عدالت میں دہائی دی گئی ہے اور پولیس کی بھتا خوری سے پناہ کی عرضی دی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل رحمان محسود ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے ملک کے اعلیٰ حکام کی دعوت پر یہاں سرمایہ کاری کی، لیکن ایئر پورٹ سے لے کر رہائش گاہ تک کے لیے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ ہمیں ایئر پورٹ پر بلٹ پروف گاڑیوں کے نام پر گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے اور رشوت دیے جانے پر پولیس حکام اپنی گاڑیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ گھروں میں سیکیورٹی کے نام پر محصور کیا جاتاہے، تالے ڈال کر آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے محروم کردیا گیا ہے ، کبھی کبھی خود پولیس اہل کار ہماری گاڑیوں پر حملے کرکے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ 30 تا 50 ہزار روپے رشوت کے عوض نقل و حرکت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ تین چینی خواتین سرمایہ کار ایکسپو سینٹر میں بدتمیزی کی وجہ سے واپس چین چلی گئی ہیں۔ سکھن تھانے کی حدود میں چینی شہریوں کی سات فیکٹریاں سیل کی گئیں۔ کیا یہ چینی سرمایہ کار بھی جھوٹ کہیں گے؟
ہم تو خوش تھے کہ چلو کراچی کے لیے کوئی تو بولنے کے لیے آیا، چاہے تاجر ہی سہی، لیکن یہ تو اتنے ہلکے اور بودے نکلے کہ ایک بیان پر کھڑے نہ رہ سکے۔ ایسا بھی کیا خوف ہے، یہ شہر آپ کا ہے، یہاں بنیادی سہولتیں اور تحفظ تو ہر شہری کا حق ہے، اور کیا اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ لاہور کراچی سے بہت آگے نکلتا جا رہا ہے، زمین آسمان کا فرق ہے اور عتیق میر فرماتے ہیں کہ مذاق کیا تھا؟ ارے مذاق تو آپ اب کر رہے ہیں، برا ہوا جو آپ کو کراچی کے تاجروں کا نمائندہ سمجھا اور اتنی اہمیت دی۔ آپ تو پہلی باری میں ہی بودے اور ہلکے نکلے۔ اندازہ ہوگیا کہ آپ کیا چیز ہیں اور آپ کی اصل حیثیت کیا ہے، آپ تو کراچی کے شہریوں کی نظروں میں گرچکے ہیں۔ آّپ سے ہزار درجے اچھے تو چینی نکلے، کم از کم اتنی ہمت پیدا کی کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں کہ کراچی میں سندھ کی حکومت کیا گل کھلا رہی ہے!
Categories
عتیق میر صاحب! کیا چینی سرمایہ کار بھی جھوٹ بول رہے ہیں؟
