Categories
Exclusive Karachi KU MQM PPP PTI ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف پیپلز پارٹی تحریک انصاف جامعہ کراچی سندھ کراچی

بیوروکریٹ وائس چانسلر: “بہت برا ہو گا”

سمے وار (تحریر: ڈاکٹر ریاض احمد)
بہت برا ہو گا. یہی میرا جواب تھا ساتھی استاد کاشف ریاض کی وال پر جب انھوں نے لکھا “سب سے اچھی ایڈمنسٹریشن فوج کی ہے تو اگلا VC فوج سے ہونا چاہییے ۔”
اس مضمون میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ بتایا جائے کہ کیسے پیپلز پارٹی کی جانب سے سرکاری یونیورسٹیوں کو وائس چانسلرز اور بیوروکریسی کے نمائندوں کے ذریعہ اندرونی نج کاری کے عمل کو تیز کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ نتیجہ بڑی سرکاری یونیورسٹیوں میں بڑھتی بدانتظامی، مطلق العنانیت سے ان یونیورسٹیوں کے ڈھانچوں کی بربادی نکلا ہے۔ اس پر جب بڑی یونیورسٹیوں میں اساتذہ،ملازمین اور طلبہ جب احتجاج کرتے ہیں تو اس وقت کیسے یہ بیوروکریسی اپنے آپ کو وائس چانسلرز کے پیچھے چھپاتی ہے اور جب شور یعنی ہڑتالیں تیز ہو جائیں تو وائس چانسلرز کی تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ جنھیں لایا جاتا ہے وہ چاہے موجود پروفیسرز ہی کیوں نہ ہوں وہ جانتے ہیں کہ وفاق اور سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی چلانے کے لیے ۵۰ فی صد فنڈ بھی فراہم نہیں کیے جا رہے اور یوں تنخواہوں اور برائے نام اخراجات کو ہی پورا کرنے کے لیے فیسیں بڑھانی ہونگی اور ایسے کورسز شروع کرنے ہوں گے جن کی علمی نوعیت گھٹیا اور کمرشل نوعیت بڑھیا نظر آئے گی۔ لبرل آئزیشن کی یہ پالیسی دراصل عالمی اداروں جیسے ورلڈ بنک، ایشین ڈوپلمپنٹ بنک اور یو ایس ایڈ کی نجی تعلیم کے فروغ کے لیے موضوں ترین ہیں اور اسی لیے یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں ہر نئی تبدیلی اسی فروغ کو مدنظر رکھ کر کی جا رہی ہے۔ بیوروکریٹ کو وائس چانسلر بنانے کا قانون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ہڑتالی اساتذہ کیوں “شور” لگتے ہیں؟
ہڑتال کی وجہ پروفیسر کی جگہ بیوروکریٹس کی “وی سی” تعیناتی اور مستقل کی جگہ یونیورسٹی میں تمام ملازمین بشمول اساتذہ کی عارضی بنیاد پر بھرتیاں ہیں۔ دیگر مطالبات بھی ہیں لیکن بنیادی یہی دو ہیں۔ یہ ہڑتال اس وقت سندھ کی چھے یونیورسٹیوں میں جاری ہے، کراچی اور سندھ یونیورسٹی میں کلاسوں کا مکمل بائیکاٹ ہے، جب کہ دیگر یونیورسٹیوں کی ایسوسی ایشنز (جہاں یہ ہیں) وہاں کی ایسوسی ایشنز بھی ان مطالبات کے حق میں ہیں۔ کراچی میں ہی تین مزید سرکاری یونیورسٹیاں ہیں این ای ڈی، ڈائو میڈیکل اور دائود انجنئیرنگ یہاں ایک عرصے سے اساتذہ ایسوسی ایشن کمزور ہیں۔ سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں جیسے ٹنڈوجام، لاڑکانہ، نواب شاہ میں بھی ایسوسی ایشنز فعال ہیں مگر شاید ہڑتال کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اساتذہ احتجاج جہاں ہڑتال کی شکل میں ہے اس کا اثر صوبائی حکومت پر ضرور پڑ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے چند روز قبل ایک تقریب میں کہا کہ وی سیز کے کرپشن کو نئے قانون کاجواز بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ ایک یا دو تین یونیورسٹیاں ہیں جہاں شور ہو رہا ہے۔ شور ہے تبھی ذکر بھی ہے۔ یہی اساتذہ کی ہڑتال کی پہلی کام یابی ہے کہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور اساتذہ و ملازمین کی ملازمت کو ختم کرنے کے خلاف احتجاج کا اثر ہو رہا ہے اور چیف منسٹر کو جواب دینا پڑ رہا ہے۔
شور میں چیف ایکزیکٹو کا کنوکیشن
چیف منسٹر نے یہ دکھانے کے لیے کہ ہڑتال نہیں ہے بلکہ یونیورسٹیاں چل رہی ہیں کل یعنی ہفتے کو مہران یونیورسٹی کے کنوکیشن میں بلاول بھٹو زرداری کو مدعو کیا۔ چند درجن طلبہ کے سامنے بلاول کے ساتھ چیف منسٹر نے تقریر کی اور کہا کہ مہران سے ہی علمی قیادت پیدا ہو رہی ہے۔ مہران میں ان سروس پروفیسر ہی وائس چانسلر تعینات ہیں۔ اسی طرح لیاقت یونیورسٹی، ڈائو اور این ای ڈی کے کنوکیشن میں چیف منسٹر صاحب شریک ہوتے رہتے ہیں۔ ان تینوں یونیورسٹیوں میں اساتذہ و ملازمین کی ایسوسی ایشنز کا برا حال ہے۔ یہاں اساتذہ کے نمائندے وائس چانسلر کے ماتحت رہتے ہیں اور انہی یونیورسٹیوں کو سندھ حکومت دیگر بڑی یونیورسٹیوں کی نسبت بے بہا فنڈ سندھ حکومت فراہم کرتی ہے، وائس چانسلر کے تمام تر اقدامات کا مرکزہ یونیورسٹیوں کو کمرشل ادارہ بنانے کے لیے فیسوں میں اضافہ اور کمرشل سطح کے غیر تحقیقی پروجیکٹس اور کانفرنس کرانا رہتا ہے۔ کسی ایسے ادارےمیں اخراجات پر سینڈیکیٹ یا سینیٹ میں کوئی قابل ذکر بحث نہیں ہوتی کے وائس چانسلرز وزیر اعلیٰ اور سندھ یونیورسٹِز اینڈ بورڈز کے ساتھ مل کر سنڈیکیٹ میں سابقہ بیوروکریٹس اور اشرافیہ کو تعینات کرتے ہیں جن کا دور دور تک یونیورسٹی کی علمی و تحقیقی عمل سے واسطہ تعلق نہیں ہوتا۔ ان یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اپنے آپ کو چیف ایکزیکٹو آفیسر قرار دیتے ہیں اور ملازمین و اساتذہ کو اپنا ذاتی ملازم اور طلبہ کو کسٹمر سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کی علمی آزادی، یونین و ایسوسی ایشن بنانے یا ان کے زریعہ ترقیوں، تعیناتیوں اور کرپشن پر تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جا تا ہے۔
سندھ کی بیوروکریسی یونیورسٹیوں پر حاوی ہے
یوں سندھ حکومت کے بیوروکریٹس منتخب حکومت کے نام پر سندھ کی یونیورسٹیوں کو وائس چانسلرز کا نجی ادارہ بنانے کے عمل میں گزشتہ ۱۷ سال سے شانہ بشانہ ہیں۔ وائس چانسلرز کی کارکردگی کی جانچ کا سب سے اہم ادارہ سینیٹ ہے۔ ماسوائے ان تین چار یونیورسٹیوں کے سندھ کی کسی بھی یونیورسٹی کی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کرنے یہی چیف منسٹر گزشتہ ۱۲ سال سے نہیں آتے۔سینیٹ میں یونیورسٹی وی سی اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرتا ہے اور بجٹ منظور ہوتا ہے۔ اجلاس میں شرکت کرکے ہر طرح کے وائس چانسلر کی سرزنش ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ ایکٹ میں وزیراعلیٰ یونیورسٹی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنا کر تحقیقات بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے چیف منسٹر جن کی بدولت ۲۰۱۸ میں یونیورسٹیوں کا ایکٹ بدلا گیا اور جس سے سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں تین سیکریٹریز بیوروکریٹز یعنی سیکرٹری سندھ، سیکرٹری ایجوکیشن اور سیکریٹری بورڈز کے علاوہ ایمننٹ پرسنز کے نام پر ہر ایسے ہی سابقہ بیوروکریٹس کو رکن بنانے کا قانون منظور ہوا۔اس وقت بھی کراچی یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کو “مہاجر پرست” اور “سندھی دشمن” قرار دے کر دراصل ان سرکاری بابوں کو یونیورسٹی کے قانون ساز اداروں کا رکن بنانا مقصد تھا۔ کسی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ سنڈیکیٹ میں ۲۲ میں سے ۱۰ افراد تو براہ راست وزیر اعلیٰ ہی متعین کرتے ہیں، سات اساتذہ و افسران کے نمائندے، ایک سندھ ایچ ای سی، ایک وفاقی ایچ ای سی، ایک ہائی کورٹ جج ہوتے ہیں۔ یوں جو کچھ کرپشن یا ہراسمنٹ یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے کیا کسی ایک یونیورسٹی کی سینڈیکٹ میں اس بابت کوئی بات کسی ایجنڈے میں گزشتہ ۱۲ سالوں میں لائی گئی؟ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ منتخب تو چیف منسٹر ہے لیکن جن لوگوں کو یہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ میں بھیجتے ہیں ان کی اکثریت موجودہ یا سابقہ بابو ہی کی ہوتی ہے۔ ۲۰۱۸ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم نے گورنر بطور چانسلر کے تمام اختیارات چیف منسٹر کو منتقل کر دیے۔ سینیٹ جو ایکٹ کے مطابق سال میں دو بار ہونی چاہئے۔ اس کے اجلاس کی صدارت چیف منسٹر کو خود کرنی ہے۔ لیکن کسی ایک بھی یونیورسٹی کے سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کرنے وزیر اعلیٰ نہ آئے۔ اگر وہ آتے تو انھیں پتا چل جاتا کہ یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹ میں ان کے بیوروکریٹ بابو، سابقہ بابو اور موجودہ وائس چانسلرز کیا گل کھلا تے ہیں۔ لیکن ایک منتخب وزیراعلیٰ و چانسلر نے اپنی ذمہ داری بیوروکریٹس کو کیوں دے رکھی ہے؟
بیوروکریٹ بابو اور چیف منسٹر کی ذمہ داریاں
سندھ ہی کیا پاکستان و برصغیر میں بیوروکریٹ بابو دراصل اپنے آپ کو ریاست کا اہم رکن سمجھتا ہے۔ اس کی تربیت اور اختیارات انگریز نوآبادیاتی طرز پر ہی ہوتی ہے اور ان کا مقصد جیسا ہے ویسا رکھنا اور سرکاری کی پالیسیوں کا سہل انداز میں نافظ کرنا ہے۔ یہ کسی یونیورسٹی کے سربراہ بن جائیں یا سینڈیکیٹ کے رکن ان کے مدنظر اب یونیورسٹی کا علمی ماحول نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے اخراجات میں کمی یعنی سرکاری بجٹ پر انحصار کم کرنا ہے۔ اس بابت یہ ہر کمرشل پروجیکٹ جیسے سیلف فنانس داخلے، نت نئے مضامین جن کو پڑھانے کے لیے استاد یا سہولتیں نہ ہوں ان کے شعبے بنانے، فیسوں میں اضافہ اور عارضی اساتذہ و ملازمین سے یونیورسٹی چلانا ہوتا ہے۔ جو پروفیسر وائس چانسلرز اس سندھ حکومت کے ۱۲ سالہ دو میں لگے ہیں ان کی کارکردگی کی جانچ چیف منسٹر صاحب دراصل اپنی حکومت کی پالیسویں یعنی سرکاری ادارے کی اندرونی نجکاری اور سرکار سے فنڈز کا مطالبہ نہ کرنے کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ کسی سینیٹ میں شرکت کی زحمت نہیں فرماتے کہ وہاں تو پروفیسران کی اکثریت ان سے فنڈز کی کمی کا ہی رونا روئے گی جو پیپلز پارٹی کی سرکاری یونیورسٹیوں کو اندرونی نجکاری کے زریعہ کمرشل بنانے کی پالیسی سے متصادم ہے۔ اس لیے بیوروکریٹ کو وائس چانسلر بنانا دراصل گزشتہ ۶ سالوں میں ۲۰۱۸ کی یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم سے پیدا ہونے والے خوف ناک نتائج پر پردہ ڈالنے کی آخری کوشش ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں بیوروکریٹ چیف ایکزیکٹو وائس چانسلرز کی تاریخ
طرح طرح کے وی سی کراچی یونیورسٹی میں لگے. کافی قابل وی سیز بھی جو ادارے کو اداروں کے بجائے خود پسند تھے انہوں نے نقصان پہچایا جو بعد ازاں کچھ تلف بھی ہوا. مگر دو یعنی جمیل جالبی او عبدالوہاب نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا. دونوں کو فوج کی ہی آشیر باد تھی. جالبی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں آفیسر تھے۔ ۱۹۵۳ تک یہ اسکول کے پرنسپل تھے کہ سی ایس ایس کر کے سرکاری ملازم لگے۔ ۱۹۷۱ میں سرکاری ملازم ہوتے ہوئے پی ایچ ڈی کر لی۔ ان کا سرکاری ملازم ہونا پس پشت رکھا گیا اور پی ایچ ڈی کی بنیاد پر انہیں کراچی یونیورسٹی کا ایک اسے دور میں وی سی لگایا گیا کہ جب جنرل ضیاء کی آمریت کو طلبہ کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ فلسفہ کے ڈاکٹر ظفر عارف جو ایک معروف اساتذہ رہنما اور ٹیچرز سوسائٹی کے صدر تھے انہی کے دور میں برطرف کیے گئے۔ یونیورسٹی میں مارشل لاء کا ایجنڈا اسلام ازم یوں پھیلایا کہ طلبہ یونین بین ہوئی، اساتذہ کی یونین یعنی ٹیچرز سوسائٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی، گن کلچر عام ہوا، غنڈہ گردی کو رواج ملا اور طلبہ میں برداشت ختم ہوئی. پھر دو وی سیز یعنی منظور الدین اور ارتفاق علی نے ایم کیو ایم کی جانب جھکائو رکھ کر جو تلافی کی اس نے طلبہ میں نئی عدم برداشت روا کی جس نے طلبہ کو کچل ڈالنے کی سوچ اساتذہ میں عمومی بنائی. پھر عبدالوہاب کے دور میں تو انتہاء ہو گئی۔ عبدالوہاب آئی بی اے کراچی کے ڈائرکٹر تھے۔ اس وقت آئی بی اے کراچی یونیورسٹی کا ایک انسٹیٹوٹ تھا۔ کئی اساتذہ کو وہاب برطرف کرتے اور یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ میں اساتذہ کے نمائندے ان کے خلاف مزاحمت کرتے۔ آئی بی اے اشرافیہ کا عجیب ادارہ تھا کہ نام کو سرکاری تھا۔ اس کے بورڈ میں صنعت اور تجارت کے لوگ ملٹی نیشنل کے نام پر ہوتے اور یہاں اساتذہ کو کسی قسم کی بھی علمی آزادی نہ تھی۔ عالم یہ تھا کہ وہاب کے ۱۵ سالہ دور میں ان کے علاوہ کوئی پروفیسر نہ بن سکا اور نہ کوئی یا پی ایچ ڈی کر پایا۔ پھر پیپلز پارٹی کے ۱۹۹۴ کے دوسرے دور میں وہاب کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا دیا گیا اور بہت ہنگاموں اور احتجاج کے باوجود جب تک پیپلز پارٹی کی حکومت ختم نہ ہوئی تب تک وہاب وی سی رہے۔ عجیب بات یہ تھی کہ بے نظیر اپنے آپ کو جمہوری کہتیں اور وہاب کا سارا کام آمرانہ ہوتا۔ ان کے دور میں یونیورسٹی کو ایک اسکول بنانے کی کوشش کی گئی۔ اساتذہ نمائندگی باضابطہ انتظامی سرپرستی ڈھونڈتی، طلبہ ہاسٹل ختم کیے، رینجرز کو مستقل کیا اور یونیورسٹی اداروں جیسے سینیٹ سنڈیکیٹ کو وی سی کا مہرہ بنانے کی کوشش ہوئی. انتظامیہ نے ٹینڈر دے کر ٹارچر ایکوپمنٹ جیسے الیکٹرک شاکر خریدے اور کرپشن مخالفت میں استعمال ہوئے. ایوننگ پروگرام شروع کر کے یونیورسٹی اساتذہ کو گھنٹہ اجرتی ملازم بنایا اور تعلیم کو کمرشل کاروبار سمجھنے کی سوچ عام کی. جالبی دور تک اساتذہ اور طلبہ پر 1969 کی تحریک کا اتنا اثر تھا کہ علمی و سیاسی مزاحمت ایک فرض جیسا درجہ رکھتی سیاسی اساتذہ و طلبہ میں، یونیورسٹی طلبہ کے لیے ہے کا شعور ہر اوسط شاگرد و استاد کی فکر میں تھا. وہاب دور میں یہ سوچ بدلی، کیریر کے لیے سفارش انتظامیہ کی گڈ بکس میں ہونا سمجھی جانے لگی، یونیورسٹی میں تحقیق استاد کا اصل کام ہے کی جگہ نجی یونیورسٹی و کوچنگ سینٹرز کو اضافی کمائی کا موقع سمجھا جانے لگا. ڈاکٹر وہاب اور جالبی صاحب دونوں اپنے آپ کو اچھا ایڈمنسٹریٹر نہ صرف کہتے بلکہ انکے مصاحبین انھیں ایسا سمجھتے ہوئے اداروں و اقدار کی پامالی کو اس ترقی کے عمل میں ناگزیر دقت و تکلیف قرار دیتے. بیوروکریٹ یونیورسٹی کو علمی نہیں کاروباری جگہ سمجھتے ہیں. یہ جتنا دور رہیں اتنا اچھا.
تحریک اور وائس چانسلر
چیف منسٹر کی ۲۴ جنوری کی تقریر میں ایک پہلو کہ یہ ایک یا دو تین یونیورسٹیوں میں شور ہے دراصل ایک اشارہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز ہڑتالی اساتذہ کی پشت پناہی بند کر دیں۔ یہ بھی ایک منفرد صورتحال ہے۔ وائس چانسلر اگر بیوروکریٹ کو تعینات کرنے کا قانون اسمبلی نے منظور کر دیا تو یقینا یونیورسٹی کے پروفیسرز جو ابھی وائس چانسلر ہیں انکی ٹرم ختم ہونے پر ان کی دوبارہ تعیناتی ممکن نہ ہو گی۔ البتہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کبھی ایکٹ میں ترمیم ہوئی تو اس کے خلاف پہلے مرحلے میں وائس چانسلرز یونیورسٹی کی اندرونی اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اس ترمیم کو باآسانی قبول نہیں کرتے کہ یہ انہی کے اختیار کو کم کر رہی ہوتی ہے۔ ۱۹۸۱ میں جنرل ضیاء نے یونیورسٹی ایکٹ ۱۹۷۲ میں پہلی ترمیم کی۔ اس ترمیم کا مقصد چانسلر کا برطرفی کا اختیار بڑھانا اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں بیوروکریسی کی نمائندگی بڑھانا تھا۔ اصل ایکٹ میں سندھ اسمبلی کے چھ اراکین سنڈیکیٹ کے رکن ہوتے تھے، انھیں ختم کر کے ایمننٹ پرسنز کے نام پر مارشل لاء کے ہمنوا بیوروکریٹس و اشرافیہ کو سنڈیکیٹ کا رکن بنایا گیا۔ تیسری ترمیم ۲۰۰۲ میں یونیورسٹی ایکٹ ۱۹۷۲ کی جگہ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ لگانے کی صورت میں ایک کوشش تھی جو ملک گیر اساتذہ اور طلبہ تحریک جس کی قیادت کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے کی کے سبب ناکام ہوئی۔ اس وقت بھی وائس چانسلرز اس نئے ایکٹ کو اپنے اختیار مخالف سمجھتے اور ابتداء میں انہوں نے یونیورسٹی میں احتجاج پر پابندی بھی نہ لگائی لیکن بعد ازاں ایچ ای سی بنانے والے فوجی مارشل لائی جنرل مشرف کے مشیروں کے دباو میں یہ اساتذہ مخالف اس حد تک ہو گئے کہ وائس چانسلر ظفر سیفی نےٹیچرز سوسائٹی پر جون ۲۰۰۲ میں ایک مقدمہ کر دیا کہ انہیں اجلاس کرنے سے روکا جائے۔ یونیورسٹی کا آرٹس آڈیٹوریم جون تا ستمبر تک اساتذہ کے لیے بند تھا اور احتجاج آرٹس لابی میں زمین پر بیٹھ کر ہوتا۔ اس تحریک میں ستمبر ۲۰۰۲ میں پروفیسر پرویز صدیقی کو اچانک برطرف بھی کر دیا گیا جو ہڑتال کے بعد بحال ہوئے اور آٹھ ماہ بعد وائس چانسلر برطرف کر دئیے گئے ۔ اسی طرح ۲۰۱۸ میں جب یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم ہوئی تو وائس چانسلر اجمل خان اس ترمیم کے خلاف سوچ رکھتے لیکن جب ترمیم ہو گئی تو پھر اسی کے تحت یونیورسٹی بخوشی چلاتے۔ ۲۰۲۲ میں یونیورسٹی میں ایکسٹرنل ڈگری پروگرام ختم کر کے ایچ ای سی نے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام نافظ کیا۔ اس کے خلاف اساتذہ نے چار ماہ تحریک چلائی اور اس کے ابتداء میں وائس چانسلر خالد عراقی نے اس کے خلاف سیمینار کی صدارت کی جو اساتذہ نے منعقد کیا تھا۔ ان کا رویہ بھی کئی ماہ اس خاتمے کے خلاف تھا کہ اس سے یونیورسٹی کو ملنے والی خاطر خواہ آمدنی بند ہونے جا رہی تھی ۔ لیکن چند ماہ بعد اسی اکیڈمک کونسل سے یہی پروگرام منظور بھی کروا لیا گیا۔
وائس چانسلرز اپنے طور اسی بیوروکریسی کے نمائندے ہوتے ہیں جو چیف منسٹر ہاوس میں بیٹھی ہے۔ یہ ایک حد تک ہی کسی علم دشمن ترمیم کے خلاف جا سکتے ہیں۔ اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کو ہر موقع پر اپنی قوت اور اپنے نظم پر اعتماد ہونا چاہئیے۔ ہم ہیں تو یونیورسٹی ہے۔ ہم کلاس لیں گے تو یونیورسٹی چلے گی۔ ہم کام چھوڑ دیں تو یہ صرف عمارتیں بے مصرف ہیں۔ اسی لیے اساتذہ کا احتجاج، اس کا دائرہ کار وسیع ہونا، اس تحریک میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت، اس میں مزدوروں، سول سوسائٹی، سیاسی پارٹیوں کی شمولیت ہی اسے ایک ناقابل تسخیر قوت بنا سکتی ہے اور سندھ حکومت کو پسپا کر سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights