سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
ذہن میں رکھیں کہ کراچی میں 40 سال کے بعد مرد و عورتوں کی “سفید بھنویں اور سفید پلکیں” بڑھتی عمر یا بیماری نہیں، ان کے جسم کا خاموش اشارہ/ Silent Signal ہیں. ان سب کے جسم Body میں منرلز شدید ڈسٹرب ہورہے ہیں۔
کراچی میں زیادہ تر فلٹریشن پلانٹس یا واٹر کمپنیاں جو “میٹھا پانی” بیچ رہی ہیں، یہ سب دراصل زیرِ زمین بورنگ کا پانی (Groundwater) استعمال کرتی ہیں، یہ پانی زیادہ تر :
۔Hard water (سخت پانی) ہوتا ہے۔
۔TDS (Total Dissolved Solids) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
۔اس میں کیلشیم، میگنیشیم، سوڈیم، فاسفیٹ، فلورائیڈ، آئرن اور آرسینک کی مقدار نارمل حد سے زیادہ ہوتی ہے۔
یہ بات ریسرچ سے ثابت ہے کہ Hard water انسانی جسم کے بالوں کے follicles کو کمزور کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ scalp اور skin کی سطح پر oxidative stress بڑھا دیتا ہے یہ Melanin-producing cells (melanocytes) کو نقصان پہنچاتا ہے۔
(حوالہ: International Journal of Trichology, 2018; “Impact of Hard Water on Hair Damage”)
کراچی کے 80٪ سے زیادہ رہائشی علاقوں (خصوصاً گلستانِ جوہر، کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد) اور سیوریج کے گندے ندی، نالوں کے ساتھ آباد علاقوں میں زیرِ زمین پانی (بورنگ) میں فلورائیڈ اور آرسینک کی سطح خطرناک حد سے زیادہ ہے۔
کراچی کے زیادہ تر غیر ریگولیٹڈ فلٹر پلانٹس میں کوئی لیبارٹری پیمانہ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ TDS بڑھانے یا “Mineral Mixing” کے لئے اندازاً اور غیر معیاری نمکیات (خصوصاً سوڈیم کلورائیڈ اور میگنیشیم سلفیٹ) کو شامل کرتے ہیں۔ یہ نمکیات ہر جسم کے micronutrient absorption میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اگرچہ اسطرح کھارا پانی میٹھا اور پینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مگر جسم میں کاپر (Copper)، زنک (Zinc) اور وٹامن B12 کی کارکردگی نہایت متاثر ہو جاتی ہے۔
کراچی کے رہائشیوں کا مسلسل کئی سالوں سے hard یا chemically treated پانی پینے سے سر کے بالوں، بھنوؤں، پلکوں کا سفید ہونا اور جھڑنا اب عام مشاہدہ ہے۔ کراچی کے شہری مردوں میں چہرے کا دبا رنگ، موٹا پیٹ، گنجا سر، چھوٹا قد عام ہورہا ہے۔تو خواتین کی ہیئت میں پتلے بال، اوپری باڈی دبلی اور بھاری کولہے اور رانیں ہیں۔ یہ جینیاتی تبدیلی کراچی میں مختلف صوبوں، گاؤں، علاقوں سے آ کر بسنے والوں مردوں و عورتوں میں بھی ہونے لگی ہے۔
۔PCRWR (Pakistan Council of Research in Water۔ Resources) کی 2023ء ریسرچ رپورٹ کے مطابق:
کراچی کے 83٪ فلٹر پلانٹس ناقص ترین معیار کا پینے کا پانی فراہم کرتے ہیں۔
کراچی کے فلٹر پلانٹس کا سائنسی میکانزم یہ ہے :
1. Hard water یا chemically treated water → Free radicals پیدا کرتا ہے
2. Free radicals → Melanocytes پر oxidative damage
3. Melanocytes کمزور → Melanin کم → بھویں، پلکیں، بال سفید
کراچی میں فلٹر شدہ بورنگ پانی پینا مجبوری ہے۔ فلٹر پانی “ڈیڈ واٹر” ہوتا ہے۔ صوبائی اور شہری حکومت کو کوسنے کے بجائے اپنے جسم میں Micronutrient deficiency روکنے کے لئے روزمرّہ شیڈول میں یہ عادات شامل کرلیں :
• کالا نمک یا ہمالیئن پنک سالٹ (چٹکی بھر روزانہ)
• پالک، مچھلی، بادام، کھجور، کدو کے بیج (pumpkin seeds)
• کولڈ ڈرنکس کے بجائے لیموں پانی اور ناریل پانی پیئں۔( الیکٹرولائٹس قدرتی طور پر بحال رہتے ہیں۔)
• بالوں اور چہرے کو بورنگ پانی سے دھونے کے بعد صاف RO یا ابلا پانی سے ایک چھینٹا لازمی ماریں۔
• شیمپو کم استعمال کریں، (صرف شادی بیاہ یا تقریب کے وقت) اور شیمپو کی بوتل پر لکھے اجزاء میں “sulfate” شامل نہ ہو۔
• ناریل، زیتون اور بادام کا تیل سر کے بالوں اور چہرے مثلاً بھنویں، پلکوں، داڑھی پر لگائیں۔ یہ Melanin کو نیچرل سپورٹ دیتا ہے۔
• چائے خانوں، ہوٹلوں میں بورنگ کا ڈائریکٹ میٹھا پانی ہوتا ہے۔ برف بھی انھی پانی سے جمتی ہے۔ پیاس میں دو چار گھونٹ پی لیں، مگر دھڑا دھڑ پینے سے گریز کریں۔
• کسی بھی ایونٹس میں شرکت کے وقت اپنا پانی پرس، گاڑی یابائیک پر رکھیں۔ عموماً زیادہ تر جگہوں پر ناقص پانی( بورنگ کا ڈائریکٹ پانی، واٹر ٹینکر پانی) پینے کے لئے رکھا ہوتا ہے۔ کیونکہ صاف منرل پانی، کولڈ ڈرنکس سے زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔
• جن گھروں یا علاقوں میں پانی، ٹینکر سے منگواتے ہیں۔ وہ یہ پانی لازمی فلٹر اور ابال لیں۔ سرکاری ہائیڈرنٹس کا پانی بہتر ہے۔ لیکن پرائیویٹ ٹینکر/ ٹنکیاں والے جوہڑ ، ٹوٹی لائنوں اور بورنگ کا بھاری پانی سپلائی کرتے ہیں۔
مزید کچھ عملی اقدامات :
• کرایہ دار ان رہائشی علاقوں میں گھر ڈھونڈیں، جہاں کچھ دنوں بعد “سرکاری پانی” آتا ہو، اس پانی کو فلٹر یا ابال کر پینے، کھانا پکانے، بالوں اور چہرے کو دھونے میں استعمال کیا جائے۔ یہ بورنگ سے بہتر پانی ہے۔
• فلٹر پلانٹ 8 سے 10 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرکے سالوں بورنگ پانی کو بیچتے ہیں۔ یہ فلٹر کارٹریجز، میمبرین کو تبدیل نہیں کرتے۔ کراچی کے گلی کوچوں میں کھلے فلٹر پلانٹس ایک مضبوط مافیا ہیں۔ اس لئے اپنے گلی محلوں میں موجود ان دکانداروں سے TDSمیٹر کے بارے میں لازمی پوچھیں۔ جو زیادہ تر پلانٹس پر موجود نہیں ہوتا۔ اور پانی کی کوالٹی کا پتہ نہیں چلتا۔
• فلٹر پلانٹ کا PCWRR یا KWSB ٹیسٹ سرٹیفکیٹ دیکھنے کا مطالبہ کریں۔
• ورنہ ان فلٹر پلانٹس سے اپنے کین/ بوتلیں بھروائیں، جن کی فائبر ٹینکیاں کم از کم صاف ہوں۔ زیادہ تر ٹینکیاں بورنگ پانی کی مسلسل بھرائی کیوجہ سے پھپھوند لگی ہوتی ہیں۔ یہی ٹینکیاں بیمار کررہی ہیں۔
• اپنے لئے ایک TDS میٹر (Online 500–700 روپے کا آلہ) خرید لیں۔ اور روزانہ نہیں، لیکن ہفتے میں ایک بار اپنے خریدے گئے فلٹر پانی کو چیک کرلیں۔ Ideal TDS: 150–300 ppm ہے، اگر 700 ppm سے اوپر ہے تو آپ زہر خرید رہے ہیں۔ فورآ اس واٹر پلانٹ کا بائیکاٹ کردیں۔ 50 ppm سے کم پانی کو “Dead Water” کہتے ہیں۔
• فلٹر پانی کا ذائقہ بھی اشارہ دیتا ہے۔ اگر پانی بہت میٹھا یا چپچپا لگے تو دکاندار نے منرلز کے ساشے زیادہ ڈالے ہیں۔ اگر پانی بے ذائقہ ہے تو نمکیات کی کمی ہے۔
• اگر بجٹ اجازت دے تو اپنے گھریلو استعمال کے لئے “RO + UV combo filter” (15–20 ہزار روپے) کا اچھا سسٹم لگا لیں۔ عموماً یہ سسٹم 2 سال تک صاف پانی کی گارنٹی دیتا ہے۔
