تحریر: سعد احمد
کے الیکٹرک مافیا کے خلاف ٹمبر مارکیٹ سے تحریک اٹھانے والے شرجیل گوپلانی کو جس طرح “بہادرآبادی” ایم کیو ایم نے زیر کیا ہے، شہر کراچی میں ہر طرف سے ان پر تھو تھو جاری ہے۔
کہنے کو بہادر آباد رابطہ کمیٹی کے لوگ “کے الیکٹرک” کے خلاف احتجاج کرتے تھے، کہ اجارہ داری ختم کرو، اب جیسے ہی “کے الیکٹرک” کے خلاف شرجیل گوپلانی نے تحریک کا بھاری پتھر اٹھایا، اور محض ایک دو دن پہلے جارحانہ انداز میں یہ تک کہہ دیا کہ مجھے حادثاتی طور پر بھی کچھ ہوا تو “کے الیکٹرک” ذمہ دار ہوگی، ویسے ہی بھائی لوگوں کو “پریشانی” لاحق ہوگئی۔
دوڑے دوڑے “کے الیکٹرک” کے در پر گئے اور اپنی “خدمات” پیش کردیں، ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ رابطہ کمیٹی کی یہ کٹھ پتلیاں کس کے اشارے پر رقصاں ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب یہ بدترین ذلتوں میں ڈوب گئے ہیں۔!
کراچی والے سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہوا وہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو ” کے الیکٹرک” سے بھتے لیتی تھی! اس لیے شہر پر بجلی کا عذاب مسلط ہے۔
بقول مصطفیٰ کمال کے کہ بانی متحدہ بار بار پیپلزپارٹی کی گود میں بیٹھ جاتے تھے، جس کی وجہ سے وہ “ایم کیو ایم” سے نکلے
سابق ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی نے بھی کہا تھا کہ رحمن ملک کی ایک کال پر انھیں بھائی کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ پیپلز پارٹی کو ابھی برا بھلا کہہ رہے تھے اب کس طرح کہیں گے کہ ساتھ بیٹھ رہے ہیں!
آج سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ کیا ہوا 2016 سے سات سالوں میں کون سے معرکے سر کرلیے الطاف حسین کا پتا صاف کر کے؟
وہی حکومتوں میں بھی آخری دم تک موجود رہے، وہی ذلتیں، کون سے مسئلہ حل کرایا کراچی کا؟
کوٹا سسٹم، بلدیاتی نظام؟ پانی بجلی؟ مہاجر شناخت؟
وہ کیا ہوا عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ، جو رابطہ کمیٹی کے فرعون یہ کہتے ہیں کہ وہ تو لندن میں تھے، یہاں ہم سب کچھ کراتے تھے، تو اب تک کیا کچھ کرالیا؟
اب ان حرکتوں کے بعد انھیں کتنے جوتے پڑنے ہیں وہ ظاہر ہو جائے گا۔
لیاری، کیماڑی، سہراب گوٹھ اور مواچھ گوٹھ جیسے غیر مہاجر حلقوں میں ووٹ بینک بنانے والے مصطفیٰ کمال کو اب وہیں بسیرا کرلینا چاہیے، کراچی والوں کے دلوں سے اب یہ بالکل ہی اتر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کوئی بھی ہو، اس کا تحریکوں کو ناکام کرنے کا سلسلہ پھر موضوع ہے کہ جیسے ہی کوئی عوامی تحریک ہوتی ہے، یہ اپنا مکروہ کردار ادا کرتے ہیں، جیسا کے الیکٹرک کے خلاف عوامی ردعمل کو بڑھنے سے روکنے کی یہ کوششش کی ہے کہ شرجیل گوپلانی سے معافی دلوائی اور ان کے مقدمے واپس لے کر انھیں ٹھنڈا کردیا، ممکن ہے کہ انھیں آمادہ کیا ہو گا کہ ٹیکس کے معاملے میں رگڑ دیں گے یا پھر یہ کہا ہوگا کہ اپنا مسئلہ حل کرلیجیے اور باقی چھوڑ دیجیے کہیں پورا کراچی اگر مہنگائی کے خلاف نکل آیا تو “مائی باپوں” کو مصیبت پڑ جائے گی۔
آپ کو یاد ہوگا پچھلے ماہ بہادر آبادی ٹولے کی “اے پی ایم ایس او” نے جامعہ کراچی سے بانیان پاکستان کی تصاویر بھی اتاری تھیں، اور قوم سے جھوٹ بولا تھا کہ یہ نئی تصاویر پینٹ ہوں گی، بالکل ایسے ہی آج بہادر آبادی ٹولے نے عوام کے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
ان کی ذلت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جو تصویر ٹوئٹر پر لگائی گئی ہے، اس میں شرجیل گوپلانی کے ساتھ بہادر آباد گروپ کی رابطہ کمیٹی کے ارکان خالد سلطان کو دیکھا جاسکتا ہے، جب کہ اس ساری “سودے بازی” میں شریک دوسرے معزز رکن نے کیمرے سے بچنے کے لیے اپنا منہ چھپایا ہوا ہے۔ جو کہ سابق نائب میئر کراچی ارشد وہرہ ہیں، جو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے بعد ایک دن مصطفیٰ کمال کے پاس پائے گئے تھے اور جب مصطفیٰ کمال نے بہادر آباد گروپ “فتح” کیا تو یہ دوبارہ اپنے بچھڑے ہوئے “بھائیوں” کے شانہ بہ شانہ دکھائی دیتے ہیں۔
اس تصویر پر ایک سیاسی کارکن نے دل چسپ انداز میں لکھا کہ یہ منہ چھپانے والے لوگ تو پہلے کہتے پھرتے تھے کہ
“نہ منہ چھپا کے جیے
نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے
نظر ملا کے جیے
اب ایک رات کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ مشعلیں جلا کے جیے
Categories