Categories
Karachi Rizwan Tahir Mubeen اچھی اردو اردوادب انکشاف انور مقصود تہذیب وثقافت جامعہ کراچی دل چسپ ذرایع اِبلاغ رضوان طاہر مبین کراچی

’قومی زبان‘ کی سترھویں عالمی بزم!

چار روزہ علمی وادبی محفلوں کا دل چسپ احوال اور کچھ مشاہدات
تحریر: رضوان طاہر مبین
’کراچی آرٹس کونسل‘ کی روایتی سالانہ اردو کانفرنس پانچ تا آٹھ دسمبر 2024ءکو سجائی گئی، جس میں اس بار ’جشن کراچی‘ کے عنوان کو ساتھ منسلک کیا گیا، اس بار بھی کئی پروگرام بہ یک وقت دو اور تین جگہوں پر جاری رہے، جس کی وجہ سے جہاں شائقین ادب کو متنوع موضوعات کی سہولت ملی، وہاں کبھی ایک پروگرام کی قیمت دوسری نشست میں عدم شرکت کی صورت میں بھی ادا کرنی پڑی۔ ہم اپنے تئیں کانفرنس کے چاروں دن مختلف علمی اور ادبی محافل میں رولتے موتی محفوظ کرنے کی سعی کرتے رہے، جس کا مختصر سا احوال اگلی سطروں میں پیش خدمت ہے۔
’سترھویں عالمی اردو کانفرنس‘ کی افتتاحی تقریب پہلی بار ’آرٹس کونسل‘ کے بہ جائے ’وائے ایم سی اے‘ کے وسیع میدان میں منعقد ہوئی، جس میں افتخار عارف، انور مقصود، شیخ الجامعہ جامعہ کراچی ڈاکٹر خالد عراقی، شیخ الجامعہ ’این ای ڈی‘ ڈاکٹر سروش لودھی، منور سعید، نور الہدیٰ شاہ، مظہر عباس، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، وزیر ثقافت ذوالفقار علی شاہ اور کمشنر کراچی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کراچی آرٹس کونسل کے 70 سال پورے ہونے پر ایک انگریزی دستاویزی فلم دکھائی گئی، اردو کانفرنس میں انگریزی زبان پر ہمیں خاصا اچنبھا ہوا۔ ڈاکٹر ہما میر نے کہا کہ اس وقت کرہ ارض پر آرٹ کو سب سے زیادہ فروغ صدر کراچی آرٹس کونسل احمد شاہ دے رہے ہیں۔ احمد شاہ نے کہا کہ 17 برس پہلے کراچی میں مختلف برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھیں، ہم نے اردو کانفرنس میں ان کا مکالمہ کرایا، انھوں نے آرٹس کونسل کا انتخاب لڑنے پر بغیر نام لیے ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے اپنے قتل کی ایک مبینہ دھمکی کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ افتخار عارف نے پھر انھیں سمجھایا۔
غازی صلاح الدین نے کہا ”ان کا تعلق کراچی سے 1948ءسے ہے، یہاں کے لوگ پہلے یادِرفتگاں کے سِحر میں رہے، یہاں سے تعلق پیدا نہیں ہوا۔“ ہمیں حیرت ہوئی کہ اس کے بعد شہر والوں کا یہاں جو والہلانہ احساس وابستگی ہوا، انھوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ انور مقصود نے کہا جسے ایوارڈ ملتا ہے، وہ تو بہت خوش ہوتا ہے، لیکن دیکھنے والے گالیاں دیتے ہں۔ اگرچہ انور مقصود خود بھی ٹی شرٹ پہنے تھے، لیکن انھوں نے اردو کانفرنس میں احمد شاہ کے غیر اردو لباس پر چُٹکی لی۔ اس کے ساتھ مختلف زبانوں میں لائف ٹیم اچیومنٹ ایوارڈ دیے گئے، جس سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی (اردو)، عبدالحمید اخوند (سندھی)، رمضان بلوچ، (بلوچی)، ثروت محی الدین (پنجابی)، اباسین یوسف زئی (پشتو) اور رفعت عباس (سرائیکی) کو نوازا گیا۔ اس کے بعد تابش ہاشمی اور وسیم بادامی کی کراچی پر طنز ومزاح پر مبنی گفتگو رہی، ماضی کی ہڑتالوں اور موبائل چھیننے کے واقعات سنائے۔

٭ بچوں کو نہ پڑھایا تو زبانیں مرجائیں گی!
’بچوں کا ادب‘ عالمی اردو کانفرنس کا ایک اہم موضوع تھا، جس سے اظہار خیال کرتے ہوئے بچوں کے معروف لکھاری ابن آس نے افسوس ناک منظر نامے کا ذکر کیا اور بتایا کہ 1960 اور 1970ءکی دہائی میں جنھوں نے بچوں کے لیے لکھا، وہ اپنی بچوں کے لکھاری کے طور پر شناخت چاہتے ہی نہیں تھے، ان سے بچوں کی چیزیں زبردستی لکھوائی گئیں، ابن صفی اور علامہ اقبال بھی بچوں کے لکھنے والے نہیں، مظہر یوسف زئی، حنیف سحر، محمود شام، علی حسن ساجد اور احفاظ الرحمن نے بہت لکھا۔ صرف ’ساتھی‘ رسالہ بچوں کے ادیب کی تربیت کرتا تھا، جو ’بچوں کا اسلام‘ کے بعد سب سے زیادہ چھپتا ہے، نونہال تیسرے نمبر پر ہے۔ سب ’بھائی جان‘ کا ذکر کرتے ہیں، لیکن وہ ایک ناکام تجربہ تھا، شفیع عقیل سے بچوں کے لیے بندوق کے زور پر لکھوایا گیا، فہمیدہ ریاض اس لیے بڑی ادیب ہوگئیں کہ انھیں ’آکسفورڈ‘ نے شائع کر دیا، ہمارے لکھنے والے بچوں کے ادب کو اہمیت نہیں دیتے، اپنی سوانح تک میں اس کا ذکر نہیں کرتے، بچوں کے لیے 100 کہانیاں لکھنے والے ادیب نے کہا کہ وہ تو کوئی ادب ہی نہیں! بچوں کے 20 رسائل ختم ہو گئے، اب یہ والدین کی ترجیح ہیں اور نہ مشتہرین کی۔ ڈاکٹر ثنا غوری نے کہا آج بھی ’نونہال‘ 20 ہزار چھپتا ہے، نونہال 1953ءتاحال شائع ہو رہا ہے، 2020ءتک تمام شمارے آن لائن دست یاب ہیں، باقی پر کام جاری ہے، نونہال کو انگریزی میں شائع کرنا حکیم محمد سعید کا ہی خواب تھا، جو پورا کیا گیا ہے۔ رومانہ حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے بچوں کو نہ پڑھایا تو ہماری زبانیں مر جائیں گی، پہلے کتابیں کم، رسائل زیادہ تھے، احفاظ الرحمن کو سب بطور صحافی جانتے ہیں، لیکن انھوں نے بچوں کے ناول ترجمہ کیے۔ بچوں کے لیے مقامی تصویری سے مزیّن کہانیاں بہت ضروری ہیں۔ بیلا رضا جمیل نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ بچوں کی محفلوں کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔ بچوں کے ادب کا جشن دھڑلے سے ہونا چاہیے۔ بچوں کو ترنم سے سکھائی گئی چیز یاد رہتی ہے، ہم نے بچوں کے لیے یہ سرگرمیاں رکھی ہیں، یہ سلسلہ اسکولوں اور گھروں میں بھی رائج ہونا چاہیے، اسمعیل میرٹھی کی ’رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی‘ ایک حمد ہے، لیکن کس قدر خوب صورتی سے ’غذائی زنجیرہ‘ بھی سکھاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی رہی کہ بچوں کے ادب کی یہ نشست مسعود احمد برکاتی (مرحوم) کے کسی ذکر کے بغیر ہی مکمل ہوگئی، وہ ریکارڈ ساز مدیر، جو 60 سال سے زائد عرصے تک بچوں کے مقبول ترین رسالے کا مدیر رہا اور جس نے بچوں کی خاطر اپنے بڑوں کے ادیب کی شناخت تج دی تھی!

٭ ”جاپانی سفارت خانہ ہے، ہائیکو زندہ رہے گی“
’اسلوبِ غزل‘ کے حوالے سے ہونے والی بیٹھک میں خصوصیت کے ساتھ کراچی کا ذکر ہوا، احمد مبارک گویا ہوئے کہ کراچی کا دن سے کوئی تعلق نہیں، یہ راتوں کا شہر ہے۔ معروف شاعر جاوید صبا کا خیال تھا کہ ہجرت تنہائی کا موضوع ہے، مصطفیٰ زیدی اور جون ایلیا نے اس پر کام کیا۔ مصطفیٰ زیدی کے ہاں جمال پرستی ہے، جو نظر اندازی کے احساس کے ساتھ ملتی ہے، جو محبوب کو بے وفائی پر اس کی اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ ضیا الحسن ضیا بولے کہ وہ کسی کو کراچی اور لاہور کے شاعر کے طور نہیں دیکھتے، سلیم احمد کو قصہ¿ پارینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جو لوگ شعر جاننا چاہتے ہیں، وہ ان سے رجوع کرتے ہیں، وہ ایک ایسی تربیت گاہ ہیں، جہاں جمال احسانی سے اجمل سراج تک سب سیکھتے ہیں۔ عزیز حامد مدنی ایک اسلوب کے نمائندے تھے۔ فراست رضوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہجرت اور حالات میر کے عہد سے مماثل ہیں۔ اشفاق حسین نے یوں بات سمیٹی کہ ”ایک اسلوب عہد کا ہے، شہر کا بھی ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر شخصیت کا ہوتا ہے۔ صاحب اسلوب کے شعر کو پڑھا جائے، تو نام بتانے کی ضرورت نہ ہو، نام پوچھنے سے اسلوب کی اہمیت کم ہوتی ہے، ہر نمائندہ شاعر صاحب اسلوب نہیں ہوتا۔ افتخار عارف نے صدارتی اظہاریے میں فرمایا ’میں نے ادب درسی کتب کے بہ جائے شاعری سے سمجھا۔ ایک ہی موضوع کو اسلوب ہی مختلف کرتا ہے۔ عزیز حامد مدنی کا مصرع پڑھیے، تو پتا چل جاتا ہے۔ ہجرت پر محشر سے سرشار صدیقی تک، سبھی نے کچھ نہ کچھ لکھا، لیکن محشر نے جس کلاسیکی انداز میں لکھا، وہ ان کے کسی اور ہم عصر نے نہیں لکھا، اب محبوب خزاں اور رئیس فروغ کا ذکر نہیں ہوتا، اللہ شکر ہے کہ انھوں نے سب اچھا لکھا، میں رئیس کی غزل سیکھنے کے لیے پڑھتا ہوں
رات بہت ہوا چلی، اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آگئی
”دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے“ اس مصروع کو ایک ہی بحر میں چھے سات طریقوں سے ہم وزن کیا جا سکتا ہے۔ ن م راشد جدید لیکن فارسی آمیز شاعر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مصرع کیسے بنا رہے ہیں۔ آپ کے مصرع سے مجھے آپ ہی یاد آئیں کوئی اور نہ آئے۔ ہم کیوں مصطفیٰ زیدی کا ذکر نہیں کرتے، اگر ’کریکٹر سرٹیفکیٹ‘ لیں تو پھر غالب اور میر سبھی رہ جائیں گے۔ جمیل عالی کا قصور یہ تھا کہ وہ گاڑی میں اور سوٹ پہن کر غزل کہنے آتے تھے، ان کا بہت اچھا کلام ہے۔ جب تک جاپانی سفارت خانہ ہے، ہائیکو بھی زندہ رہے گی!

٭ ادب غلام ہوگا تو تنقید بھی آزاد نہ ہوگی!
’اردو تنقید‘ کے حوالے سے نشست ایک نہایت سنجیدہ حلقہ رہی۔ اس حوالے سے ضیا الحسن ضیا گویا ہوئے کہ حسن عسکری پر پورے کراچی کو فخر ہو سکتا ہے، وہ فراق کے تربیت یافتہ تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ساری تنقید کی بنیاد تہذیب ہے۔ اس شعبے کے آفتاب وماہتاب سلیم احمد ہیں، انھوں نے پوری تنقید کو متاثر کیا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا خیال تھا کہ جیسا ادب ہوگا ویسی ہی تنقید ہوگی، اگر ادب غلام ہوگا، تو دوسروں کے غم پر آنسو اور ان کی خوشی پر قہقہہ لگائیں گے، یہی تسلسل جاری ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اردو تنقید میں خانوادہ¿ نذیر کو بھولے جا رہے ہیں، یہاں کے ہجرت کرنے والوں میں عدم اور جالب ہی کیوں نہ ہوں، اہم ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا ”ممتاز شیریں بھی ایک نمایاں خاتون نقاد تھیں، جو نظر انداز ہوتی ہیں۔“ انھوں نے ’واوین‘ کا اِبلاغ کرنے کے لیے ”کوٹ“ اور پھر ”ان کوٹ“ کرکے ایک اقتباس بھی پڑھا۔

٭ میں نے کھالیا ہے؟ یا میں نے کھایا ہے؟
”جاپان: اردو کی ایک زرخیز سرزمین“ اس کانفرنس کا ایک دل چسپ اور اہم موضوع تھی کہ اس کے جاپانی مہمان کین ساکومامیا تھے، ان سے اردو ہی میں محو کلام خرم سہیل تھے۔ ہوا یوں کے بہ یک وقت مختلف نشستیں جاری تھیں، اور دوسری نشستوں سے انصاف کرنے کے چکر میں ہم اس اہم نشست سے کچھ زیادہ مستفید نہ ہو سکے، لیکن جتنا بھی سنا وہ دل چسپی سے خالی نہ تھا۔ جاپانی مہمان نے کہا کہ ”میں نے کھایا ہے“ اور ”کھالیا ہے“ میں کیا فرق ہے؟ اردو میں اس طرح کے فقرے انھیں اکثر الجھا دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جاپان آنے کے لیے آپ کو جاپانی زبان سیکھنی پڑے گی اور محنت کرنا ضروری گا۔

٭ ”بولی ہوگی، تو ہی زبان ہوگی!“
’عالمی اردو کانفرنس‘ میں ’اردو کی نئی بستیاں‘ ہمیشہ سے ایک دل چسپ بیٹھک ہوتی ہے۔ اس موضوع پر راحت زاہد نے اسکاٹ لینڈ میں اقبال سے منسلک محفلوں کا ذکر تخصیص سے کیا۔ تہمینہ راﺅ نے بتایا کہ آسٹریلیا میں کسی زبان کے گیارہ سے زیادہ طلبہ ہوں، تو اس زبان کی تدریس کا انتظام کرایا جاسکتا ہے، سو ہم نے اردو کی تدریس چنی۔ امریکا کا احوال سنانے آئے ہوئے احمد مبارک نے کہا کہ اردو کے لیے شَر میں خیر کے مصداق ہندوستانی فلمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، پہلے سرحدوں کی سختی میں دنیا بھر میں کوئی کام اپنے دَم پر جاتا، اب سہولت سے ہر طرح کا چلا جاتا ہے۔ حمیرا رحمان کا کہنا تھا کہ امریکا میں بچوں کو تعلیمی سفر میں ایک زبان لینی ہوتی ہے، تو ہمارے بچے سماعت آشنا ہونے کی بنا پر اردو لیتے ہیں۔ 45 برس سے کینیڈا میں مقیم شاعر اشفاق حسین نے صدارتی خطبے میں کہا کہ ابھی تو وہاں سب لوگ یہیں کے گئے ہوئے ہیں اور سب اپنے مستقبل کے لیے گئے، ادب اور زبان الگ ہیں، ہم وہاں ثقافتی موقع پر جمع ہوتے ہیں، تو زبان کی بات بھی ہو جاتی ہے، یہ ثقافتی لوگوں کا مشغلہ اور ہمارا مسئلہ ہے! مجھے کینیڈا کے بہ جائے یہاں سراہا جانا معنی رکھتا ہے، بولی اہم ہے۔ بولیں گے، تو زبان ہوگی، زبان کا کانوں میں پڑنا بہت اہم ہے۔

٭ ”تمام شاعر واک آﺅٹ کرگئے!“
اردو کی اولین شاعرات میں شمار کی جانے والی زہرا نگاہ سے صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے خود گفتگو کی۔ اس کام یاب اور بھرپور محفل میں آڈیٹوریم کی تمام نشستیں پُر تھیں اور بہت سے لوگ اندر آنے کو بے قرار تھے، بُہتیرے جگہ پا کر فرش ہی پر بیٹھ گئے، احمد شاہ نے چند ایک جگہ سوالات کیے، زیادہ موقع مہمان کو دیا، لیکن اپنی قربت اور بے تکلفی کا فائدہ اٹھانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ان سے ذاتی زندگی کے بہت سی باتیں بھی چھیڑیں۔ زہرا نگاہ نے بتایا کہ ان کی شاعری کی والدہ نے ہمت بڑھائی، وہ ’تُک بندی‘ تک پر اپنی رائے دیتیں۔ گھر میں بیت بازی ہوتی، اس سے شعر پڑھنا آتا ہے۔ اب کے دور میں بڑوں کا قصور زیادہ ہے۔ میں نے تہذیب و تمیز کرار حسین سے سیکھی کہ جیسے ہلکی سی ندی قریب سے بہتی چلی جا رہی ہے، نہ مرعوب کرنا، نہ مرعوب ہونا۔ رومی نے کہا تھا کہ فراخ دلی علم سے زیادہ ضروری ہے۔ پنڈی میں ایک مشاعرے میں میری زیادہ تعریف کیے جانے پر تمام شعرا واک آﺅٹ کر گئے، اس پریشان کن ہنگامے میں ایک کونے میں حبیب جالب سر جھکائے بیٹھے تھے، پھر انھوں نے اور میں نے مشاعرہ پڑھا اور جب داد ملی، تو باہر سے شاعر بھی اندر آگئے، بہت اچھا مشاعرہ رہا۔ میری خالہ نے کہا شاعر بڑے برے لوگ ہیں، یہ شراب پی کر نالیوں میں گر جاتے ہیں، اس کے تو رشتے نہیں آئیں گے۔ جگر مراد آبادی نانا کے دوست تھے، انھوں نے کہا کہ مشاعرے میں ضرور جاﺅ، مگر لباس اور ڈھب کی احتیاط رکھو، کوئی داد دے، تو جھک جھک کر سلام کرنے کی ضرورت نہیں، آپ عورت ہیں، عورت کا یہ درجہ نہیں، بس سر کی خفیف سی جنبش سے جواب دیجیے۔ مشاعرے کی ’وردی‘ سفید لباس بنا دیا، اس کے سوا اجازت ہی نہ تھی، میرے شریک حیات نے کبھی شاعری سے روکا اور نہ یہ کہا کہ یہ شعر میں ’تم‘ اور ’وہ‘ کس کے لیے آیا ہے۔ ہم ’دکن‘ سے کراچی آکر بغیر کھڑکی دروازے کے گھر میں رہے، کسی نے کہا بیٹیوں کے ساتھ ایسی جگہ رہ رہی ہو؟ تو ماں نے کہا کہ یہ پاکستان ہے، یہاں کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی کچھ کہے! اور حقیقت ہے کہ ہم بسوں میں آتے جاتے، کبھی کوئی فقرہ نہیں کستا تھا۔ پہلے یہاں بیگم جونا گڑھ نے ایک قتل کیا، تو پورا پاکستان ہل گیا تھا، اب تو ایسی خبریں عام ہوگئی ہیں اور کسی پر اثر نہیں۔ میں نے بہت عرصے شعر نہیں کہا، دراصل شوہر سرکاری محکمے میں تھے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں تھا کہ بڑے سرکاری افسر کی بیوی مشاعرہ پڑھے۔ ہم فارسی سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ اگر بیکن ہاﺅس اور ’کراچی گرامر اسکول‘ والوں کو اردو مشکل لگتی ہے تو لگتی رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے نئے شعری مجموعہ بہ عنوان ’تراشیدم‘ منظر عام پر آنے والا ہے۔

٭ ”میں 84 سال ینگ ہوں!“
’میں ہوں کراچی‘ کے زیرعنوان محفل میں ممتاز اداکار منور سعید، مصطفیٰ قریشی منچ پر بیٹھے، ندیم بیگ کی غیر حاضری پر جاوید شیخ نے جگہ پُر کی، نظامت احسن خان نے کی۔ اگرچہ یہ اِسی آڈیٹوریم کا ایک دوسرا پروگرام تھا، لیکن مصطفیٰ قریشی نے وضع داری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ اردو کانفرنس ہے اور زہرا نگاہ صاحبہ کے بعد بات کرنا حفظِ مراتب کے خلاف ہے!“ انھوں نے بتایا کہ پہلی فلم سندھی زبان میں ’پردیس‘ تھی، جس میں وہ سائیڈ ہیرو تھے، جب کہ ’لاکھوں میں ایک‘ پہلی اردو فلم تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے اردو زبان فلم ہی میں سیکھی، ہندوستانی فلموں میں بہت شستہ اردو بولی جاتی تھی، کراچی میں پانچ اسٹوڈیو تھے، اب ایک بھی نہیں!“ جاوید شیخ نے کہا میں پنڈی میں پیدا ہوا، لیکن میری شناخت کراچی سے ہے، یہ پورے پاکستان کو کھلاتا ہے۔ مجھے اداکاری کا شوق تھا، ایک دن دوستوں کے ساتھ بھاگ کر لاہور جانے کا منصوبہ بنایا، 100 روپے چرائے، دو روپے کے لڈو لیے، تو حلوائی نے والد کو خبر کردی کہ تمھارا بیٹا 100 کا نوٹ لایا تھا، انھوں نے گھر جا کر اپنے پیسے گنے اور اپنے ایک دوست کو بس اسٹینڈ، ایک کو تانگا اسٹینڈ کی طرف بھیجا اور خود ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے، وہاں ریل گاڑی سے مجھے گدی سے پکڑ کر لے آئے گھر لا کر مارا، پھر کراچی بھیجا۔ یہاں پڑھائی میں اچھا ہوگیا، پھر ’جاگ اٹھا انسان‘ کی عکس بندی کے موقع پر اداکاری کا موقع ملا، ہمیں منگھو پیر کی پہاڑیوں کی طرف اونٹوں پر ہم دوستوں کو ایک ایک لڑکی کے ساتھ بٹھا دیا، جب حتمی عکس بندی ہونے لگی، تو ہمیں دوپٹہ دیا کہ یہ منہ پر لپیٹ لو، ہم نے کہا اس میں تو ہم دکھائی ہی نہیں دیں گے، انھوں نے کہا کہ اس منظر کے لیے ان کے پاس لڑکیاں نہیں تھیں، اس لیے تم لوگوں کو لیا۔ مجھے قاسم جلالی اور فاطمہ ثریا بجیا نے اردو سکھائی، جب ’شمع‘ ڈرامے میں لیا۔ منور سعید اس محفل میں نوجوانوں کو باقاعدہ ورزش کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہرو کی طرح خود کو ’اولڈ‘ کے بہ جائے ’ینگ‘ کہہ کر عمر بتاتے ہیں، جیسے ’میں 84 سال ینگ ہوں۔‘

٭ علامہ اقبال نے کہا میں شاعر ہی نہیں!
’داستان لکھنﺅ اور دبستان لکھنﺅ‘ دو جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم دستاویز ہے، جس کی تقریب رونمائی ’عالمی اردو کانفرنس‘ کی ایک منفرد اور کلاسیکی محفل رہی، اس بیٹھک میں صحیح معنوں میں اردو تہذیب کے دل فریب رنگ اور دل موہ لینے والی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ زہرا نگاہ نے مولانا شمس باقر کی یہ کتب ازسرنو شائع کرنے والے ان کے نواسے وقار کی دل کھول کر ستائش کی اور کہا کہ وہ لکھنﺅ کو جن چند حوالوں سے جانتی تھیں، اب وقار بھی ان میں شامل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں اتنی دفعہ ہندوستان گئی لکھنﺅ نہ دیکھا۔ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ اگر پہلے لکھنﺅ نہیں دیکھا تھا، تو اب بھی نہ دیکھو۔ میں تو نہیں دیکھ سکتا۔ فراست رضوی نے لکھنﺅ کو دہلوی دبستاں کی توسیع قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب دلی برباد ہوا تو لوگ لکھنﺅ گئے۔ اس کتاب میں پانچویں صدی سے تاریخ ہے، تاریخ زندہ رہ جانے میں مورخ کے تمثیل کو بھی دوش ہوتا ہے۔ ہندوستان سے علی خان محمود آباد نے ’آن لائن‘ شرکت کی اور کہا کہ وہ اگرچہ لکھنﺅ سے کچھ فاصلے پر رہتے ہیں، لیکن انھی قصبوں میں لکھنﺅ کی تہذیب زندہ ہے۔ تمثال مسعود نے امریکا سے براہ راست اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہم نے اردو زبان کو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ زبان کے املا، مذکر مونث اور واحد جمع کو دیکھتے ہیں، جیسے میر انیس نے دانٹ کڑکڑانا لکھا، جب کہ یہ کٹکٹانا ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا ’روکے ہے‘ ’کھینچے ہے‘ لکھنا دلی کی زبان ہے۔ یہ باتیں دلی اور لکھنﺅ سے نکل کر پھر پنجاب کی اردو اور اقبال کی اردو کو کم معیار قرار دینے تک آگئیں، جس پر اقبال نے بھی تنگ آکر کہہ دیا کہ وہ شاعر ہی نہیں اور ایک جگہ اردو کی مذمت بھی کر دی۔ حمید شاہد گویا ہوئے کہ ہم افتخار عارف کو دیکھتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ لکھنﺅ کی تہذیب خوب صورت رہی ہوگی۔ تاہم اس کتاب میں صرف لکھنﺅ ہی کے معیار کو سند کہا گیا، یہ ان سے ہضم نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ باقر شمس باقاعدہ ان کے اردو کے استاد رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں بڑے خانوادوں کے مختلف لوگ رہتے تھے۔ افتخار عارف نے اس حوالے سے رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جو چیزیں ہیںِ وہ جس تناظر میں لکھی گئیں، اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ آپ جسے منفی کہہ رہے ہیں، ممکن ہے کہ وہ منفی نہ ہو، جیسے کھتک ڈانس، آدابِ نشست وبرخاست وغیرہ۔ اردو پر مختلف علاقوں کے دعوﺅں کے حوالے سے جون ایلیا نے کہا تھا کہ جو بھی یہ دعویٰ کرے اردو اس کے ہاں پیدا ہوئی، ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ میں اپنی جنم بھومی لکھنﺅ کو یاد نہ کروں یہ ناممکن ہے۔ وقار حیدر نے اس کی اشاعت نو کر کے اردو پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ شہر اجڑ کر بس گئے، لیکن لکھنﺅ نہ بس سکا۔ میں الف رسل کے ساتھ وہاں گیا، تو انھوں نے توجہ دلائی کہ پون گھنٹے کے سفر میں کوئی ایک بورڈ بھی اردو کا نہ تھا، بس ایک عطر والوں کے پرانے زنگ آلود بورڈ پر اردو دکھائی دی۔ وہاں تو خواجہ معین الدین چشتی کی سوانح تک اردو کے بہ جائے ہندی رسم الخط میں مل رہی تھی۔

٭ ہم نئے ناول قطار لگا کر خریدے جاتے
کسی بھی زبان کے لیے اس کا ’فکشن‘ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ’اردو فکشن‘ سترھویں عالمی اردو کانفرنس کی ایک اور کلیدی بیٹھک تھی، اسی میں تو دراصل اردو زبان ولسانیات منعکس ہوتی ہے۔ اس بار ’اردو فکشن‘ میں بھی کراچی کے حوالے سے خصوصی گفتگو ہوئی۔ صحافی اور ادیب اقبال خورشید نے اس حوالے سے کہا کہ شوکت صدیقی کے ناول ’خدا کی بستی‘ کے ساتھ ’جشن کراچی‘ مکمل ہوتا ہے۔ انور سن رائے کا خیال تھا کہ اسد محمد خان کی قربت نے ہمیں ان کے جائزے سے محروم کر دیا ہے۔ کراچی سے ڈائجسٹ بہت زیادہ نکلے، ادبی جریدے باقاعدہ شائع نہیں ہوتے تھے، جبھی لوگ ڈائجسٹ کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’سیپ‘ نے کراچی کے ادب کی آب یاری کی ، جون کا انشا، جالبی کا ’نیا دور‘ بھی قابل ذکر ہیں۔ ہجرت کرنے والے بنی بنائی دنیا ساتھ لائے۔ 1947ءسے پہلے کراچی وہ نہ تھا اور اب اس کی ایک نئی شکل بن رہی ہے۔ پہلے ہم نئے ناول قطار لگا کر خریدتے تھے اور شام تک وہ ختم بھی ہو جاتے تھے۔ اسد محمد خان نے صدارتی اظہاریے میں فرمایا کہ میرے والدین ہندوستان سے نہیں آئے، میں اپنے کزن کی وجہ سے ہندوستان سے آکر سندھ میں بسا، ’کمرشل رائٹنگ‘ کرتا اور پڑھائی کرتا۔ دوستوں کے کہنے پر لکھنے اور باقی عمر کا حصہ افسانے کے سائے میں گزرا۔ دس گیارہ کتابیں اور شاعری ’رکا ہوا ساون‘ شائع ہوئی ہے۔

٭ ”اردو فارسی کے رنگ“
’عالمی اردو کانفرنس‘ کے شایان شان اس اہم محفل کی نظامت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ تعارفی کلمات میں انھوں نے اردو اور فارسی کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے اعادہ کیا کہ امیر خسرو نے ایسا کلام بھی کہا کہ جس کا پہلا مصرع فارسی اور دوسرا اردو میں ہے۔ ایران سے تشریف لائی ہوئی وفا یزاں منش نے اپنے فارسی لہجے میں اردو کا رس گھولا اور بتایا کہ انھوں نے ایران کے بارے میں لکھے ہوئے اردو سفرناموں پر تحقیقی کام کیا ہے۔ کسی بھی زبان اور تہذیب کا تعلق براہ راست ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو پورا کرتے ہیں۔ میں نے فارسی میں پاکستان اور اردو کے پانچ شعرا کا تعارف لکھا، اس کے علاوہ 50 کے قریب مقالات بھی ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے میری فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ جس میں یہاں گزارے گئے وقت کے حوالے سے تاثرات پر زور دیا ہے کیوں کہ تاریخ اور معلومات تو ہم انٹرنیٹ سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ کینیڈا سے آنے والے ڈاکٹر تقی عابدی اپنی فارسی پر دست رَس کے سبب اس موضوع پر شامل گفتگو رہے۔ انھوں نے کہا میں صحت کا طبیب، اردو کا وکیل، اور فارسی کا عاشق ہوں۔ ہم فارسی کے بغیر اقبال کو نہیں سمجھ سکتے۔ شاید اس وقت کوئی اور پچھتر کتابوں والا فزیشن نہیں ہوگا۔ میں پانچ جامعات کا وزیٹنگ پروفیسر ہوں، لیکن اردو کی کوئی ڈگری نہیں ہے! آج دنیا میں چار سو ملین افراد اردو سمجھ سکتے ہیں۔ اردو مسلمان نہیں، لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اردو میں کلام پاک کے 93 تراجم ہیں۔

٭ انگریزی بولنے پر تُرک قونصل جنرل کی معذرت
’پاک تُرک تعلقات کے ثقافتی اور تجارتی رشتے‘ کا عنوان اگرچہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ سے اچھا خاصا غیر مطابقت رکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اِسے اردو اور تُرکی زبان کے تعلقات کر کے ’عالمی اردو کانفرنس‘ سے بہت خوب صورتی سے منسلک کیا جا سکتا تھا، تاہم اس میں ترکیہ سے تعلق رکھنے والے اردو کے محقق خلیل طوقار صاحب جلوہ افروز تھے، اس لیے یہ شکوہ کم ہوا جاتا ہے۔ دل چسپ اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ اردو سے ناواقفیت رکھنے والے ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگو نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ہی اس بات پر معذرت کی کہ وہ ’اردو کانفرنس‘ میں انگریزی میں بات کر رہے ہیں۔‘ جس پر اردو سے لگن رکھنے والے ہر دل نے انھیں کھل کر داد دی! جمال سانگو نے والہانہ انداز میں پاک ترک تعلقات کے حوالے سے اظہار خیال کیا کہ ہمارے تعلقات سالوں نہیں، بلکہ صدیوں پرانے ہیں، ہمارے باہمی تعلقات ایک جسم دو آنکھوں کی طرح اور ’کے ٹو‘ سے زیادہ بلند ہیں۔ کراچی میں ہونے والی اسلحے کی نمائش ’آئیڈیاز‘ میں پاکستان کے بعد ہم دوسرے نمبر پر سب سے بڑے شریک رہے، ہمارے ہاں زلزلے کے اگلے روز آنے والی ابتدائی چند مدد میں پاک فضائیہ شامل تھی۔ خلیل طوقار کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے بتایا کہ جنگ آزادی میں یہاں کے مسلمانوں نے ہماری کس طرح مدد کی، ترکیہ میں 100 سال سے اردو تدریس جاری ہے اور آج تین جامعات میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ اس نشست کی نظامت کرنے والی عظمی الکریم نے کہا کہ یہ وہاں روایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نسل در نسل یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے ان کی مدد کی۔ اس بیٹھک کی انفرادیت یہاں حاضرین کی دل چسپی کے لیے ترکی کے حوالے سے پوچھے جانے والے عمومی معلومات کے سوالات تھے، جو یقیناً اس کانفرنس میں اردو کے حوالے سے بھی لازمی شامل ہونے چاہئیں، تاکہ نئی نسل کو بہتر طور پر اردو سے جوڑا جا سکے۔

٭ کراچی معیشت کی شہ رگ نہیں!!
’کراچی معیشت کی شہ رگ‘ کے عنوان سے بھی ایک بیٹھک ’عالمی اردو کانفرنس‘ کا حصہ رہی، جو اس مرتبہ کے جزوی عنوان ’جشن کراچی‘ کا احاطہ کرتی تھی، عجیب بات یہ ہوئی کہ اس نشست میں شریک ایک مقرر حارث گزدر نے تو باقاعدہ اس کے عنوان ہی کی نفی کی اور کہا کہ ’معیشت کی شہ رگ کراچی نہیں، دریائے سندھ ہے!‘ ایک اور مقرر اسد سعید صاحب نے ’کراچی ساٹھ فی صد کما کر دیتا ہے‘ کو بھی مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا کہ دراصل یہاں سب بینکوں کے مراکز ہیں، جو یہاں ٹیکس بھرتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس موضوع پر ایوان صنعت وتجارت اور کراچی کے تاجروں کی کوئی نمائندگی بھی ضرور ہونی چاہیے تھی۔
’تعلیم کی صورت حال‘ کے زیر عنوان سجی ایک محفل میں ڈاکٹر جعفر احمد ناظم تھے، امجد سراج میمن نے شعبہ تعلیم میں ضرورت سے زائد ملازمتیں اور پنشن کو بوجھ قرار دیا۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر سروش لودھی نے بتایا ان کی جامعہ ’این ای ڈی‘ میں انجینئرنگ کا معیار عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، صرف ہنر پیدا کرکے ترقی نہیں آسکتی، ہمیں مزدور نہیں انجینئر پیدا کرنے ہیں۔ جب حکومت سندھ کی جانب سے جامعات کو زیادہ فنڈ دیے جانے کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر جعفر نے کہا اساتذہ کے واجبات ادا نہیں ہوتے، لیبارٹریوں میں فرضی پریکٹیکل کرائے جا رہے ہیںکہ فرض کیجیے اس میں فلاں کیمیکل ہے! جس پر طارق رفیع نے کہا یہ جامعہ کی ذمہ داری ہے کہ دیکھے پیسے کہاں جا رہے ہیں، ایک استاد کو ہفتے میں تین گھنٹے پڑھانا ہوتا ہے باقی تحقیق کرنی ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کافی تاخیر سے آسکے۔

٭ ’اپوا‘ کا باپردہ مشاعرہ
’شہر نامہ‘ کے نام سے موسوم جون ایلیا سبزہ زار پر اتری ہوئی اس خوب صورت محفل میں افتخار عارف نے کہا یہ قائداعظم کا فیصلہ نہ تھے، بلکہ پہلے ہی سے طے تھا کہ کراچی دارالحکومت ہوگا۔ اس وقت پورے شہر میں ایک بھی مورخ نہیں، ریاض الاسلام اس شعبے کے آخری آدمی تھے۔ زہرا نگاہ نے کراچی میں ’اپوا‘ کے ’باپردہ‘ مشاعرے کا دل چسپ احوال سنایا کہ مرد پردے میں تھے، اس دوران یہ ہوتا رہا کہ بھئی فلانے دہلوی کی بیگم آجائیں، بچہ رو رہا ہے۔ بیگم صدیق عورتوں کی صدارت کر رہی تھیں اور مردوں میں ہاشم رضا صدارت کر رہے تھے۔ جن کی کبھی کبھی داد کی آواز آجاتی۔ رئیس امروہوی نے اس پر قطعہ لکھا کہ ’یہ ستم کی بات ہے کہ ہاشم رضا پردے میں ہے! رئیس امروہوی کے قطعات میں پوری تاریخ ہے، کہ ”کیسے کیسے نذرِ گولی مار اور لالو کھیت ہو کے رہ گئے!“ ان پر کبھی مقدمہ ہی نہ ہوا، معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ’خفیہ‘ اتنی کمزور تھی کہ اسے کچھ پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ لوگ بدلتے ہیں، شہر بھی بدلتے ہیں، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شہر مر جاتے ہیں، لوگ بھی مر جاتے ہیں! فراست رضوی نے کہا کراچی بغداد، قرطبہ اور نیشا پور تھا۔ اس شہر کو ہوسِ زر کھا گئی۔ پہلے ایرانی ہوٹل میں ہر وقت اتنے لوگ مل جاتے کہ کوئی بھی لفظ پوچھنا ہو، پوچھ لیجیے، آج تین تین ماہ ہوجاتے ہیں کوئی لفظ کا پوچھنا ہو تو کوئی ایسا شخص نہیں مل پاتا۔ غازی صلاح الدین نے کہا کہ جنرل ضیا دور میں جب بھٹو کا نام لکھنے پر پابندی تھی، تو ان کی برسی پر مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے حوالے سے لکھ دیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *