Categories
Exclusive Karachi MQM PPP PTI Tahreem Javed انکشاف ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف پیپلز پارٹی تحریک انصاف تحریم جاوید جماعت اسلامی کراچی مہاجرقوم

2015 میں جبر کی شکست اور آج کا کراچی

(تحریر: تحریم جاوید)
آج 23 اپریل سے پورے ایک عشرے پہلے نائن زیرو کے قومی اسمبلی کے حلقے اس وقت کے این اے 246 میں نبیل گبول کے استعفا دینے کے بعد ایک ضمنی انتخاب درپیش تھا، گو کہ یہ ایم کیو ایم کی جھولی میں گری ہوئی نشست تھی، لیکن اس کے باوجود میڈیا نے اُسے ہوا بنا کر رکھ دیا تھا اور پھر “دھاندلی” کے شور کو اس قدر مچایا گیا تھا کہ لگتا تھا کہ اس روز الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو بدترین شکست ہونے والی ہے۔
ہوا تھا کہ ایک مہینے پہلے ہی نائن زیرو پر چھاپا پڑا تھا اور 2013 سے جاری ۤآپریشن، گرفتاریوں اور لاپتا ہونے اور لاشیں ملنے کے باعث ایم کیو ایم بدترین دور کی طرف بڑھ رہی تھی۔
یہاں ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل، جماعت اسلامی کے راشد نسیم اور تحریک انصاف کے عمران اسمعیل مدمقابل تھے۔ اس روز یہاں نہ صرف ڈبل سواری پر پابندی لگائی گئی، بلکہ شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر چلنے کی شرط لگائی گئی، رینجرز کی اتنی کڑٰ نگرانی تھی کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر کیمرے لگائے گئے، انتخابی عمل سے لے کر گنتی تک بندوقوں کے کڑے سائے میں ہوئی۔
اس کے باوجود کیا نتیجہ نکلا یہ اس کے اگلے روز کے اخبارات میں پڑھا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹ ملا کر بھی کنور نوید کے 95 ہزار ووٹوں کا آدھا بھی نہیں بن رہے تھے اور ایم کیو ایم کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو سست پولنگ، پولنگ اسٹیشن ختم کرنے اور مختلف طریقوں سے روکا گیا، ان کے مطالبوں کے باوجود پولنگ کا وقت نہ بڑھایا، لیکن تاریخ رقم ہوگئی، دھاندلیوں کے الزام لگانے والوں نے دیکھ لیا کہ کیمروں کے سامنے بھی الطاف حسین کی ایم کیو ایم جمی ہوئی کھڑی تھی، اس کے دو روز کے بعد کنٹونمنٹ کے انتخابات میں 25 اپریل 2015 میں بھی فوج کی نگرانی میں ایم کیو ایم سرخرو ہوگئی۔
اس کے بعد دسمبر 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو متحد کرکے اتارا، یہ تجربہ بھی بدترین ناکامی سے دوچار ہوا اور جیل میں بیٹھے ہوئے الطاف حسین کے نام زد میئر وسیم اختر منتخب ہوگئے، علی زیدی اور حافظ نعیم بدترین شکست سے دوچار ہوئے اور ایسے میں پیپلزپارٹی کے نجمی عالم بھی خواب دیکھتے تھے اور کمال کرتے تھے، ہار گئے۔
یہی وہ ناکامی تھی کہ جس کے بعد مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کو میدان میں اتارا اور مارچ 2016 میں “پی ایس پی” بنی اور پھر بات نہ بنی تو بالآخر 1992 کا مںصوبہ عملی بن ہی گیا یعنی 22 اگست 2016 کو الطاف حسین بلڈوز کردیا گیا اور اس کی اپنی جماعت نے اُسے نکال باہر کیا۔ وہ سبق جو کب سے پڑھایا جا رہا تھا کہ ایم کیو ایم اچھی ہے مگر الطاف کے بغیر، سو الطاف حسین باہر ہوگئے، 2015 سے میڈیا پر پابندی کے بعد 2016 میں عملی سیاست سے بھی باہر ہوئے، لیکن آج بھی زندہ ہیں اور اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔
سو واپس ایک عشرے پر آتے ہیں یہی 23 اپریل 2015 کی تاریخ تھی جب بہت سے نوجوان اسکولوں میں ہوں گے، سو ان کے مطالعے کے لیے یہ سب لکھ رہی ہوں، تاکہ وہ اپنی سیاسی سوچ کو تاریخ کے سبق سے ہم آہنگ رکھیں، بالخصوص جب وہ مہاجر قوم سے تعلق رکھتے ہوں تو دیکھیں کہ کیسے کراچی کی سیاست سے کھلواڑ کیا گیا اور کیسے سچ اور جھوٹ اور جبر اور آزادی کا ڈھونگ رچایا گیا، آج 10 برس بعد بھی عزیز آباد کا ضمنی انتخاب بتا رہا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ جعلی نہیں تھا، ہاں اس کے بعد 2018 اور 2024 کا ضرور جعلی رہا ہے۔ کراچی سے مرضی کے ووٹ نہ ملنے کے بعد اس کی سیاست پر جبر کا کلہاڑا چلا دیا دیا گیا اور یہاں بڑے پیمانے پر غیر مقامیوں کی برسات کردی تاکہ کسی طرح الطاف حسین کو چاہنے والے مہاجروں کو کچلا جا سکے۔ سو آج بھی کچلا جا رہا ہے، رہے نام اللہ کا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights