Categories
Karachi MQM PPP Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

کیا کراچی میں رہنے والے ہر فرد کو یک ساں مشکلات ہیں؟

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
اس وقت متحدہ قومی موومنٹ (بہادر آباد گروپ) کی جانب سے ’سینیٹ‘ کے معزز رکن فیصل سبز واری نے کہا ہے کہ کراچی میں رہنے والے تمام لوگ ایک جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ بات انھوں نے ’جیو نیوز‘ میں تابش ہاشمی کے معروف پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ کے حالیہ سلسلے میں کی، انھوں نے میزبان کے ایک سوال کہ کیا مہاجر حقوق مل چکے ہیں، جو اب اس پر بات نہیں کی جاتی؟ کے جواب میں کہا کہ ”کراچی میں جو کوئی بھی پیدا ہوا ہے، وہ کوئی بھی زبان بول رہا ہے، وہ بھی ہماری طرح یہاں کے مسائل سے اُتنا ہی متاثر ہو رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اب ’شہری حقوق‘ کی بات کرنی چاہیے۔ کراچی میں دوسری زبان بولنے والے کو بھی یہاں داخلہ نہیں ملتا، اُسے بھی نوکری نہیں ملتی، اُس کو بھی پانی اور سیوریج کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، جیسے میرے لیے ہے۔“
یہ صرف فیصل سبز واری صاحب کا بیان یا نظریہ نہیںِ، بلکہ یہ باقاعدہ ایک سوچ ہے، جو عرصہ دراز سے کراچی والوں کے ذہن میں انڈیلنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی بنیاد پر ”کراچی والے“ اور ”غیر مقامی“ کی ترکیب استعمال کرنے پر بھی بہت زیادہ اعتراض ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے جو کراچی آگیا بس اب وہ ’کراچی والا‘ ہے۔ اِسے لسانی رنگ دیتے ہوئے صرف مہاجروں کو کراچی والا نہیں کہنا چاہیے۔ جب ’کراچی والے‘ غیر مقامیوں کو ’غیر مقامی‘ کہتے ہیں، اس پر بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں تو اب سبھی ’مقامی‘ ہیں، ورنہ ایسے تو ’کراچی والے‘ ہی سب سے بڑے ’غیر مقامی‘ ہیں، جو پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے یہاں آئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن الحمدللہ حقیقت کسی نہ کسی طرح کھل کر سامنے آتی ہی رہتی ہے۔ اب فیصل سبز واری صاحب نے ایک بار پھر اس طرح کا اظہار کیا، تو یکایک ہمارا ذہن اس جانب چلا گیا کہ کیا واقعی کراچی میں کسی بھی زبان بولنے والے کے لیے بالکل ایک جیسے مسئلے ہیں۔۔۔؟؟
بہ ظاہر تو یہ بات بڑی پُرفریب اور دل کو لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ ایک لحاظ سے سڑک پر اگر ٹریفک جام کا شکار ہو رہا ہے، تو وہ تو بلاتفریق کراچی کا رہائشی ہی ہے، چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، لیکن یہ دھیان رکھے کہ اگر اُسے کوئی پولیس والا روک لیتا ہے، تو پھر یہاں سے ’مہاجر‘ اور ’غیر مہاجر‘ کا فرق بہت واضح ہو جاتا ہے!
کراچی میں صحت عامہ کے مسائل بھی کراچی کے ہر شہری کے لیے ایک طرح سے موجود ہیں، بالکل درست، لیکن جب خدانخواستہ سرکاری اسپتال کے عملے سے واسطہ پڑ جاتا ہے، تو کوئی نہ کوئی ’اپنے گاﺅں والا‘ اور کوئی نہ کوئی ’ہم زبان‘ وہاں ضرور مل ہی جاتا ہے اور مہاجر وہاں بھی ہاتھ ملتا ہوا رہ جاتا ہے۔ یعنی اپنے ہی شہر اور اپنے ہی نگر میںخوار جو شاید پاکستان کی اور کوئی قوم سوچ بھی نہیں سکتی!
ہم کراچی میں رہتے ہیں اور یہاں اب تو ہر کوئی غنڈہ بنا ہوا ہے۔ اگر آپ شریف آدمی ہیں، آپ سے اگر کسی نے غنڈہ گردی کر دی اور بات تھانے تک پہنچ گئی تو پھر وہی مہاجر اکیلا اور غیر مہاجر کا کوئی نہ کوئی ہم قبیلہ ہم زبان ہم صوبہ شخص وہاں نکل آتا ہے!
اور کیا کراچی میں نوکریوں کے لیے بھی سب زبان بولنے والوں کے ساتھ یک ساں مسئلہ ہے؟ فیصل سبز واری صاحب سے نہ جانے یہ کس نے کہہ دیا۔
نہیں صاحب! یہاں بھی مہاجر کی حالت ہر ’غیر مہاجر‘ سے بدترین ہے۔ یہ قطعی تنگ نظری یا کسی سے تفریق کی بات نہیں، بلکہ زمینی حقیقت ہے کہ کراچی میں سرکاری اسامیاں ہوں یا نجی۔ یہاں تک کہ عام دکانوں، مِل اور فکیٹریوں تک میں کراچی جیسے شہر میں وہ اپنی زبان بولنے والوں کو ملازمتوں میں ترجیح دیتے ہیں۔ ہر جگہ اپنی زبان بولنے والوں کے لیے کوئی سہولت، کوئی آسانی اور کوئی جگہ نکل ہی آتی ہے۔ اکیلا کراچی میں صرف مہاجر ہی رہ جاتا ہے! اور آپ؟ آپ ٹی وی میں کوٹ پہن کر بہت اطمینان سے یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کراچی میں پیدا ہونے یا رہنے والے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں ایک جیسے مسئلے سے دوچار ہیں۔۔۔!!
رہی بات داخلوں اور سرکاری ملازمتوں کی، تو یہاں بھی ایسا ہرگز، ہرگز نہیں ہے۔ کراچی والوں کے لیے کراچی میں بھی اب سارے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، باقی سب کے اپنے صوبے تو ہیں ہی اور پھر یہاں کراچی میں بھی اپنی زبان بولنے والوں کے پورے پورے گروپ اور پوری پوری لابیاں بہت مضبوط کر دی گئی ہیں، جو اپنے لوگوں کی پوری طرح مدد کرتی ہیں۔ کراچی میں صرف کراچی والا ہی تنہا ہے، وہ کراچی جسے اس نے دل وجان سے اپنایا، بنایا اور چلایا۔ اسے اپنا گھر سمجھا، یہاں سب کو خوش آمدید کہا۔ کسی دوسری زبان بولنے والے سے کوئی تعصب نہ کیا۔ اب وہاں چاروں صوبوں سے چالیس زبانیں بولنے والے بھر بھر کر آکر صوبائی، وفاقی اور ضلعی اداروں میں دھڑلے سے سرکاری ملازمتیں بھی لیتے ہیں اور نجی سطح پر بھی اس شہر میں ایسے راج کرتے ہیں کہ کراچی والا بس اپنی قسمت ہی کو کوستا رہ جاتا ہے!
’کراچی والا‘ اپنے شہر اپنے نگر میں پوری شرافت اور قانون کے دائرے میں بھی کوئی دھندا سکون سے نہیں کر سکتا۔ جب کہ ’غیر مقامی‘ ڈنکے کی چوٹ پر قبضے بھی کرتا ہے، فٹ پاتھ بھی گھیرتا ہے، بجلی بھی چوری کرتا ہے، بیچ سڑک پر دکان بھی جماتا ہے۔ گویا اُسے غیر اعلانیہ طور پر کراچی شہر کو لوٹنے کھسوٹنے کا پورا پورا اجازت نامہ حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ کراچی میں بھی سرکار، پولیس، رینجرز، ایجنسیاں اور ادارے الغرض ہرجگہ ہی اس کی قوم کے لوگ موجود ہوتے ہیں، جو اپنے لوگوں کے لیے ہاتھ ہولا رکھے ہوئے ہیں۔ رہ گئے مہاجر، تو ان کی نمائندگی تو اب کہیں موجود ہی نہیں اور سیاست میں بھی اس کا بار فیصل سبز واری جیسوں کے ناتواں کاندھوں پر ہے!
اور کراچی والوں کی سیاسی آزادی کی تو اب کوئی بات ہی نہ کیجیے۔ ’کراچی والا‘ اپنے اِس آبائی شہر میں دوسری قوموں کے مقابلے میں اس کا عَشر عَشیر بھی نہیں پا سکتا، یہاں وہ کوئی سیاسی ترانہ سننے پر پکڑ لیا جاتا ہے، کسی جماعت کا جھنڈا لگانے پر لاپتا کر دیا جاتا ہے، کوئی سیاسی نعرہ لگانے پر ’دہشت گرد‘ ہو جاتا ہے۔ جب کہ دیگر قوموں کے لوگ ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان مخالف ریلیاں بھی نکالتے ہیں، پاکستان کی سالمیت کے خلاف فلک شگاف نعرے بھی لگاتے ہیں، اس کی ویڈیو بھی بناتے ہیں اور ریاست ان کی جانب سے بالکل آنکھیں موندے پڑی رہتی ہے۔
یہاں سیکڑوں شہری ’غیر مقامی‘ ڈرائیوروں کے ڈمپر، ٹینکر اور ٹرالر وغیرہ کی زد میں آکر مارے گئے، جو پکڑ میں آتے ہیں، ان کی اگلے ہی دن ضمانت ہو جاتی ہے اور ردعمل میں ٹینکر جلانے کے الزام میں ’کراچی والے‘ دہشت گردی کے مقدمات جھیلتے ہیں اور ریمانڈ پر جیل بھیج دیے جاتے ہیں!
تو فیصل سبز واری صاحب!
کیا اب بھی آپ یہ کہیں گے کہ کراچی میں رہنے والے ہر زبان بولنے والے ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔۔۔؟
اسی پر قیاس کرتے چلے جائیے، کراچی میں چھوٹے سے چھوٹے بلدیاتی مسئلے سے لے کر ان کی شناخت، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے لے کر تھانے کچہری تک کے سنگین معاملوں تک میں اپنی اپنی قوم کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی قوم کے ناجائز کاموں تک میں پوری معاونت کرتے ہیں اور رہ گئے ہم؟ تو ہماری صداﺅں کا گلا گھونٹ کر ہماری قوم کی نام نہاد نمائندگی کے لیے بنایا جانے والا ایک سینیٹیر ’میک اَپ‘ کر کے ٹی وی پر آکر بیٹھ جاتا ہے اور انٹرویو میں ایسے منہ چبا چبا کر، الفاظ بنا بنا کر ہمیں یہ گِیان دیتا ہے کہ ”کراچی میں چاہے کوئی بھی زبان بولتا ہو، سبھی کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں۔۔۔!!“
کراچی والے کی تو اپنے شہر میں ہی معاشی ناکہ بندی ہے، جب کہ یہاں باقی قوموں کے لوگ سرکاری ملازمتوں سے بھی خوب کما رہے ہیںِ، پرائیوٹ دھندوں میں بھی اچھی طرح مصروف ہیں، ساتھ ساتھ ان کے گاﺅں سے مختلف فصلوں کے پیسے بھی آرہے ہوتے ہیں اور وہ یہاں بیٹھ کر کراچی کے پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی وسائل میں بھی نقب لگا رہے ہیں اور آپ جناب مزے سے یہ فرما رہے ہیں کہ کراچی میں رہنے والے سبھی ایک جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ حیرت ہے آپ جیسے آدمی سے بھی اب ایسی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں، معاف کیجیے گا مگر ہمیں تو لگتا ہے کہ شاید آپ کی بھی اب متھ ماری گئی ہے!
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights