Categories
Karachi MQM PPP Rizwan Tahir Mubeen Society انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی تہذیب وثقافت جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

آباد کالونی سے ”برباد کالونی“ تلک!

سمے وار (تحریر: رضوان طاہر مبین)
ہماری کالونی، کبھی جہاں سے کوئی اجنبی شخص پوچھ گچھ کے بغیر گزر بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ وہاں آج ’غیر مقامیوں‘ اور بھانت بھانت کے ’آڑھے ترچھے‘ لوگوں کے دَنگے اور اچھل کود دیکھتے ہیں، تو سچ پوچھیے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اور اس ساری صورت حال میں کسی باہر کے آدمی کا ہر گز کوئی قصور نہیں، بلکہ صرف اپنا اور ’اپنوں‘ ہی کو سارا دوش ہے!
آج سب اسی کالونی میں قبضہ گیروں اور نت نئے بدمعاش گروہوں کی منہ زوری کی باتیں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جب کہ ہم تو یہ 18 برس سے لکھ رہے ہیں کہ اپنی اس کالونی کے ماحول کو بچانے کے لیے کوئی پیش بندی کر لیجیے! لیکن صاحب، ہماری قسمت اب اتنی اچھی کہاں تھی کہ کسی پر ہماری پُکار کا کوئی اثر ہوتا۔ اب حالات توقع سے بھی کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں!
یقین جانیے، اگر یہ کالونی ہماری ’آبائی زمین‘ نہ ہوتی، تو شاید ہم بھی اب یہاں نہ رہ رہے ہوتے۔۔۔ البتہ اب ہمارے منہ سے بھی یہ کلمہ نکلا جاتا ہے کہ ’اب یہ محلّہ رہنے کے لائق نہیں رہا!‘ لیکن پھر ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کراچی میں کون سا محلہ ہے، جو ’رہنے کے لائق‘ رہا ہے۔ شاید پورے کراچی میں ہی ’ریاست‘ نے کم وبیش ایسی ہی بربادی پھیر دی ہے۔ یہ تو وہ محلہ ہے، جہاں گلیوں میں پھرنے والے ’ٹین ڈبے والوں‘ تک کے باقاعدہ ’کارڈ‘ بنا کرتے تھے کہ کون سا کباڑیہ اس محلے کی حدود میں آنے کا مجاز ہوگا اور کون سا نہیں۔ ایسے ہی گلاس برنی والے، قلفی والے، چاٹ والے، لچھے والے، پاپڑ والے، کباب مسالے والے، باقرخانی والے، مونگ پھلی والے اور کپڑے بیچنے والے سے لے کر جملہ پھیری والوں کے لیے منتظمہ کمیٹی کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایک اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی ٹھیلے یا پھیری والا یہاں آجاتا، تو پہرے پر موجود ’چوکی دار‘ لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑتا اور اسے ’کالونی‘ کی حدود سے باہر نکال دیتا۔
رہا محلے کا بازار تو کالونی بسانے والوں نے اس کے واسطے بڑی مسجد کی سڑک سے لے کر کوئلے کے ٹال اور اسی طرح کوئلے کی ٹال سے آگے تک کی جگہ کو ہی کافی جانا تھا۔۔۔ لیکن جب آبادی بڑھی اور قرب وجوار کے علاقے بھی خوب آباد ہوگئے، تو پھر یہاں مکان سے لے کر دکان تک کی قیمتیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ ایک طرف جہاں (پہلے مرحلے میں) پانچ، چھے منزلہ تک کی عمارتیں بنیں، وہیں دکانیں بھی رہائشی گلیوں کو ’نگلنا‘ شروع ہوگئیں۔ کافی عرصے قبل گلی نمبر سات میں ’زری ہاﺅس‘ کے نام سے صرف ایک دکان بنی، پھر کچھ ہی عرصے میں پوری گلی نمبر سات میں اسی نام سے خواتین کا ایک پورا بازار بن گیا، تاہم یہ بہت عرصے تک صرف ایک گلی تک ہی سمٹا رہا۔ پھر دھیرے دھیرے اس گلی کی نئی عمارتوں میں آر پار مارکیٹیں بننا شروع ہوگئیں، لیکن یہ اس کے بعد بھی خاصے عرصے تک کافی حد تک قابو میں رہا۔ اس کی حدود گلی نمبر سات میں ایک جانب جلال بیکری کی طرف نکلنے والے راستے تک تھی، تو دوسری طرف سلطان چپاتی والوں کی دکان تلک، جب کہ اِدھر چھٹی لائن پر نقی منزل اور اُدھر آٹھویں لائن کی شروعات میں باٹا والوں کی بلڈنگ تک بازار ’زری ہاﺅس کہلاتا اور عید کے موقع پر ان چار جگہوں پر کالونی کی ’منتظمہ کمیٹی‘ کی جانب سے باقاعدہ قنات لگا کر راستہ محدود کر دیا جاتا۔ یہاں محلے کے چوکی دار کے ساتھ ایک ایک پولیس اہل کار بھی تعینات ہوتا اور لکھا ہوتا کہ ’مرد حضرات کا داخلہ ممنوع ہے!‘
اب سوچیے کہ یہ ’زری ہاﺅس‘ گذشتہ پندرہ، بیس برسوں میں کس قدر طوفانی انداز میں پھیلا ہے کہ مارکیٹ در مارکیٹ نکلتے نکلتے یہ چھٹی، لائن اور پانچویں لائن کے بعد اب چوتھی لائن تک جا پہنچا ہے، کچھ ہی دن جاتے ہیں جب یہ تیسری اور دوسری لائن سے ہوتا ہوا پہلی لائن تک جا نکلے اور وہاں روڈ سے نکلنے والی مارکیٹوں کی دکانوں کی وجہ سے پہلے ہی بازار کے حجم میں مزید اضافہ کر دے گا۔
دوسری طرف ’بجلی گھر‘ کی سمت سے بازار اندر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو ’چھوٹی مسجد‘ کے سامنے پانچویں لائن میں ’بھائی چنّو‘ کی دکان بازار کا آخری حصہ ہوتی تھی، اس سے آگے سب گھر تھے، لیکن جب ’طلاق محل‘ تعمیر ہوئی، تو یہاں دکانیں بنا دی گئیں، جو کئی برس تک بہت زیادہ آباد نہ ہوسکیں، پھر کچھ عرصے بعد یہاں سے بھی آگے تک آٹھویں لائن سے بھی متجاوز ہوتا ہو ابازار قائم ہوتا چلا گیا ہے۔
’بجلی گھر‘ کے بعد بائیں جانب فی الحال تو دکانوں کا چلن نہیں ہے، اور بس سڑک کے ساتھ والے پہلے پلاٹ ہی میں دکانیں ہیں، لیکن بجلی گھر سے دائیں جانب دیکھیے تو یہاں کافی زیادہ دکانیں کھل چکی ہیں۔ یعنی اب اس کالونی کا بہت محدود سا حصہ ’بازاری‘ ہونے سے بچ سکا ہے، جو پتا نہیں کب تک ’محفوظ‘ رہ سکے گا!
پھر الحمدللہ، ہم سب بہت ہی مذہبی اور ’خوف خدا‘ جتانے والے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ہم نے آج تک کسی کو اس حوالے سے فکرمند نہیں پایا کہ کہیں وہ کوئی تو آواز لگائے کہ خدارا، کسی طرح اس بازار کو تو لگام دو۔ رہائشی علاقوں کا اپنا ماحول اور اپنی ایک حرمت ہوتی ہے۔ بازار تو بالآخر بازار ہی ہوتا ہے، اس کے اپنے مسائل اور اپنی الگ ہی حرکیات ہوتی ہیں۔ یہ گلیوں میں دکانیں کھولنا، رہائشیوں کے لیے بہت سارے مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ یہ محلّہ اور اس کی گلیاں ہمارے گھروں کا ہی حصہ ہیں، ان گھروں کو راستہ دینے والی گلیوں کا اپنا ایک رتبہ ہوتا ہے، جو باقاعدہ بازار بننے کے بعد کسی بھی صورت قائم نہیں رہ سکتا۔ بہت سے لوگ یہ حدیث بھی جانتے ہوں گے کہ سب سے بری جگہ بازار ہیں، لیکن ہوا کیا ہے، وہ آپ کالونی آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں!
ہمیں بات کیا کرنی تھی اور یہ کالونی کی بڑھتی ہوئی دکانوں کی طرح جانے کہاں کھو گئی۔۔۔ خیر، بات کالونی سے کسی اجنبی کے گزر جانے کی تھی۔۔۔ یہ تمہید بھی تو ضروری تھی کہ اس کے جواب کی ایک مرکزی یا دو میں سے ایک بڑی وجہ یہی بے لگام بازار ہی ہے۔ بازار کا مطلب تھا دکانیں، اور دکانوں کا مطلب صرف ’جنرل اسٹور‘ تو نہیں تھا ہر قسم کی دکانیں تھا، جیسے تندور، چائے کے ہوٹل، دودھ کی دکانیں، پکوان ہاﺅس، سبزی کی دکانیں، قسائی اور پنکچر اور موٹر سائیکل مکینک تلک۔۔۔ ہر قسم کی دکان اب بلا جھجھک گلیوں کے اندر، تنگ راستوں پر کھول کر بیٹھ جائیے۔۔۔ اور یہاں رہنے والوں کا جینا حرام کر دیجیے۔ اللہ کے حکم سے اب کوئی روکنے ٹوکنے والا رہا ہی نہیں ہے۔ جنھیں روکنا ٹوکنا چاہیے تھا، وہ اپنے اپنے حساب سے اداروں اور سیاسی جماعتوں سے معاملات طے کرکے اپنی دنیا کی زندگیاں سنوار رہے ہیں۔
اب یہ دکانیں کس کی ہیں؟ کون سی قوم ہے؟ کس قُماش کے لوگ ہیں؟ وہاں کیسے لوگ آکر بیٹھ رہے ہیں، کس وقت تک بیٹھے رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں، کس پر نظر رکھتے ہیں، رات کے کس پہر ’دھاڑ‘ کرکے شٹر کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ کسی نے گلیوں کے اندر بڑھئی کو لا کر بٹھا دیا ہے، جو دن تو دن، شام سے لے کر رات تک وہاں تیز آواز میں مشینیں چلا رہا ہے، کسی نے ’اے سی‘ اور ’فریج‘ کے مکینک کو گلیوں کے اندر جما دیا ہے جو رات دن وہاں دھائیں دھوں کرتا رہتا ہے۔
اب ہمیں کیا۔۔۔! ہمیں تو صرف اپنے نوٹ سیدھے کرنے ہیں جناب۔۔۔! اگر کوئی اپنی ’دکان‘ کی آڑ میں اور بھی کوئی ’دھندا‘ کر رہا ہے تو خبردار، اگر کسی نے اس حوالے سے منہ بھی کھولا بھی تو۔۔۔! سارے اپنے اور سارے ’بے گانے‘ الٹا آپ ہی کے پیچھے لَٹھ لے کر پڑ جائیں گے!
اِنھی پتلی پتلی گلیوں کے اندر پچاس پچاس کلو کے سلینڈر لے کر باورچی بھی آکر بیٹھ گیا ہے۔ وہاں رہنے والے تک ہونٹ سِیے ہوئے ہیں، جیسا یہ ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں، اللہ بری گھڑی سے بچائے کہ اگر ان میں سے پچاس کلو کا ایک سلینڈر بھی اگر پھٹ گیا تو سوچیے کیا ہوگا؟ پھر کسی آتش زدگی کی صورت میں تنگ گلیوں اور اونچی بلڈنگوں میں کیا تباہی ہوگی؟ یہان کی گلیوں میں تو فائر برئیگیڈ تک نہیں آسکتی! لیکن کوئی بات نہیں بھائی! بس ہمیں تو پیسے مل رہے ہیں ناں! فی زمانہ پیسے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے!!
اسی پیسے کے پیچھے ہم نے اپنے گھر تک پندرہ، پندرہ ’غیر مقامی‘ اُجڈ لڑکوں کو دے دیے ہیں، جو دن میں دیہاڑی لگاتے ہیں، رات کو قمیص اتارے باہر فون لیے بیٹھے رہتے ہیںِ، کبھی چلتے پھرتے اپنے اِدھر اُدھر ہاتھ دے رہے ہوتے ہیں، نہ آگے دیکھتے ہیں نہ پیچھے کہ یہ کوئی گوٹھ یا بازار نہیں ہے، کبھی اپنی بولی میں زور زور سے بولتے ہوئے جا رہے ہیں، کسی کو کچھ احساس نہیں ہے کہ یہ نصف رات ہے، یہ کون سی شرافت اور کہاں کی انسانیت ہے؟ کسی کی چارپائی میں کھٹمل نکل آئے تو رات کے تین بجے باہر نکل کر اُسے زور زور سے پٹخنے لگا، کسی کے گھر کا تالا نہیں کھلا تو اس نے رات کے چار بجے پتھر لے کر دھاڑ دھاڑ تالا توڑنا شروع کر دیا!
لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ ہم نے اپنے لیے تو بہادر آباد یا کراچی ایڈمن سوسائٹی میں ایک اچھا سا پورشن لے لیا ہے، ہم تو اب دہلی مرکنٹائل اور شمسی سوسائٹی میں رہتے ہیں یا پھر سرجانی اور گلشن معمار چلے گئے ہیں۔ اصل چیز تو پیسے ہیں، وہ تو ہمیں مل رہے ہیں، دفع کیجیے اب یہ ’محلے داری‘ بھلا کیا بلا ہے۔ ہم کوئی بُدھو ہیں، جو ’محلے داری‘ کے نام پر چار پیسے زیادہ جو مل رہے ہیں اسے گنوا دیں!
حالت یہ ہے کہ اب کالونی والا اپنی گلی میں اپنے گھر کی دہلیز پر کتے کی طرح ذلیل ہوتا ہے، اس کا گھر تالے لگ کر بھی اب غیر محفوظ ہے۔ دکانوں پر ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، کیوں کہ شہر کراچی کی طرح اب ہماری کالونی بھی مکمل لاوارث ہے، جیسے کراچی والوں نے صرف ”قائداعظم“ پر ایمان رکھا ہے، ایسے ہی کالونی والوں نے بھی اب ”قائد“ کے سوا کچھ نہیں سوچا، یہ تو ویسے بھی ’تاجر‘ ہیں، منافع کے سودے کم کم ہی جانے دیتے ہیں۔۔۔ پتا نہیں ہمارے بڑوں نے محلے اور ہم سایوں کے واسطے کیسے یہ سارے ”خسارے“ برداشت کیے ہوں گے۔ اب تو کالونی مکمل طور پر بے امان اور لاوارث ہے، یہاں راتوں کو ٹھیلے کھڑے رہتے ہیں، اور ٹھیلے والا اسی پر رات بسر کرتا ہے۔ ہماری بند دکانوں کے تھلّوں پر جانے کہاں کہاں سے لوگ آکر پڑے جاتے ہیں، اور تو اور اب تو بجلی گھر کی چھت پر بھی باقاعدہ بستر لگے ہوئے ہیں۔
ماشااللہ کام دکھانے والے ’اپنوں‘ نے یہاں بھی اپنا پورا کام دکھایا ہے اور کہاں کہاں سے یہاں منہ اٹھا کر چلے آنے والوں کو رہائش کی بہترین ”سہولت“ فراہم کر دی ہے۔ کسی نے ’واٹس ایپ‘ پر گریہ کیا ہے کہ نویں لائن میں فلاں فلاں لوگ دکانیں کھولنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور کالونی کو ’جوڑیا بازار‘ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ارے بھائی، آپ ’جوڑیا‘ کی کیا بات کر رہے ہیں، پہلے کسی نے اِسے برنس روڈ کی ’تباہی‘ سے تعبیر کیا تھا، کوئی بولا یہ محلہ ’کھارادر‘ بن رہا ہے، کسی کو یہاں ’میٹھادر‘ جیسا حشر دکھائی دیا، تو یہاں کے حالات تو ’نپیئر روڈ‘ کے لیے بھی موافق بنا دیے گئے ہیں۔۔۔ کسی سے بھی پوچھ لیجیے ایسی دسیوں کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں اور اب تو تازہ واردات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے پرانے دفتر والی گلی میں خیر سے ’خواجہ سرئوں‘ کو بھی جگہ کرائے پر دے دی گئی ہے!
اب ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ہمارا کوئی چوکی دار، کوئی یونٹ، کوئی سربراہ نہیں، کوئی بھی اب فکر مند نہیں! البتہ آج بھی کسی بھی ’کالونی والے‘ کو پکڑ کر پوچھیے، تو آپ کو اس بربادی کے ذمہ داروں کی ایک لمبی فہرست سنانے لگے گا کہ یہ تو سب ’اسٹیٹ ایجنٹوں‘ نے اپنی ’دلالی‘ دکھائی ہے۔ ’بِلڈروں‘ نے یہاں ایسا کردیا ہے اور ویسا کر دیا ہے۔ ارے ضرور کیا ہوگا، لیکن کیا آپ کے سر پر کسی نے بندوق رکھ کر کہا تھا کہ اپنے گھر کی دیوار پھوڑ کر یہاں گلی میں مکینک کی دکان کھول لو۔۔۔؟ کسی نے آپ کو اغوا کر کے کہا تھا کہ اپنے فلیٹ ”جنگلی جانوروں“ کو کرائے پر دے دو!
شاید کسی نے ہم کالونی والوں کے لیے ہی کہا ہے کہ ’اپنے کردار پہ ڈال کے پردہ، ہر شخص کہہ رہا ہے، زمانہ خراب ہے!
٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights