سمے وار (خصوصی رپورٹ)
گذشتہ دنوں جامعہ کراچی کی آرٹس لابی سے 1991 کے زمانے میں بنائی گئی بانیان پاکستان کی تصاویر جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے “رنگ برنگی” دیواریں کہہ کر مٹا دی تھیں، جس پر جامعہ کراچی ہی نہیں، شہر بھر کے سابق طالب علم جامعہ کراچی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا، جس پر چند طلبہ نے پینا فلیکس بنا کر یہ تصاویر لگا دی تھیں، لیکن چھے اگست 2023 کو جامعہ کراچی کے طلبہ اس وقت سخت حیران رہ گئے جب مہاجر حقوق کی عَلم بردار “اے پی ایم ایس او” کی موجودہ قیادت نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ تصاویر اتار ڈالیں۔ طلبہ نے شدید ردعمل دیا تو “اے پی ایم ایس او” کے ذرایع نے موقف اپنایا کہ اسے ہم یوم آزادی سے پہلے طبع کرائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی شک تھا کہ نام نہاد “اے اپی ایم ایس او” بھی آرٹیفیشل قیادت ہے، اگر تصاویر دوبارہ بنوانی تھیں، تو اِسے پہلے سے اتارنے کی کیا منطق تھی، لیکن اے پی ایم ایس او کی جانب سے باقاعدہ ٹوئٹر پر یہ اعلان کیا گیا تھا اور ساتھ میں کارکنان کی جانب سے پینا فلیکس اتارنے کی تصاویر بھی لگائی گئی تھیں، لیکن آج یوم آزادی کو گزرے ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن آرٹس لابی کی دیواریں ویسی ہی کوری ہوگئی ہیں جیسے پہلی کر دی گئی تھیں۔
مہاجر طلبہ میں اس حوالے سے شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کی متعصب خالد عراقی انتظامیہ (جسے وہاں عرف عام میں “عراقی مافیا” کے نام سے جانا جاتا ہے) یہی چاہتی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ جیسے ایم کیو ایم کرتی آئی ہے، مہاجر حقوق نہ خود لیں گے اور نہ لینے دیں گے، بالکل ایسے ہی دوبارہ تصاویر بنانے کی چوسنی دے کر مہاجر قوم کو الو بنا دیا گیا۔ یہی وہ منزل ہے اور یہی وہ شناخت ہے کہ جس کا پرچم اب اے پی ایم ایس او اور اس کی سرپرست بہادر آباد ایم کیو ایم تھامے ہوئے ہے۔