Categories
Exclusive Karachi MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی رضوان طاہر مبین سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

’موروثی وڈیروں‘ کے 15 برس کے مسلسل ریکارڈ اقتدار کے بعد !

رضوان طاہر مبین
ہمارے ملک میں خراب سیاسی نظام کی وجوہات میں اسٹیبلشمنٹ اور فوجی مداخلت کو اس کا دوش دینے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، جو کہ ظاہر ہے ایسی کچھ غلط بھی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ زیادتی ہوگی کہ اگر ہم اپنے نظام کے ’غیر فوجی‘ یا خالص سیاسی محرکات کو نظرانداز کر دیں یا اس پر بات ہی نہ کریں، جس میں سرفہرست وڈیروں اور جاگیرداروں کی اس ملک پر مستقل اور شدید گرفت ہے۔ ’جمہوریت‘ کے نام پر بھی ہر بار جماعتیں بدل بدل کر وہی خاندان اور ان کی اولاد در اولاد ہی اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے دانش وَر کہلانے والے بڑے بڑے نام، دن رات جمہوریت اور خالصتاً عوام کی بالادستی کی بات کرتے کرتے تھکتے نہیں، لیکن عملاً نادیدہ اسٹیبلشمنٹ جسے وقت کے ساتھ ساتھ ’محکمہ زراعت‘ اور ’خلائی مخلوق‘ جیسی عرفیتوں سے بھی پہچانا جاتا رہا ہے وہ، اور اس کے ساتھ وڈیرے اور سرمایہ دار ہی ”عوام کی نمائندگی“ کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے اہل صحافت ودانش میں گنے جانے والے بہت سے ’گھاگ افراد‘ بھی اسی ’جمہوریت‘ کے نام پر مختلف موروثی قیادتوں کے نام کی مالا جپ رہے ہوتے ہیں اور ایسی ہی کسی نام نہاد ’سیاسی مخلوق‘ کے خود ساختہ ترجمان بھی بنے پھرتے ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھی تو اچھے بھلے لوگوں کو بھی خود پر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ مُبادا وہی غلطی پر ہوں گے۔ کیوں کہ یہ ”ترجمان“ لوگ ویسے تو بہت زیادہ دانش اور علم وحکمت کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں اور تاریخی حقائق کی بابت اچھے خاصے اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی نہایت بچگانہ، جانب دارانہ اور ناعاقبت اندیشانہ رائے کے خلاف ہم جیسے چھوٹے اور ادنیٰ سے طالب علم ’گندگی پر بیٹھنے والی مکھی‘ کی طرح قرار پاتے ہیں یا پھر بقول انھی کے کہ ’ہمارے ذہن میں غلاظت بھری ہوئی ہے!‘ یعنی کہ جو بات ہم ’حدِ ادب‘ اور کچھ اپنی تربیت کے سبب کہنے سے قاصر رہتے ہیں، وہی الٹا ہمیں سننے کو ملتا ہے۔
ارے صاحب، اتنا سخت ردعمل کاہے دیتے ہیں، ہم ٹھیرے اس ملک کے ’بدبودار نظام‘ کے ’کیڑے مکوڑے‘ اور ’کمی کمین‘ ہم جیسے کتنے اس ملک کی ’اشرافیہ‘ کے پیروں تلے آکر کچلے گئے، مار دیے گئے، لاپتا ہوگئے یا آج کل کی زبان میں کہیے تو ان کو گرفتار کر کے ان کے ’سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ‘ کر دیے گئے، سو ہماری بساط ہے ہی کیا کہ ہم اس ”جمہوری“ نظام کی شان میں کوئی گستاخی کریں۔ بس کبھی کبھی ہمارے سہمے سہمے سے قلم صرف کچھ سوال پوچھنے ہی کی تو جسارت کر لیتے ہیں اور اس کا خراج جہاں مختلف سیاسی دھڑوں اور طاقت وَر حلقوں سے پاتے بھی رہتے ہیں، وہاں آپ جیسے ’پڑھے لکھے دانش وروں‘ سے بھی سہی ہر چند کہ ہم آپ جیسے بزرگوں، اور اہل علم اور ’محققین‘ سے بُہتیرا سیکھنے کی کوششیں کرتے ہی رہتے ہیں اور اسی واسطے آپ کے الفاظ ہمارے لیے ذرا زیادہ معنی رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیں معاف کیجیے کہ ہم سوال پوچھنے کی گستاخی سے باز نہیں رہ سکتے، کہ جب تک دَم ہے بات تو کی جائے گی اور ضرور کی جائے گی!
تو کیا ہوا اگر آپ سب بھی جمہوریت اور عوامی بالادستی کے نام پر کسی نہ کسی قبیلے، خاندان یا جدی پشتی ’شاہ زادے‘ یا ’شاہ زادی‘ کی عقیدت میں گردن گردن ڈوبے ہوئے ہیں! تبھی آپ کے لیے ’جمہوریت‘ کے معنی انھی مخصوص خاندانوں، حلقوں اور ’موروثی ملزمان‘ کا سکہ چلنا ہی قرار پاتا ہے کہ انھی میں سے کسی ’چلتے پرزے‘ کا فرمان یہ بھی رہا ہے کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے!“ سو ہمیں بھی خوب خبر ہوگئی کہ ہم سے انتقام لیے جا رہے ہیں اور بھلا انتقام میں کب کوئی اصول، کوئی ضابطہ اور کوئی دستور ہوا کرتا ہے۔ یہ تو اندھا ہوتا ہے نرا اندھا صاحب اور اپنے ’سگے بھائی‘ کو بھی نہیں دیکھتا، تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
جیسے ہر ہر سیاسی جماعت کے ثقہ بند، راسخ العقیدہ اور اپنے ’قائد‘ پر ’اندھا اعتماد‘ کرنے والے کچھ نہ کچھ لوگ ہمیشہ ہی موجود رہتے ہیں، تو انھیں ہماری باتیں صرف اسی وقت ہی پسند آتی ہیں کہ جب وہ ان کے سیاسی مخالفین کے بارے میں ہو، ورنہ وہ بھی موقع آنے پر مجال ہے کہ نشانہ لینے کا کوئی محل جانے دیں۔ سو انھیں بھی بُہتیرا واضح کر دیا کہ ’حوصلہ سنبھالے رکھیے، نہ ہم کوئی سیاسی کارکن ہیں، نہ ہمدرد، سو جب غلط ہوگا، تو اس پر یہ توقع نہ رکھیے گا کہ ہم واہ واہ کے ڈونگرے برسائیں گے!‘ اور یہی ہوا، جہاں ہم نے ذرا اپنی مختلف سی رائے دی، وہیںکئی کنکر تاک تاک کے ان ’اپنوں‘ نے بھی دے مارے یہ تو خراج ہے، سو ہم پا رہے ہیں اور پاتے رہیں گے۔ اس کا بھی جگرا پیدا کر ہی لیتے ہیں کہ غلط دیکھ کر باز نہیں رہ سکتے۔
تو ایسے کسی دن، بس یونھی بیٹھے بیٹھے ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ اپنی اپنی ’جمہوری‘ جماعتوں کے سارے ’احباب‘ کاہے کے ’جموریت پسند‘ ہیں، جو ہمارے محتاط اور چھوٹے سے اختلاف رائے اور حقیقت بیانی پر اس قدر بگڑتے ہیں کہ کوئی بدترین آمر بھی شرما جائے۔ انھیں صوبے بھر میں پندرہ برس کی متواتر حکومت پر کارکردگی کا سوال بہت زیادہ گراں گزرتا ہے، پورے پورے پانچ سال، وہ بھی ایک دو نہیں لگاتار تین بار ملنے کے بعد اگر حاکم چاہے، تو صوبے میں ایک انقلاب تو آجانا چاہیے تھا! اب ہمیں بھی تو پتا چلا کہ کون سا ایسا پچھلا ’بگاڑ‘ تھا، جو مسلسل 15 برس کے بلاشرکت غیرے اقتدار میں ٹھیک نہیں ہو سکتا تھا؟ آج بدترین سیاسی جبر اور یتیمی میں ملک کا سب سے بڑا شہر پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں کو ترس رہا ہے۔ یہاں مرکزِ شہر تک میں کوئی سڑک یا فٹ پاتھ سالم نہیں، کوئی شاہ راہ قابل دید نہیں، لیکن ان خودساختہ ’ترجمانوں‘ کی خواہش ہوتی ہے کہ کچھ دن قبل سڑکوں پر آنے والی ان چند نئی مسافر بسوں پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں، جو کہ آج سے 20 برس پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اس شہر میں چل چکی ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ ”جمہوریت“ کو نہ سہار سکیں اور جلد ہی لاپتا ہوگئیں۔ اور اس کے بعد سب نے دیکھا کہ ملک کے کئی شہروں میں میٹرو ٹرین چل کر پرانی ہو چکی ہیں، لیکن ہم ستم زدہ کراچی والوں سے تقاضا ہے کہ پندرہ برس میں جاتے جاتے چند بسوں پر کھل کر رقص کریں اور وہ بھی زنجیر پہنے پہنے
رقص تو زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے!
’ان‘ لوگوں کی ضد ہوتی ہے کہ ”جمہوریت“ یہی ہے، یہی لوگ ”منتخب“ اور ’عوام کے نمائندہ‘ ہیں، اس لیے ان کے لولے لنگڑے اور نام نہاد ’ضلعی نظام‘ کو سراہا جائے کہ جس میں صوبائی وڈیروں نے اپنے شہروں کے عوام کو ’آمروں‘ کے زمانے میں دیے گئے جمہوری اختیارات سلب کرلیے ہیں۔ یہاں تک کہ بلدیاتی حکومتوں کو حاصل فراہمی ونکاسی آب اور تجاوزات جیسے امور کے محکمے تک مضبوط ’صوبائی ڈریکولا‘ نے ہتھیا لیے۔ 2023ءمیں آخر کو بے ایمانی اور ارکان کی ’خلافِ ضابطہ‘ جوڑ توڑ کر کے اپنے ’قبضہ میئر‘ کو لانے کے بعد اسے کچھ اختیار دے دیتے ہیں، لیکن اس سے پہلے ان کی وڈیرانہ ذہنیت انھیں اس کی اجازت نہیں دیتی،کیوں کہ ان کے ہاں ’جمہوریت‘ سے مراد صرف ان وڈیروں کا اپنا اقتدار ہوتا ہے، اب اگر کراچی میں ان کا مخالف میئر آکر ان اختیارات سے فائدہ اٹھا لیتا، تو خود بتائیے یہ تو کوئی ’جمہوریت‘ تو نہیں ہوتی ناں!
کیا جمہوریت کے نام پر ان کے اس ’آمرانہ‘ اور ’حاکمانہ‘ طرز عمل کو سراہا جائے؟؟؟
کیا واقعی یہ سب ’جمہوری نمائندوں‘ کے لچھن ہیں؟ کیا اس پر بھی ان ’موروثی بیماریوں‘ کے قصیدے پڑھے جائیں کہ ’یہ نظام کی جیت ہے۔‘ ان کے اقتدار سے ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہوا ہے! نہیں! ہم سے تو یہ کبھی ہوا اور نہ اب ہوگا، چاہے آپ ’تعصب‘ یا ’غداری‘ اور ”را کے ایجنٹوں“ کی چھاپ ہی کیوں نہ لگا دیجیے، ہم بہ صد خوشی اس کے لیے تیار ہیں!
جمہوریت کے نام پر ’وڈیروں‘ کے یہ قصیدہ خواں یہ بھی چاہتے ہیں کہ 1971ءمیں ’اِدھر ہم، اُدھر تم‘ سے شروع ہونے والی فسطائیت پر آنکھیں موندی رکھی جائیں، اکثریت کو اقتدار نہ دینے کی مہلک بدعت شروع کر کے ملک توڑ دینے کے مرتکب ملزم کے نام کے عَلم ”جمہوریت“ کے نام پر بلند کیے جائیں، اور تاریخ سے یہ حقیقت کھرچ کر پھینک دی جائے کہ اس سانحے کا مرکزی ملزم اور سہولت کار قطعی معصوم اور بے قصور ہے! اس نے آمرِ اول جنرل ایوب خان کی کابینہ سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اگر ذاتیات پر لاف زنی اور ہرزہ سرائی کی تھی، تو اس پر بھی آنکھیں بند کر لیجیے، اس نے 1971ءہی میں ایک اور جرنیل یحییٰ خان کی جانب سے تفویض کردہ ذمہ داری پر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پھاڑ پھینکی، تو اس حماقت پر بھی واہ واہ کیجیے، اس نے منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے پر شرکت کرنے والے اراکین کی ٹانگیں توڑنے کی براہ راست دھمکی دی تو یہ بھی کوئی بات تھوڑی ہے! اس نے بچے کھچے ملک کو ’نیا پاکستان‘ کہہ کر اقتدار پر قبضہ کیا، تو یہ بھی بہت اچھا ہے۔ اس نے زہریلا کوٹا سسٹم لگا کر سندھ کی دوسری بڑی قوم کو دیوار سے لگایا، تو اسے اس کا حق جانیے اور اس کے جواب میں مہاجر بستیوں کو لیز کرنے کا احسان زور شور سے جتاتے جائیے اس نے جبراً سندھی زبان نافذ کی، تو بھی وہ غلط نہ تھا، اس نے سیاسی مخالفین پر عتاب نازل کیے، ’آئی ایس آئی میں ’سیاسی ونگ‘ قائم کیا تو ضروری تھا، اقتدار سے پہلے جن محنت کشوں کے نام کی مالا جپتیا رہا، اپنی حکومت میں اس نے کراچی میں انھی مزدوروں پر گولیاں چلوا دیں، حتیٰ کہ حزب اختلاف کی بلوچستان اور سرحد کی دونوں منتخب صوبائی حکومتوں کو چلتا کیا، تب بھی اس کی نام نہاد جمہوریت کی جے جے کی جاتی رہے۔ 1977ءکے انتخابات میں دھاندلی اور فوج کو آنے کا موقع فراہم کرنے کی نوبت تک پہنچانے کے بعد جب انجام سے دوچار ہوا تو اس کی ہائے ہائے کا شور اتنا بلند کیجیے کہ اس کی فاش غلطیاں اور آمرانہ فکر اور سوچ کے مظہر سارے ’کارنامے‘ کہیں پس منظر میں دب کر رہ جائیں!
پھر اس نام نہاد جمہوری جماعت سے بادشاہت کا آغاز ہو تو پہلے بیوی اور پھر بیٹی اور بیٹے ہی کو ’قیادت‘ کا حق دار سمجھنے کے باوجود آنے والی نسلوں کو اس کی ’جمہور نوازی‘ بلند تر دکھائی جاتی رہے۔ اس خاندانی سیاست میں بھائی اپنی بہن کی حکومت میں قتل ہو تو وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا قصہ قرار پائے۔ وہی اقتدار میں ہو اور پھر وہی باپ کی چھوڑی ہوئی تعصب پسندی کو وہیں سے شروع کر دے، جہاں سے منقطع ہوئی تھی، تو اس کا بھی دفاع کیا جائے کراچی میں ماورائے عدالت قتل، سیاسی کارکنان کو چوہے سے تشبیہ دینا، یہاں تک کہ سیاسی کارکن حافظ اسامہ قادری کو اغوا کر کے اس کی بوڑھی ماں فیروزہ بیگم کی جبراً پیپلز پارٹی میں شمولیت کروانے سے بھی حقوق نسواں پر کوئی آنچ نہیں آئے۔ اس کے بدلے ’دختر مشرق‘ کا ڈھنڈورا اتنے زور زور سے پیٹیے کہ جعلی پولیس مقابلوں میں کراچی کی سڑکوں پر گرنے والوں کے لواحقین کی آہ وبکا بھی دب کر رہ جائے!
بے نظیر بھٹو نے پہلے دورحکومت میں 1988ءکے سانحہ¿ حیدر آباد کے ملزمان کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرنا تو درکنار الٹا 1990ءمیں پکا قلعہ جیسا لرزہ خیز اور خوف ناک سانحہ کرا دیا، جس کی بربریت کی مثال جدید دنیا میں ملنا مشکل ہے کہ جب حیدرآباد کے معصوم شہریوں کے گھروں کی پانی، بجلی اور گیس بند کر دی گئی اور جب امان پانے کے لیے سر پر قرآن پاک اٹھائے خواتین باہر نکلیں تو ان پر بے دردی سے گولیاں چلا دی گئیں۔
قومی منظرنامے میں جس کی صفوں میں’طالبان‘ کے اعلانیہ ”والدین“ موجود ہوں اور پھر بھی وہ پاک پَوتر اور ’لبرل ازم‘ کی پرچارک اور امن کے پھریرے لہرانے والی جماعت دکھائی جائے، تو بھیا، پھر تو اس کے قصیدہ گویوں کو داد دینا بنتی ہے کہ وہ نصف صدی سے پیپلز پارٹی کی کیا خوب نمک حلالی کر رہے ہیں یا پھر بدترین بہکاوے اور بدبختی کا شکار ہیں۔ یہ کبھی اس جماعت کی کرپشن کا انکار بھی نہیں کرتے، لیکن انھیں ’جمہوریت‘ کے نام پر یہی بدحالی بہت عزیز بھی ہے، یہی دبئی، لندن اور امریکا کی یاترائیں اور عوام کو عملاً نیچ اور تیسرے درجے کا سمجھنے کی سوچ بھی خاصی بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن بہت معذرت۔ یہ سب آپ ہی کو مبارک ہو۔ ہم سے تو یہ نہیں ہووے گا صاحب!
بھلے ہم ”غدار“ اور ”ملک دشمن“ قرار دے دیے جائیں، ہمیں یہ قبول ہے، لیکن وڈیرہ شاہی اور سرمایہ داری کی ایسی ”جمہوریت“ پر سو کیا ہزاروں بار لعنت ہے، جو ارکان اسمبلی کو خرید خرید کر اقتدار حاصل کرنے کا نام قرار پائے۔ ”مل کر کھانے“ کی راہ کو نظام کی مضبوطی اور بار بار انتخابی عمل کو آئندہ ”بہتری“ کا ذریعہ بتایا جاتا رہے۔ نہیں جناب، ہم سے یہ غلط بیانی اور چشم پوشی ہرگز نہیں ہوگی۔ اگر ایک ہزار سال تک یہی وڈیرانہ، موروثی اور خاندانی لٹیرے ہی نظام کی جڑوں سے چپکے رہے، تو لاکھ انتخابات ہولیں، یہی بربادی اور تباہی ہمارا مقتدر رہے گی۔ یہی وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے عوام کی نمائندگی کا ڈھونگ رچاتے رہیں گے اور ان کی شان میں قصیدے لکھنے والے نہایت خصوع وخشوع سے ان کے فُضلے سے گلاب کی مہک اٹھنے کا راگ الاپتے رہیں گے اور بدترین دروغ گوئی کرتے ہوئے اسے ”جمہوریت“ کہنے پر اصرار بھی کریں گے، لیکن ہم نے بھی طے کیا ہے کہ ہم بھی اس دہشت ناک اقتدار کی آنکھ مچولیوں پر بات کرتے رہیں گے، تاریخ کے حقائق اور حال کی سچائیوں کو عیاں کرتے رہیں گے کہ ہم جھوٹ کے پروردہ نہیں رہ سکتے، ہم دنیا کی کسی شخصیت، قائد اور سیاست دان کو عقیدت کے درجے میں نہیں دیکھ سکتے، غلطیوں سے مُبرا اور تنقید سے ماورا کوئی انسان نہیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ کسی کی بھی سفاکی سے نقاب الٹاتے رہیں اور ساتھ میں صحافت اور دانش کے نام پر جو لوگ اس سچائی کے اظہار کو ناگوار اور برا سمجھتے ہیں، انھیں بھی بتاتے رہیں کہ آپ غلطی کر رہے ہیں!
آپ تاریخ سے یہ حقیقت حذف نہیں کر سکتے کہ ملک کی پہلی مسلح دہشت گرد سیاسی تنظیم ”الذوالفقار“ بنانے والے کون تھے اور نہ آج کی یہ حقیقت جھٹلا سکتے ہیں کہ کس طرح کراچی میں سیاسی طاقت کے واسطے باقاعدہ ’لیاری گینگ وار‘ کی سرپرستی کی گئی۔ کس طرح اندرون سندھ میں معصوم بچے آوارہ کتے کے کاٹے کے ٹیکے دست یاب نہ ہونے پر اذیت ناک اموات کا شکار ہوتے رہے ہیں ہمارے موجودہ سیاست دانوں کو یہ نام نہاد جمہوریت اس لیے عزیز ہے کہ اس کے ذریعے ان کے اقتدار کے راستے ہموار ہوتے ہیں، ورنہ یہ کتنے جمہوری ہیں، وہ ان کی جماعت میں قیادت کے انتخاب سے ہمیشہ ہی واضح رہا ہے، جس جماعت کے نمائندے ٹی وی مذاکروں میں کرپشن کو اپنا حق قرار دے دیں ’تھر‘ میں معصوم بچے غذائی قلت سے مرتے رہیں، لیکن صوبائی حاکموں کی توجہ کراچی اور حیدر آباد میں جبراً سندھی کچی آبادی، سندھی ثقافت گھسیڑنے اور دیہی سندھ کے نام پر میلے ٹھیلے پر مرکوز رہے۔ وہ جماعت جسے ’شہر قائد‘ میں بانی پاکستان کے نام کا ایک میڈیکل کالج تک قبول نہ ہوا، جو ایک طرف جناح کو ’سندھی‘ قرار دے کر اجارہ بھی دکھانے کی ناکام کوشش کرے اور دوسری طرف کراچی میں اسی قائد سے منسوب ’جناح میڈیکل کالج‘ کو ”جناح سندھ میڈیکل کالج“ کرا کے ہی دم لے! کیا یہی وسعت، گنجائش اور ظرف ہوتا ہے کسی بھی جمہوری اور سیاسی جماعت کا؟ وہی جماعت جس کی ’شہید رانی‘ اپنے ایک خطاب میں سندھیوں کو اکسا رہی تھیں کہ کراچی میں بڑی بڑی پرائیوٹ نوکریاں ”ہندوستانی“ کر رہے ہیں۔ یعنی یہ بھی خوب ہے ناںِ، پہلے خود کوٹا لگا کر مہاجروں کو سرکاری تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے پرے دھکیل دو او رپھر جب وہ نجی شعبے میں جائیں، تو اس پر بھی ہاہاکار مچاﺅ اور مہاجروں کو ’ہندوستانی‘ کہہ کر خوب قوم پرستی پھیلاﺅ اور اس کے باوجود ان کے ڈھنڈورچی انھیں ”چاروں صوبوں کی زنجیر“ مشہور کیا کرتے تھے، اب کیا کیجیے، سارے اصول اور منطق گھاس چرنے چلے جاتے ہیں جب بلاول زرداری اپنے نام کے ساتھ ”بھٹو زرداری“ ٹھوکنے لگتے ہیں، کیوں کہ معصوم سندھیوں میں زرداری کا نہیں بلکہ ’بھٹو‘ کے نام کا چورن بکتا ہے، کوئی نہیں کہتا اللہ کے بندو! نسل تو باپ سے چلتی ہے، بے نظیر نے خود کو ’بے نظیر بھٹو‘ کہا تو چلیے، یہ حق تھا کہ بھٹو اس کی ولدیت ہے، لیکن زرداری کا بیٹا خود کو بھٹو کیسے کہہ سکتا ہے؟ اور وہ بھی صرف بھٹو ہی نہیں بلکہ ”بلاول بھٹو زرداری“؟؟ ارے کہاں چلی گئی ہے تمھاری عقل! شاید وڈیروں کے طرف داروں کی ذہنی سطح سمجھنے کے لیے ایک یہی بات کافی ہے۔
اب کیا ہوا اگر حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی بننے کے عشروں پرانے مطالبے پر انھیں بہت شدید تکلیف اٹھنے لگتی ہے، اگر مسلسل تین بار یعنی 15 برس تک لگاتار، پورے صوبے کی سیاہ وسفید کے مالک ہونے کے باوجود اپنے سب سے بدتر آمر جنرل ضیا الحق کی عائد کردہ طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹانے کے حوالے سے زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ لیکن اس جماعت کے ’شریک چیئرمین‘ ایک پَچھڑی ہوئی ذات کی اقلیتی خاتون کو ’کٹھ پتلی سینٹیر‘ بنا کر اپنے سارے کرتوتوں پر پردہ تو ڈلوا جاتا ہے۔
یہ دراصل وہ لوگ ہیں، جنھیں کوٹا سسٹم سے شہری سندھ اور دیہی سندھ کا ٹُنٹنا لگانے سے سندھ کی تقسیم نظر نہیں آتی، لیکن اگر شہری سندھ کا بلدیاتی نظام دیہی سندھ جیسا نہ ہو تو یہ غضب ڈھا دیتے ہیں، جیسے 2013ءمیں کیا۔ تو کیا ہوا اگر سندھی مہاجر جھگڑے کے بعد ذوالفقار بھٹو نے اپنے ’ذہین کزن‘ ممتاز بھٹو اور اس جیسے دیگر متعصب عناصر کی زہر افشانی پر مہاجر قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی اور اسی وقت یہ بھی طے ہوا تھا کہ سندھ میں گورنر یا وزیراعلیٰ میں سے ایک مہاجر ہوگا، لیکن 50 سال ہوگئے، آج تک ایک وزیراعلیٰ بھی مہاجر نہ آسکا، الٹا اٹھارہویں ترمیم کے عذاب سے گورنر سندھ کے رہے سہے اختیار غتربود ہوگئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اِس خوف ناک ’صوبائی خودمختاری‘ کی بے گانی جنگ لڑنے والی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ نہ جانے کس نشے میں اس کی حامی بنی۔ ’متحدہ ‘ تو وہ جماعت تھی، جس نے 2008ءمیں بہت بلند آہنگ ہو کر صوبائی خودمختاری کے منشور پر انتخاب لڑا، لیکن حیرت ہے کہ خود کو مہاجر سے ’متحدہ‘ کرنے کے گہرے نشے نے اسے اتنا اندھا کیا ہوا تھا کہ وہ یہ سوچ بھی نہ سکی کہ اس ’صوبائی خودمختاری‘ کے بعد کراچی اور حیدرآباد والوں کے ساتھ دیہی سندھ کا تنگ نظر حاکم کیا سلوک کرنے والا ہے!
آج ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ کراچی اور حیدرآباد اسی مہلک ’صوبائی خودمختاری‘ کی قیمت چُکا رہے ہیں۔ پندرہ برس سے سندھ کی سلطنت پر قابض ٹولا اسلام آباد سے اپنے حصے کی ایک دھیلے کی کمی بھی برداشت نہیں کرتا، لیکن دوسری طرف خود کو 90 فی صد پیسہ دینے والے کراچی شہر کو سندھ سے الگ کرنے پر تو خوب دھمکیاں دیتا ہے، لیکن اِسے کچھ دیتے ہوئے بھی اس کی جان جاتی ہے۔ اس کی ساری کوشش کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر دشمنی اور تعصب پر مبنی اقدام کے لیے ہوتی ہے کہ کس طرح ’کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کو ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کرنا ہے، کیسے ’جدیدیت‘ کے نام پر یہاں کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر ’سندھی اجرک‘ کی چھاپ ہونا لازمی کرانا ہے، کیسے سندھی ثقافت کے دن منا کر کراچی اور حیدرآباد والوں پر اپنی دھاک بٹھانی ہے، کیسے کراچی کے مضافات میں کچی آبادیوں کی سرپرستی کرنی ہے، کیسے دیہی سندھ سے لا لا کر سرکاری نوکریوں پر قبضے جمانے ہیں، کیسے کراچی کی ضلعی تقسیم کر کے مہاجر ووٹ بینک کو بانٹنا ہے، کیسے مہاجر آبادیوں میں کم اور سندھی کچی آبادیوں میں انتخابی حلقوں میں اضافہ کرنا ہے۔
بس یہی خلاصہ ہے اس وڈیرانہ ذہنیت کی پروردہ سیاسی جماعت کے جبر اور سفاکیوں کا، جس کا مرکزی خیال اقتدار اور اقتدار کے ثمرات کو سمیٹنا اور لوگوں کو غلام بنا کر رکھنا ہے۔ لیکن ہمارے بعضے دانش وروں کو شاباش ہے کہ انھیں ہمارا یہ ساری باتیں کرنا ’گندگی‘ لگتا ہے، تو جان لیجیے کہ یہ ساری کی ساری گندگی اسی موروثی شہنشاہیت کی پروردہ جمہور دشمن اور سندھ پر 15 برسوں کا ریکارڈ اقتدار رکھنے والی سیاسی جماعت ہی سے لی گئی ہے، جس کا اظہار آپ کو بہت ناگوار گزرتا ہے۔ آپ صرف بھٹو خاندان کی مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر کبھی کسی ’شاہ زادی‘ کی کسی ادار پر واری جاتے ہیں، کبھی کسی ’شاہ زادے‘ کا چھچھور پن آپ کے دل کو لبھا جاتا ہے اور آپ اکبر بادشاہ کے نورتنوں اور درباریوں کی طرح واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں، لیکن ہم سے تو پہلے کبھی یہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔
امید ہے اب کے بہت اچھی طرح تشفی ہو گئی ہوگی!!
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *