تحریر: رضوان طاہر مبین
22 اگست 2016ءمیں پاکستان میں موجود رابطہ کمیٹی کی علاحدگی کے کچھ وقت کے بعد ’لندن رابطہ کمیٹی‘ میں بھی واضح ٹوٹ پھوٹ دیکھی گئی۔ ایک طرف مرکزی رکن محمد انور (مرحوم) اور طارق میر وغیرہ تھے، جن کے ہاتھ میں ’ایم کیو ایم‘ کے اثاثے وغیرہ تھے اور مبینہ طور پر ان سے مالکانہ حقوق الطاف حسین کو منتقل کرنے پر اختلاف ہوا اور پھر یہ لوگ دبئی میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے۔ دوسری طرف نہایت پراسرار طور پر کنوینر ندیم نصرت چھٹیوں پر امریکا گئے اور کچھ دن ’غائب‘ رہنے کے بعد ایک دن امریکا میں ’وائس آف کراچی‘ کے نام سے ایک تنظیم کے سرخیل بن کر بیٹھ گئے اور ان کے ہم رکاب ’لندن رابطہ کمیٹی‘ ہی کے سابق رکن واسع جلیل ہوئے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب اقتدار حاصل ہونے کا کوئی امکان نہ رہا، تو وہاں بھی ’پنچھیوں‘ نے کوچ کرنا شروع کر دیا۔
اس کے باوجود ایک طرف الطاف حسین کی اثر پذیری کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے تو دوسری طرف دیکھیے، تو ہمیں نہیں پتا عمر کے اِس حصے میں، ایک ناکام ازدواجی زندگی کے ساتھ، الطاف حسین کی اپنی ذہنی کیفیت اس وقت کیا ہے؟ وہ پلٹ کر اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوں گے، تو جمع تفریق کر کے اپنے ’کھاتے‘ میں کیا نفع اور کیا نقصان پاتے ہوں گے؟ اور پھر انھیں یہاں کے بدلے ہوئے سیاسی حقائق کے بارے میں کس قدر معلومات اور ادراک ہے؟ وہ اکثر اپنے ’آن لائن‘ ویڈیو تقاریر میں شدید اشتعال اور غصے میں بہک کر بلند آہنگ گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں، انھیں شاید نہیں پتا کہ وہ خود اتنے بڑے راہ نما ہو کر اِس وقت کس قسم کی ’منزل‘ کے راہی ہو چکے ہیں؟ لیکن اس میں بھی تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ لندن میں ان کے ارد گرد جو ”وفا پرستی“ کی ”شمعیں“ روشن ہیں، وہ سو فی صد اپنی ’تحریک‘ کے سفینے کو ڈبونے پر تُلی ہوئی ہیں!
’لندن‘ میں اپنے ’قائد‘ کو چلانے والے نام نہاد ’وفا پرست‘ اس حوالے سے کیا کردا ادا کر رہے ہیں؟ آپ اپنی تنظیم کو ایک ’تحریک‘ اور خود کو ’تحریکی‘ قرار دیتے ہیں، لیکن افسوس، مسلسل حماقتوں سے ’تحریک‘ کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے مشتعل ہو کر وہ خود اپنی راہ کھوٹی کر رہے ہیں! ’ایم کیو ایم‘ کی زبان میں اگر موثر تنظیمی کارروائی ہو تو، اِس پوری ’لندن رابطہ کمیٹی‘ کو مع کنوینئر مصطفیٰ عزیز آبادی، طارق جاوید ودیگر کے، تنزلی کر کے دوبارہ سے ’اے پی ایم ایس او‘ (ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم) میں بطور کارکن کام کرنے کے لیے بھیج دینا چاہیے کہ اتنی بڑی سیاسی جماعت کے نام نہاد ’انٹرنیشنل سیکریٹریٹ‘ میں پدھار کر وہ ایک معمولی سیاسی کارکن جتنے شعور سے بھی عاری محسوس ہو رہے ہیں، بار بار سیاسی خود کُشی کر رہے ہیں، اور ہر روز اپنے بیانات سے اپنے لیے ’سیاسی موت‘ کے سامان کر رہے ہیں۔
ہمیں تواب لندن کی رابطہ کمیٹی کا کردار بہت پراسرار اور ناقابل تفہیم معلوم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سابق کنوینر ندیم نصرت بہ ظاہر سیاسی سمجھ بوجھ کے حامل دکھائی دیتے تھے، ان کے لہجے میں شائستگی اور باتوں کا انداز قابل عمل اور بہت منطقی ہوتا تھا، اب ان کی اصل وابستگی کا کیا ماجرا ہے، یہ تو خدا ہی جانے، کیوں کہ وہ بھی 2012ءمیں کوئی دس، گیارہ سال کی دوری کے بعد الطاف حسین کے ساتھ ہوئے تھے اور 16 اکتوبر 2017ءکے ’ڈان‘ میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق اُس وقت اُن سے علاحدہ ہوگئے تھے، جس کی تصدیق مئی 2018ءمیں ’لندن رابطہ کمیٹی‘ کی جانب سے بھی کر دی گئی، جب انھوں نے واشنگٹن میں باقاعدہ ’وائس آف کراچی‘ نامی تنظیم کی چھتری تلے ”آزاد کراچی“ کی مہم شروع کی۔ خیر، ان کے بعد 2011ءتا 2012ءوفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی رہنے والے ندیم احسان قائم مقام کنوینئر رابطہ کمیٹی رہے، جن کا لب ولہجہ خاصا غیرشائستہ، جارحانہ اور اشتعال انگیز ہوتا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد جب بانی وائس چیئرمین طارق جاوید کو کنوینئر بنایا گیا تھا، تو کچھ امید تھی کہ شاید ان کی سیاسی تجربے کاری ان کی تنظیم کو بہتر طریقے سے آگے بڑھائے گی اور وہ غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے آگے کوئی اچھی راہ اپناتے ہوئے دکھائی دیں گے، لیکن نہیں صاحب، ہمیں تو ندیم احسان اور ان کی ’قابلیت‘ میں بس کوئی اُنیس، بیس کا ہی فرق دکھائی دیا طارق جاوید کے دلائل، لب ولہجے اور باتوں سے کہیں سے بھی یہ معلوم نہ ہوا کہ ان کی عمر ایک اتنی بڑی جماعت کے کلیدی عہدوں پر فائز رہتے ہوئے گزری ہے اور لونڈے لپاڑوں کی جماعت کا طعنہ سنتے سنتے آج ان کے بال سفید اور چہرے پر بے شمار جھریاں پڑ چکی ہیں! کُل ملا کر بات یہ ہے کہ ’لندن‘ والوں کا پرنالہ بدستور وہیں بہتا رہا، بلکہ اب پہلے سے بھی زیادہ شدومد سے بہا۔ ایک چھوٹی سی مثال ہی لیجیے کہ جہاں اب ڈھائی، تین گھنٹے کی فلمیں لوگ جم کر نہیں دیکھتے، وہاں یہ اپنے قائد کے آج بھی طویل اور تھکا دینے والے ’فیس بک‘ اور یوٹیوب ’خطابات‘ کا انتظام کرتے ہیں، خود ’لندن رابطہ کمیٹی‘ کی ’آن لائن‘ پریس بریفنگ بھی اختصار اور جامعیت سے بہت پرے ہوتی ہیں اور اکثر باتیں زمینی حقائق سے دوری اور غیر عملی ہونے کے باعث ایسی لگتی ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد نہیں، بلکہ کسی اور خیالی دنیا میں اپنے حامیوں کا قصہ بیان کر رہے ہیں!
22 اپریل 2025ءکو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی جو باقاعدہ دو طرفہ حملوں کے بعد جنگ بندی پر منتج ہوئی، اس حوالے سے ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل نے ’یوم تشکر‘ کی ایک دستاویزی فلم دکھائی، جس میں پاکستان میں ہندوستانی مداخلت کا ذکر کیا، اور اس میں ’را‘ کی جانب سے مبینہ طور پر ’ایم کیو ایم‘ اور الطاف حسین کی فنڈنگ کا ذکر بھی کیا گیا، جس پر 26مئی 2025ءکو الطاف حسین نے ایک بار پھر اشتعال انگیزی اختیار کرتے ہوئے اِسے اپنے خلاف اعلان جنگ قرار دیا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کر ڈالی۔ اس طرح 2016ءکے بعد ایک مرتبہ پھر ملک دشمنی کا لب ولہجہ اپنایا گیا، بالکل ویسے ہی جیسے انھوں نے 2019ءمیں نہ جانے کس منطق اور کس کے مشورے پر ہندوستانی چینلوں پر جلوہ افروز ہونا شروع کر دیا تھا اور اس سے پہلے انھیں ”بابائے سندھو دیش“ کے مضحکہ خیز بارات میں دولھا بنا بنا کر بٹھایا جا رہا تھا اور آج کافی عرصے بعد انھوں نے بیٹھے بٹھائے نہایت غیر ضروری انتہا کو چھوا ہے۔
اگر ان پر کسی قسم کے الزامات لگائے گئے تھے تو انھیں چاہیے تھا کہ بہت طریقے سے اپنی پوزیشن واضح کر دیتے، لیکن ایسا کرنا اور کروانا شاید اب یہ لوگ بھول چکے ہیں۔ یہ ’دستاویزی فلم‘ ایک بھینسے کو سرخ کپڑا دکھا کر اُسے مشتعل کرنے کی ایک کام یاب ترکیب ثابت ہوئی۔ اشتعال انگیزی کی بنا پر ایک عشرے سے سیاسی عمل سے باہر ہونے کے باوجود ان کی جانب سے اس طرز عمل میں خاطرخواہ تبدیلی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف اتنے عرصے بعد آج بھی کراچی اور حیدرآباد سے ان کے حمایتی کارکن سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن الطاف حسین کے ایسے ناقابل فہم طرز عمل ان کی کسی بھی سیاسی بحالی کے امکان سے بھی کوسوں دور کر دیتے ہیں۔ الطاف حسین کی موجودہ صورت حال زمینی حقائق سے دوری کا نتیجہ ہے، جس میں ’لندن رابطہ کمیٹی‘ کا کردار ناقابل فہم اور مشکوک ہے۔ الطاف حسین جتنے اپنے بیانات کے ذمے دار ہیں، اتنے ہی ذمہ دار لندن میں موجود ان کے نام نہاد ’وفا پرست‘ ساتھی اور ارکان بھی ہیں۔ شاید آج اگر ان کے اردگرد مناسب لوگ ہوتے، تو الطاف حسین سیاست میں واپس ہوتے یا نہ ہوتے، لیکن کم از کم ان سے ایسی بے تکی اور ناقابل قبول حماقتیں اور بیان بازیاں بالکل نہ ہو رہی ہوتیں!
٭٭٭٭٭٭
Categories
الطاف حسین کے بیانات اور ”لندن رابطہ کمیٹی“ کا کردار
