(تحریر: رضوان طاہر مبین)
باقیوں کا تو نہیں پتا، لیکن اگر ہم اپنی بات کریں تو ہمیں پورے ہفتے صرف جمعے اور بعد میں پھر اتوار ہی کو کھیلنے یا اپنی مرضی سے وقت گزارنے کا موقع مل پاتا تھا۔ روزانہ شام کے وقت بہت سارے بچے گھروں سے باہر ادھر ادھر کھیل کود میں مصروف ہوتے اور ہم اس وقت بھی ٹیوشن جا رہے ہوتے تھے اور وہاں سے واپسی پر کھانے کے بعد رات کو ہمارے سونے کا وقت ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد صبح پھر وہی مدرسہ اور اس کے فوراً بعد اسکول اور شام کو پھر ٹیوشن۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہوگی کہ ہمیں سارا سال تہواروں اور چھٹیوں کا بڑی شدت سے انتظار رہتا، تاکہ ہمیں کسی نہ کسی طرح فرصت کا وقت مل سکے اور پھر ہم اپنی مرضی سے جو چاہیں کر سکیں۔
ہمارے بچپن کے ایسے ہی انتظار میں ایک بقرعید کی آمد بھی رہی ہے، سب بچوں کی طرح ہمیں بھی گلی، گلی جا کر مختلف جانور دیکھنے جانے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ جب آخر کے تین چار دن جب اپنے گھر میں جانور آجاتا تو پھر توسارا دن اسی کے سنگ رہتا۔ ایسے ہی فرصت میں سنسنی خیزی کا ایک لمحہ کسی گائے کا بِِدک جانا ہوتا تھا۔ اس وقت کے بچے صرف اس کی خواہش ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے لیے عملی طور پر کوششیں بھی کرتے تھے۔ وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی گائے منڈی سے ہمارے محلے میں لائی جاتی، تو نہ جانے کہاں کہاں سے بچوں کا ایک جم غفیر اس کے گرد جمع ہو جاتا تھا اور اس قدر شور مچاتا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایسے میں ایک طویل سفر کرکے آنے والا جانور کبھی پریشان ہو کر اشتعال انگیزی پر اتر آتا اور اس کا یہ غصہ اس قدر بڑھتا کہ وہ گاڑی سے اترتے ہی اپنی رسی پکڑنے والوں کے ہاتھوں سے جاتا رہتا۔ اور ہم بچے جانتے تھے کہ یہ ”موقع“ الّا ماشااللہ ہی یا سال، دو سال میں ایک آدھ بار ہی نصیب ہوتا تھا، حالاں کہ جس کا جانور بھاگ جائے، اس کے لیے یہ اچھے خاصے جان جوکھم کی بات ہوتی ہے، لیکن ہم بچے کہاں اس قدر سوچتے تھے۔ ہمیں تو یہ فقط اپنی سنسنی خیزی اور ڈرامے سے مطلب ہوتا تھا۔
ہمارے ذہن میں آج بھی بہت سے دوڑیں لگوا دینے والے جانوروں کے واقعے موجود ہیں۔ کسی نے خود سے باندھا گیا کنڈا توڑ ڈالا، تو کسی نے زنجیر جھٹک ڈالی، تو کسی نے پورا کھمبا ہی ہلا دیا ایسے موقع پر جب لائے جانے والے جانور کے تیور خطرناک ہو رہے ہوتے تو بہ جائے اُسے گاڑی کے اندر سے گھما کر چھلانگ مار کر اتارنے کے، اُس کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف طریقے بھی نکالے گئے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ گلی نمبر دو میں لائی گئی ایک گائے ایسے ہی بپھر رہی تھی تو گاڑی کو اندر کے رخ پر گلی میں اس طرح لایا گیا کہ اگر جانور اتر کر بھاگے بھی تو آگے سے تو وہ گلی بند ہے، وہاں سے کہاں جائے گا اسی طرح ایک مرتبہ محلے کے معروف منظور پان والے عرف لنگڑے پان والوں کی گائے آئی، بچوں نے حسب روایت آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور سب کو بہت ’امید‘ تھی کہ یہ تو اتر کر بھاگی ہی بھاگی تو جناب اس کی رَسی کھولی جا رہی تھی اور اب یہ بس اترنے ہی والی تھی کہ یکایک بیساکھیاں دوڑاتے اللہ بخشے بھائی منظور پان والے وہاں آدھمکے اور اونچی آواز میں حکم صادر کیاکہ ”نہیں جی، گائے یہاں نہیں اترے گی، یہ چھوٹے خان کے باڑے میں اترے گی!
لو جی، اس طرح عین وقت پر ہی ہم بچوں کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا کہ جب چھوٹے خان کے ریتی بجری اور سمینٹ کے بلاکوں کے باڑے میں اُسے ریتی کے ڈھیر پر اتارا گیا تو اس کے پیر تو ویسے ہی مٹی میں دھنس رہے تھے، اب کہاں کا بھاگنا اور کیسا بھاگنا پھر اُسے بہت آسانی سے بڑی سی رسی سے درمیان میں بڑے مضبوط ستون سے باندھ دیا گیا، اس طرح ہم بچوں کے سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔
اس سے بھی زیادہ ’سمجھ داری‘ جو پہلے چند ایک ہی کرتا تھا اور بعد میں ہر کوئی ہی کرنے لگا، وہ یہ تھا کہ گائے یا بیل کو گاڑی سے اتارنے سے پہلے ہی لائی گئی سوزوکی سے باندھ دیا جاتا، جس سے اس کے بھاگنے کا امکان ہی ختم ہو جاتا۔ یہ وہ ’کارگر‘ نسخہ تھا کہ جس پر عمل کے بعد شاید ہی کوئی جانور بھاگ سکا ہو۔ البتہ اگر کوئی بپھرے ہوئے جانور کے ساتھ ایسا کرنے سے چُوک گیا، تو پھر اس نے ضرور اس کی قیمت ادا کی۔
بقرعید کے آخری دنوں میں اور بالخصوص ہفتہ وار تعطیلات میں ہم بچوں کا وقت محلے بھر کی گلیوں ہی کی نذر ہو جاتا تھا، کیوں کہ ایک کے بعد ایک اور ایک سے بڑھ کر ایک جانور آرہے ہوتے تھے، ایسے ہی بقرعید والے دن بھی جانوروں کی قربانیوں کے سلسلے میں بچے اِدھر اُدھر ’مصروف‘ ہوتے۔ ہمارے محلے کی جو ایک خاص بات رہی کہ گائے اور بیل سے لے کر اونٹ وغیرہ کے نحر ہونے تک کے سارے معاملات قسائیوں کے بہ جائے محلے کے نوجوانوں کی ٹولیاں اپنے شوق میں خود انجام دیا کرتی تھیں اور ہم نے یہ سلسلہ اتنا مستحکم دیکھا کہ محلے میں یہ تصور ہی ختم ہونے لگا کہ گائے اور بیل کوئی قسائی گرائے گا یا اونٹ کے پیر اور منہ باندھنے سے لے کر اس کے نحر کرنے تک کے مراحل کوئی قسائی دیکھے گا۔ بڑے جانوروں میں قسائی کا کام جانور ٹھنڈا ہونے کے بعد ہی شروع ہوتا تھا۔
اونٹ کو قابو کرنے کے سلسلے میں ہمارے محلے کے ’موسیٰ بھائی‘ اور ان کے دوست اس قدر مُشاق ہوگئے تھے کہ پھر لوگ دوسرے محلوں سے بھی انھیں بلاتے کہ بھئی ذرا دیکھ لو یہ اونٹ بہت بدک رہا ہے، اس کی رسی باندھ دو یا اس کی نکیل کی رسی نکل گئی ہے وغیرہ۔ یہ گویا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا۔ ایک مرتبہ کیا ہوا کہ اونٹ کو نحر کرنے سے پہلے بٹھا رہے تھے لیکن وہ بیٹھ ہی نہیں رہا تھا، ہزار جتن کے بعد شاید اس کے اگلے دو پیر بھی آپس میں نہیں باندھے گئے اور ایسے ہی قبلہ رخ کرکے اس کے چھُری مار دی گئی، پھر تو چاروں پیر پر کھڑے ہوئے اونٹ کی طاقت کا آپ اندازہ لگا ہی سکتے ہیں، اس نے ایک جھٹکا دیا دائیں اور ایک بائیں، پھر کس کے ہاتھ میں اور کیسی رسی! سارے ہجوم میں ایک بھگ دڑ مچ گئی، وہ تو بھلا ہو ’عاطف پٹھان‘ کا کہ انھوں نے ہمت کر کے کسی طرح اس کی چُھٹی ہوئی رسی اپنے قابو میں کی، ورنہ نہیں معلوم وہ اونٹ کیا کرتا۔
ہمارے ہاں اکثر بقرعید کے تیسرے دن ہی اونٹ نحر ہوتے تھے۔ صبح سے وقتاً فوقتاً جو سلسلہ شروع ہوتا، وہ سہ پہر ساڑھے تین بجے تک جاری رہتا ایسے میں ہم بچوں کی بڑی خواری ہوتی تھی کہ ایک اونٹ کے چکر میں ایک جگہ کھڑے انتظار کر رہے ہیں، تو پتا چلا کہ فلانی گلی میں اونٹ کٹنے لگا ہے، دوڑے دوڑے وہاں گئے، تو کبھی پتا چلا کہ ابھی تو وقت ہے، جب کہ اس سے پہلے فلانی گلی کا کٹ رہا ہے، تو جلدی جلدی وہاں چلے گئے۔ ایسے ہم سب بچے محلے کی گلیاں ناپتے پھرتے اور خوب خوار ہوتے اور ایسا ہو بھی جاتا کہ ہم یہاں کھڑے رہ گئے اور وہاں اونٹ نحر ہو بھی گیا، ظاہر ہے ہمارے پاس موبائل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے کہ فوراً ایک دوسرے کو خبر کر دیتے۔
اپنے محلے میں بقرعید کے جوش وخروش سے یہ ہوا کہ چھوٹے جانور ذبح کرنے سے لے کر گائے، بیل اور اونٹ کے نحر ہونے تک کے ضروری اور اہم مراحل ہمیں بچپن ہی سے ازبر ہو گئے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہم محلے سے کچھ دور بنگلوں کے علاقے میں اونٹ نحر ہوتے وقت گئے۔ کیوں کہ وہاں بھی ہمارے محلے کے لڑکوں کی ٹیم کو بلایا گیا تھا۔ اب وہاں تین عدد ’برگر‘ نوجوانوں کی گفتگو سنی، جو اونٹ کے نحر ہونے کے ’مجوزہ‘ طریقوں پر گفتگو کر رہے تھے کہ اونٹ کو کیسے لٹاتے ہوں گے؟ دوسرے نے کہا اَبے لٹاتے تھوڑی ہیں، اس کو تو کھڑے کھڑے ہی چُھری مارتے ہیں! اس پر تیسرے نے حیران ہو کر کہا ارے اچھا، پھر تو یہ دیکھنے والا سین ہوتا ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ تب ہمیں پتا چلا کہ آپ پر آپ کے اردگرد کے ماحول کا کس قدر اثر ہوتا ہے، جب آپ دیکھتے ہیں کہ جانور کو قبلہ رخ کیسے لٹائے جاتا ہے اور چُھری پِھرنے کے بعد اُسے ٹھنڈا ہونے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے، اُسے چُھری سے مزید نوکیں نہیں مارنی چاہئیں۔ چُھری پِھرتے وقت سب بہ آواز بلند ’بسم اللہ، اللہ اکبر‘ کہتے ہیں۔ یہ سب تربیت اور سیکھنے کی چیزیں ہوتی ہیں، جو اگر نہ مل پائیں تو پھر آپ ان جان کاریوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
٭٭٭
Categories
اُترنے سے پہلے گائے کی رسی باندھنے کی ترکیب دینے والے کو ہم ”معاف“ نہیں کریں گے!
