Categories
Interesting Facts Karachi Society پیپلز پارٹی دل چسپ ذرایع اِبلاغ سعد احمد سندھ قومی تاریخ کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

فرید ایاز قوال سے ”چھاپ تلک سب چھین لیے“ تلک!

(تحریر: سعد احمد) ملک کے مشہور قوال فرید ایاز 1952ءمیں حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئے، ان کے بھائی ابو محمد 1960ءکراچی کی پیدائش ہیں۔ یہ دونوں بھائی مل کر قوالی گاتے ہیں۔ 1956ءمیں ان کا خاندان ہندوستان سے پاکستان تشریف لے آیا۔ قوال فرید ایاز مہاجر تہذیب کے اہم جزو پان سے بھی خاصا شوق رکھتے ہیں، لیکن ساتھ میں سندھ ٹوپی اور اجرک اوڑھے دکھائی دیتے ہیں۔ آرٹس کونسل ہو یا اور کوئی محفل، وہ اکثر اسی حلیے میں دکھائی دیتے ہیں، جس سے احباب کو گماں گزرتا ہے کہ شاید وہ کسی سندھی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے برعکس مشہور قوال ’صابری برادران‘ بھی ہندوستان سے کراچی تشریف لائے تھے، لیکن انھوں نے کبھی اپنی مہاجر تہذیب کو نہ چھوڑا۔ اور یہی حقیقت پسندی اور اپنی جڑوں سے محبت کا تقاضا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنی ولدیت کی طرح اپنی اصل اور اپنی شناخت کو زندہ رکھیں۔ جب آپ خود اپنی شناخت کو زندہ رکھیں گے تو دوسرے بھی لامحالہ آپ کی تہذیب اور جداگانہ تشخص کو عزت دیں گے۔
جیسے اور بھی بہت سی بدقسمتیاں مہاجر قوم کو ملیں، وہیں یہ بھی ہے کہ ہمارے فن کار اور قلم کار سبھی اپنی تہذیب کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اپنائے رکھتے ہیں، جب کہ سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون سے لے کر سرائیکی، گلگتی اور کشمیری تک۔ سبھی قوموں کے فن کار اور قلم کار کبھی اپنی تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے۔ مہاجر فن کاروں کی اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر جگہ سب کی ثقافت اور شناختوں کی بات دھڑلے سے ہوتی ہے، اگر نہیں ہوتی تو مہاجر تہذیب اور مہاجروں کے جداگانہ تشخص کی بات ہے۔ یہاں کراچی کے تھانے میں بھی اگر کوئی آئے، تو تھانے دار اس کے سر پر سندھی ٹوپی اور اجرک چڑھا دیتا ہے۔ بیکریوں کے شاپنگ بیگ سے لے کر آم کے ڈبوں اور ٹشو پیپر سے لے کر گاڑیوں کی نمبر پلیٹ تک، ’سندھی حکومت‘ کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کراچی اور حیدر آباد جیسے غیر سندھی شہروں میں بھی اجرک اور سندھی ٹوپی مسلط کردے۔
ثقافت کسی کی بھی بری نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم کسی کی ثقافت کو برا کہہ رہے ہیں، لیکن یہ ثقافت اس وقت سامراجی اور ظالمانہ رنگ اختیار کر جاتی ہے، جب کسی اور کے گھر پر جا کر آپ اس کی تہذیب کو تسلیم کرنے اور اس کے آگے جھکنے کے بہ جائے اپنی تہذیب اس پر مسلط کر دیں۔ اب یہاں یہ کوئی نہ کہے کہ مہاجروں نے بھی 1947ءمیں آکر یہاں اپنی مہاجر تہذیب ”مسلط“ کر دی تھی۔ تو یہ بات اچھی طرح جان لیجیے کہ یہ تحریک پاکستان کا ایک نتیجہ تھا، اور کراچی میں تب بھی گجراتی، میمنی اور دیگر زبانیں بولی جاتی تھیں، پرانی تحریروں میں یہاں کہیں بھی سندھی زبان، یا سندھی ثقافت دکھائی نہیں دیتی، کراچی تو ویسے بھی متنازع طور پر صوبہ سندھ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان کو ماننا ہے تو مہاجر اسی پاکستان کے وجود کی ایک لازم نشانی ہیں، آپ کو چاہے جتنا برا لگے، آپ کو انھیں برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
یہ ایک الگ المیہ ہے کہ مہاجر فن کار اور قلم کار خود ہی اپنی تہذیب کے بہ جائے دوسری ثقافتوں کے اسیر ہو جائیں۔ حد یہ ہے کہ امیر خسرو کے روایتی گیت ”چھاپ تلک سب چھینی“ تک کو عابدہ پروین اور راحت فتح علی خاں کے گاتے ہوئے اسکرین پر سندھی اجرک دکھا دی جاتی ہے، اور کوئی کچھ کہنے سننے والا نہیں، جس کی کچھ تُک بنتی ہے اور نہ ہی کوئی جواز۔ یہ سب ہوتا ہے، 2014ءمیں ’کوک اسٹوڈیو‘ کے سیزن 7 میں۔ جب مہاجر فن کار اور گلو کار ہی اپنے بزرگوں کے رکھ رکھاﺅ سے بے گانے ہوجائیں تو پھر کسی اور سے کوئی شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مہاجروں کی یہ بد نصیبی ہی تو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights