(تحریر: رضوان طاہر مبین)
اگر ہم آج کی بقرعید کا اپنے بچپن کی بقرعید سے موازنہ کریں، تو بچپن کی بقرعیدوں سے جُڑی ہوئی جو ایک چیز ہم سے چھُوٹتی چلی گئی ہے، وہ ’قربانی کی کھالوں کا انعام‘ ہے۔ 1990ءکی دہائی کے شاید ہی کوئی بچے ہوں گے، جنھیں اس کی ’لَت‘ نہ رہی ہوگی، بلکہ پوری بقرعید کی خوشی ایک طرف ہوتی تھی اور کھالیں جمع کرنے کا جوش اپنی جگہ ہوتا تھا۔ ہمارا بچپن بھی اس خوب صورت یاد سے آراستہ ہے، ہم بھی اپنے گھر کی ہی نہیں، بلکہ اپنی پھوپھیوں اور ماموﺅں وغیرہ کے گھر سے کھالیں جمع کرتے تھے، ویسے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بچہ ایسا ہوتا تھا کہ جو کھالیں جمع کرتا تھا، ایسے میں یہ بھی غنیمت تھا کہ آپ کو دوسرے رشتے داروں کے ہاں سے کھالیں مل جاتی تھیں، اس اعتبار سے آپ ہمیں خوش نصیب کہہ سکتے ہیں۔
ان کھالیں جمع کرنے کا معاملہ یہ تھا کہ مختلف فلاحی ادارے اور مدارس وغیرہ یہ کھالیں جمع کرتے اور جو بچے یہ کھالیں جمع کراتے، انھیں وہ اگلی بقرعید آنے سے پہلے حوصلہ افزائی کے لیے مختلف انعامات سے نوازتے تھے اور گو ناگو ان اداروں کی جانب سے بچوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اچھے سے اچھے انعامات کی مسابقت بھی جاری رہتی تھی۔ یہ بڑے ادارے الخدمت، جمعیت پنجابی سوداگرانِ دہلی، ختم نبوت، سفید مسجد (سولجر بازار) سے لے کر ’حرکت ال مجاہدین‘ تک ہوتی تھیں۔ ہم نے صرف اُن اداروں کا ذکر کیا ہے، جو بچوں کو انعامات بھی دیتے تھے ورنہ ’ایم کیو ایم‘ کی فلاحی تنظیم ’کے کے ایف‘ (خدمت خلق فاﺅنڈیشن) سے لے کر بنوری ٹاﺅن کے مدرسے تک بُہتیرے ایسے ادارے بھی موجود تھے، جن کے ہاں انعامات دینے کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہ تھا، لہٰذا انھیں کبھی بچوں کی توجہ اور رغبت حاصل نہ ہو سکی تھی۔
بقرعید کی آمد کے ساتھ جہاں جانوروں کی آمد شروع ہوتی، وہیں پچھلے سال کھالیں جمع کرنے والے بچوں کے کان بھی مسجد کے میناروں کی جانب لگ جاتے کہ کب مسجد سے اعلان ہوتا ہے کہ ”جن بچوں نے فلاں فلاں ادارے کے لیے کھالیں جمع کی تھیں، وہ بچے فلاں وقت میں فلاں جگہ آکر اپنے ’دعوت نامے‘ حاصل کر لیں“ اچھا، پہلے باقاعدہ پچھلے سال کی رسید بک لے کر ’دعوت نامے‘ دیے جاتے، جس پر بچے کا نام اور کھالوں کی تعداد لکھی ہوئی ہوتی تھی۔ اس کے بعد باقاعدہ انعامات کی تقسیم کا پروگرام ہوتا، اس موقعے پر سب سے زیادہ کھالیں جمع کرنے والوں کے لیے خاص انعام ہوتا، جیسے بائی سائیکل وغیرہ۔ اور یہ تعداد 80، 90 کھالوں تک بھی ہوتی تھی۔ بکرے کی کھال ایک تصور کی جاتی تھی اور گائے کی کھال سات۔ نہیں معلوم اتنی زیادہ کھالیں کیسے جمع ہو جاتی ہوں گی، ہم تو پانچ، چھے سے سات، آٹھ تک ہی پہنچ سکے۔ ایک آدھ بار شاید یہ تعداد نو تلک گئی، وہ بھی پاس پڑوس یا ابو کے کسی دوست کے تعلق سے کہہ کر کھال مل گئی تب۔ ایک مرتبہ عید کے چوتھے دن ابو کے ایک دوست کے ہاں بچے کا عقیقہ ہوا، تو انھوں نے بھی اس کی کھالیں ہمارے گھر پہنچا دی تھیں، کیوں کہ چوتھے دن ہمارے ہاں تو کھالیں جمع ہو رہی ہوتی تھیں۔ ہمیں ان کھالوں کے انعام میں ہر بار ایک عدد کرکٹ بیٹ ضرور مل جاتا، کبھی ریکٹ بھی ملے، اس کے ساتھ رائٹنگ پیڈ، پین، پینسل، پلاسٹک کی برنیاں، پلاسٹک کے جگ، ٹالکم پاﺅڈر، ٹینس بال وغیرہ جیسی عام ضرورت کی چیزیں انعام میں ملتیں۔
اس وقت بھی کچھ حلقے تھے، جو ہم بچوں میں یہ ’فتنہ‘ پیدا کرنے کی کوشش کرتے کہ کھالوں کا انعام لینا جائز نہیں ہے، یہ تو قربانی کا جانور ہوتا ہے، جس کی کھال کے عوض میں کچھ بھی لینا غلط ہے۔ جب کہ کھالوں کا انعام دینے والے اکثر یہ واضح کرتے رہتے کہ وہ قطعی طور پر قربانی کھالوں کی رقم سے یہ انعام نہیں دیتے، بلکہ اپنی جیب سے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ سب اہتمام کرتے ہیں۔ ’حرکت ال مجاہدین‘ اس وقت کالعدم نہیں تھی، البتہ اس کا انعام کافی مختصر ہوتا، لیکن بچوں کو سمجھایا جاتا کہ اس کے پیسوں سے فلاں، فلاں جدوجہد کی جاتی ہے، اس لیے اس کا ثواب بہت ملے گا۔
کھالوں کے انعامات کے سلسلے اور سارا سال تجسس اور انتظار کے اس سلسلے کو سب سے بڑی زک اس وقت پہنچی جب ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ قائم ہوئی، جس نے آتے ہی یہ دھماکا خیز اعلان کر دیا کہ کھالوں کا انعام ہاتھ کے ہاتھ ہی دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا بھونچال تھا کہ اس سے کھالیں جمع کرنے کی ساری سرگرمی کی گویا عمارت ہی اتنی لرز کر رہ گئی کہ چند سالوں ہی میں زمیں بوس ہوگئی۔ اب ’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک!‘ کی مصداق ایک سال پہاڑ جیسا انتظار کرے۔ تب تو وقت بھی بہت دیر سے گزرتا تھا، آج کی طرح تو نہیں تھا کہ پلک جھپکتے ہی میں ہفتے، مہینے اور سال بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ ’عالمگیر‘ والوں نے یہ اعلان تو کر دیا، اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کھالیں تو عید کے دنوں میں ایک، ایک اور دو، دو کرکے آرہی ہیں، اب یہ تو جمع ہی نہیں ہو پارہیں، دوسری طرف ہر بار اس کا ایک ہی جیسا ’ایک کھال کا انعام‘ مل رہا ہے، یقیناً یہ امر بہت عجیب رہا۔ بعد میں نہیں معلوم اس کا کوئی حل نکالا گیا ہوگا۔ پھر ’عالمگیر ویلفیئر‘ کے دیکھا دیکھی ’جمعیت پنجابی سوداگران دہلی‘ اور پھر ’الخدمت‘ نے بھی ہاتھ کے ہاتھ انعام دینا شروع کر دیا تھا، پھر اب موجودہ صورت حال کیا ہے، اس حوالے سے کوئی خاص سُن گن ہمارے کان میں نہیں پڑی۔ معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ اب کھالیں جمع کرنے والے بچے ہی بڑے ہوگئے اور انعامات نہ دینے والے اداروں کا غلبہ ہوتا چلا گیا اور بھانت بھانت کے مدارس، فلاحی ادارے اور تنظیمیں اس میدان میں اتر آئیں۔ دوسری طرف چند برسوں سے حیرت انگیز طور پر کھالوں کی قیمت غیر معمولی طور پر گھٹتے رہنے کے معاملے نے بھی اس سلسلے کو کافی زیادہ متاثر کیا ہے۔
آخر میں ذکر کھالیں چھیننے کا
ہمارے کھالیں جمع کرنے کے زمانے میں ’ایم کیو ایم‘ بہت عروج پر تھی، لیکن ہمیں اس وقت کے کھالیں چھینے جانے کے مبالغہ آمیز الزامات پر کافی حیرت ہوتی ہے، ہم تو ’ایم کیو ایم‘ کے یونٹ کے پاس والی گلی سے بھی آٹھ، نو سال کی عمر میں بکرے کی کھال ایسے ہی گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے، کبھی یہ خوف ہی نہ ہوا کہ کوئی ہم سے کھال چھین لے گا، لیکن بعد میں یہ ضرور ہوا تھا کہ ’یونٹ کے لڑکے‘ آکر لوگوں سے کھال کے لیے ضد بحث ضرور کرنے لگے تھے، لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کھالیں چھینی گئی ہوں۔ لیکن اس کا وخوف ضرور پیدا ہوگیا، اس لیے ہم احتیاط کرنے لگے۔ البتہ ایک سال جو شاید 2008ءہی تھا غالباً، تب ’یونٹ‘ کے کچھ ’نئے نئے لڑکوں‘ کی جانب سے کھالوں کے لیے کافی دھینگا مشتی دیکھی گئی، وہ اس طرح کہ بائیکوں پر یہ لڑکے گھوم رہے ہیں اور کسی جانور کی کھال اتر رہی ہے اور انھوں نے کسی سے پوچھے پاچھے بغیر کھال اٹھائی اور گولی ہوگئے۔ یہ بس ایک آدھ سال کا سلسلہ رہا، بس اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ ہم نے کوئی بدمعاشی نہیں دیکھی۔ باتیں بہت سنی ہیں کہ کھال نہ ملنے پر جانور کو گولی ماردی، کسی کو قتل کر دیا، کسی کے ساتھ مارپیٹ کرلی وغیرہ۔ ہمارے محلے سے ہمیشہ بنوری ٹاﺅن سے لے کر ختم نبوت تک نے کھلم کھلا کھالیں جمع کی ہیں۔ ہم نے خود شام کو ان کے کھالوں کے ٹرک کے ٹرک بھر بھر کے جاتے ہوئے دیکھے ہیں، اور یہ گزرتے بھی ’ایم کیو ایم‘ کے کیمپ کے آگے سے تھے، کبھی ان پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی۔
ہم نے چند برس پہلے ’فیس بک‘ پر یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ ’سنی سنائی نہیں‘ بلکہ کسی نے اگر اپنی آنکھوں سے خود کھالیں چھیننے کا کوئی واقعہ دیکھا ہو یا بھُگتا ہو تو ضرور بتائے۔ شاذونادر ہی کوئی سامنے آسکا تھا۔ اور یہاں ہم صرف ریکارڈ درست کر رہے ہیں، ہم نہ کسی کی صفائی دے رہے ہیں اور نہ ہی کسی کا جواب۔ بس ہم نے ضروری سمجھا کہ جب کراچی میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا ذکر ہے، تو جملہ معترضہ ہی سہی، اس کا ذکر بھی کر دیا جائے۔
٭٭٭
Categories
قربانی کی کھالیں جمع کرنے سے چھیننے تک
