Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi KU Society اردوادب تہذیب وثقافت جامعہ کراچی ذرایع اِبلاغ

پریمیئر کالج نارتھ ناظم آباد کی یادیں

(تحریر: ڈاکٹر تہمینہ عباس)
آج گورنمنٹ پریمیئر کالج کی ایک ویڈیو دیکھی تو اپنے کالج کا زمانہ یاد آگیا ۔میٹرک میں ہماری پرسینٹیج ہماری تمام دوستوں سے زیادہ تھی تو ہم نے اور ہماری ایک سہیلی نے فیصلہ کیا کہ ہم کامرس پڑھیں گے اور گورنمنٹ پریمیئر کالج میں داخلہ لیں گے۔ اس وقت گورنمنٹ پریمیئر کالج نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں تھا۔ جس میں پہلی منزل پر لڑکیوں کی اور نچلی منزل پر لڑکوں کی کلا سیں ہوا کرتی تھیں۔ہم نے گورنمنٹ پریمیئر کالج میں فارم جمع کروایا تو ہمارا داخلہ توآرام سے ہوگیا مگر ہماری سہیلی کا داخلہ بوجوہ پرسنٹیج نہ ہوسکا۔ اس زمانے میں کالج طلبہ سے آباد ہوا کرتے تھے ہم بھی پابندی سے جایا کرتے تھے ۔ ہمارےداخلے کے بعد ہمارےخاندان کے چند لوگوں نے آسمان سر پر اٹھالیا کہ ہم نے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لے لیاہے جس سے خاندان کی ناک کٹ کر رہ جائے گی۔ خاندان کے دباؤ کی وجہ سے والد صاحب نے ہم سے کہا کہ تم اب کالج نہیں جاؤ گی ۔بھلا ہو ہماری دادی کا کہ جن کے کہنے پر والد صاحب نے ہمیں کالج جانے کی اجازت دے دی۔فرسٹ ایئر کی تعلیم خاندان والوں سے ڈرتے ڈرتے پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس زمانے میں کالج کے پرنسپل نقوی صاحب تھے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مرکزی دروازہ ایک ہی تھا۔طلبہ تنظیموں میں تصادم عام بات تھی۔ اکثر گولیاں چل جاتیں۔جس سے لڑکے زخمی ہوجاتے کبھی کبھی موت کا شکار بھی ہوجاتے اور کالج چند دن کے لیے بند ہوجاتا۔ لائبریری لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک ہی تھی مگر راستے جدا تھے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ بیٹھنے کا انتظام تھا ۔لائبریری سے ہم تو اکاؤنٹنگ، پی او سی، اکنامکس، اور اسلامیات کی کتابیں ایشو کرواتے مگر ہماری دوستیں ’’اخبار جہاں‘‘ اور’’ میگ ‘‘ ایشو کرواتیں اورانتہائی اطمینان سے اخبارجہاں اور میگ کا فیشن کا صفحہ نکال لیتیں۔ بعد میں ایشو کروانے والے ان لڑکیوں کو دل ہی دل میں گالیاں دیتے۔ یہ بھی ہوا کہ کبھی کتاب ایشو کروائی توا س میں سے سب سے اہم موضوع کے صفحات انتہائی مہارت سے بلیڈ سے کاٹ کر نکالے جا چکے ہوتے۔ جب ہمارے پاس ایسی کوئی کتاب آتی تو ہم بیٹھ کر صفحات نکالنے والوں کو کوستے۔ اس زمانے میں کامرس پڑھنا ایک فیشن بن چکاتھا ۔ جو لوگ سائنس نہیں پڑھنا چاہتے تو وہ کامرس میں آجاتے ۔ ہماری کالج کی دوستوں میں کئی صرف وقت گزاری اور اچھے رشتوں کے لیے کامرس پڑھ رہی تھیں۔ وہ اس زمانے کے مہنگے ترین کوچنگ سینٹرز میں شام کی کلاسیں لیا کرتیں یا کچھ لڑکیوں کو ٹیوٹر گھر پڑھانے بھی آیا کرتے تھے۔ ہمیں انٹر میں کوچنگ جانے کی اجازت نہیں ملی۔
فرسٹ ایئر میں ہماری اکاونٹنگ کی استاد مس عفت تھیں جو اپنے مضمون میں بہت مہارت رکھتی تھیں ۔ان کے نت نئے ملبوسات ، ہیئر اسٹائل اور ان کا انداز ہم سب کو بہت اچھا لگتا۔ پرنسپل آف کامرس کی مس فیروزہ تھیں ۔جن کا میک اپ اورلباس ہمیشہ بہترین ہوتا۔ وہ جدید ماڈل کی کار خود ڈرائیو کرکے آتیں۔مس فیروز پڑھانے کی قائل نہ تھیں ہمیشہ یہ کہتی نظر آتیں کہ ’’کس حکیم نے مشورہ دیا ہے کہ پڑھو؟۔ اگر پڑھ لکھ گئیں تو ہماری طرح پوری زندگی اسی خواری میں گزار دو گی۔‘‘اکنامکس کی مس شوکت آرا کو کون بھول سکتا ہے۔ وہ ڈسپلن ڈیوٹی کرتیں اور تمام خوبصورت لڑکیوں کو واش روم میں لے جاکر رگڑ رگڑ کر منہ دھلواتیں اگر کوئی لڑکی کہتیں کہ مس رات کسی فنکشن میں گئی تھی لپ اسٹک بہت پکی تھی دھونے کے باوجود نہیں اتر سکی تو وہ اپنی ہرممکنہ کوشش کرتیں کہ اس لڑکی کا میک اپ اتار کر چھوڑیں۔ اردو کی مس شہلا خورشید پڑھانے کے ساتھ ساتھ لیکچر لکھوایا بھی کرتیں جو فرسٹ ایئر میں بہت کام آیا۔سیکینڈ ایئر کے اساتذہ میں مس شگفتہ نے اکاؤنٹنگ پڑھائی۔ اسمارٹ اور خوب صورت خاتون تھیں۔ سر پر دوپٹہ بڑے سلیقے سے لیتیں۔ بورڈ پر سوال حل کرتے ہوئے اگر لڑکیوں کی باتیں کرنے کی آواز آتی تو پلٹ کر چاک کھینچ مارتیں۔ اکثر نشانہ ٹھیک بیٹھتا۔ شکر ہے کہ کبھی ڈسٹر نہیں مارا ورنہ ایک آدھ لڑکی کا سر پھٹ جاتا۔ سیکینڈ ایئر میں اردو کی مس محمودہ حسن ملیں جنھوں نے اردو تو کم پڑھائی مگر لیکچر میں دنیا جہان کے قصے خوب سنائے۔ہم ترستے ہی رہ گئے کہ شاید کچھ پڑھا دیں مگر وہ چھالیہ چباتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کرکے اپنا لیکچر مکمل کرتیں اور نکل جاتیں۔سیکینڈ ایئر کی اکنامکس کی استاد کا نام ذہن سے نکل گیا ہے وہ بعد میں بی کام کے زمانے میں گرلز کالج کی پرنسپل بھی رہیں۔
فرسٹ ایئر تو ہم نے لڑکوں کی بلڈنگ میں ہی پڑھی ۔ سیکینڈ ایئر میں پریمیئر گرلز کالج کی بلڈنگ علیحدہ تعمیر ہوگئی ۔ اس کا دروازہ لڑکوں کے کالج سے دو میل دور رکھا گیا تاکہ لڑکے گرلز کالج کے گیٹ پر نہ پائے جائیں۔ لڑکیوں کے لیے کالج آنے کا وقت اس وقت ساڑھے آٹھ بجے تک تھا پھر کالج گیٹ بند ہوجاتا تھا ۔ چھٹی ایک بجے ہوا کرتی تھی۔ ہم دو بسیں بدل کر آتے جاتے اس زمانے میں ہمیں اسکول کے بعد بسوں میں بہت سے تجربات ہوئے وہ پھر کسی وقت سنائیں گے۔ ابھی تو بات پریمیئر کالج کی ہورہی ہے۔ فرسٹ ایئر اور سیکینڈایئرمیں انگریزی ہمیں ایک مرد استاد نے پڑھائی جو علی گڑھ پاجامہ،کرتا اور ویسٹ کوٹ پہنتے تھے۔ انگریزی کی ٹیکسٹ بک پڑھاتے پڑھاتے گفتگو غالب اور اقبال کی جانب موڑ دیتے ۔ انگریزی کےساتھ ساتھ ان کا اردو کا مطالعہ بھی وسیع تھا ۔ ان کا نام تو اب ذہن میں نہیں البتہ حلیہ اور شکل آج تک یاد ہے۔اکثر لڑکیا ں وین سے آتی جاتی تھیں۔ تین سال ہم نے پریمیئر گرلز کالج کی بلڈنگ میں پڑھا۔ مگر فرسٹ ایئر کی بہت سی چیزیں آج بھی یاد ہیں۔ پہلی منزل پر بالکونی سے ہم سہیلیاں بیر توڑ کر کھاتے تھے۔ اس زمانے میں پریمیئر کالج کے کینٹین میں بیسن کی کوٹنگ اور بوائل آلو کی فلنگ کے ساتھ ایک پکوڑا اسٹائل سینڈوچ ملتا تھا جو ہم سب کا پسندیدہ تھا۔ہمارے کالج والے ہر سال پکنک پر لے جاتے۔ ہم تمام سہیلیاں انتہائی شوق سے پکنک پر جایا کرتیں ۔ چار سال ہم سب یونیفارم میں کراچی کے مشہور سمندر سینڈز پٹ گئے ۔ پریمیئر کالج کا لڑکیوں کا یونیفارم ،سرمئی قمیض اور وائٹ شلوار اور وائٹ دوپٹے پر مشتمل تھا ۔جب کہ لڑکے وائٹ شرٹ اور سرمئی پتلون پہنا کرتے تھے۔ فرسٹ ایئر اور سیکینڈ ایئر میں ہمارا سینٹر سر سید گرلز کالج میں پڑا۔ بی کام تھرڈ ائیر اور فائنل میں سینٹر جناح یونیورسٹی فار ویمن میں پڑا۔اس زمانے میں کوچنگ سینٹر کا عروج ہونے کے باوجود کالج کے اساتذہ بہترین طریقے سے پڑھاتے تھے۔طلبہ اور اساتذہ پابندی سے کلاسیں لیا کرتے۔آج کی طرح نہیں کہ طلبہ کالج جانا تک گوارا نہیں کرتے۔ اگر پانچ سو طلبہ کا داخلہ ایک کلاس میں ہوتا ہے تو بمشکل ستر اسی کالج آتے ہیں۔ پانچ سیکشن کی جگہ بہ مشکل ایک ہی سیکشن میں سب کو بٹھا کر لیکچر دے دیا جاتا ہے۔ اب تو کراچی شہر کے کچھ گرلز کالجوں میں اور نجی کالجوں میں ہی طلبہ نظر آتے ہیں۔ گورنمنٹ کالجوں کے زیادہ تر اساتذہ اسٹاف روم میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ایک دو کلاسیں لے کر چھٹی ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے کالج کے دور میں اساتذہ اور طلبہ کالج پابندی سے آتے۔ پڑھنے والے طلبہ الگ ہی نظرآیا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی کا وہ دور بھی کیا یاد گار دور تھا کہ جب گورنمنٹ کالجوں کی کلاس کے درو دیوار طلبہ و طالبات کے قہقہوں سے گونجا کرتے تھے۔ اس دور کے اساتذہ اپنے طلبہ کوپنڈال میں جانے اور لوگوں کا سامنا کرنے کی تربیت دیاکرتے تھے۔ کیا عمدہ تقریر ی مقابلے اور مباحث ہوا کرتے تھے ۔ عام طور پر کسی ایک کالج کی انگریزی اور اردو کی ٹیم ہی فاتح قرار پاتی۔اساتذہ کی تربیت سے نکھر کر جب وہ طلبہ یونیورسٹی پہنچتے تو ان کا اپنا ہی رنگ ہوتا۔ ہفتہ طلبہ ہر کالج میں بڑے ذوق و شوق سے منایا جاتا۔ شہر کی مقتدرہ شخصیات بحیثیت مہمان خصوصی بلائی جاتیں۔ ہفتہ طلبہ میں، ایک دن ڈرامے، ایک دن تقریری مقابلے، ایک دن غزل گائیکی یا ملی نغمےکے لیے مختص ہوتا۔بی کام فائنل ایئر کی گورنمنٹ پریمیئر گرلز کالج کی وہ پارٹی ہمیں آج تک یاد ہے کہ جس میں باقاعدہ میوزیشن بلوائے گئے تھے۔ ہم تمام لڑکیاں اس سے بے انتہا لطف اندوز ہوئی تھیں۔ بی کام میں ہم پندرہ لڑکیوں کا گروپ تھا ۔ جن میں سے بمشکل ہم تین لڑکیا ں ہی بی کام مکمل کرسکیں۔ اکثریت کے پیپر رک گئے کچھ کی شادیاں ہوگئیں کچھ نے پڑھائی ترک کردی ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جو آج بھی ذہن کے کسی گوشے میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے ۔آج اگر گورنمنٹ کالجوں کی جانب نظر کی جائے تو عالیشان عمارتیں بھوت بنگلے یا کھنڈروں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ لڑکیوں کے کالجوں میں عبداللہ کالج، سر سید گرلز کالج، ویمن کالج ناظم آباد، ویمن کالج فریئر روڈ، شہید ملت گرلز کالج ، خاتون پاکستان گرلز کالج، رعنا لیاقت گرلز کالج ، پی سی ایچ ایس گرلز کالج ،میں پھر بھی کچھ رونق نظر آتی ہے جب کہ بیشتر کالج بنجر، ویران، بیاباں اور کھنڈرات کا نقشہ پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جن کے کلاسوں کے کمرے سالوں سے نہیں کھلے۔ جہاں عمدہ فرنیچر گرد میں اٹا ہوا طلبہ کا منتظر ہے۔لڑکو ں کے کالجوں کو دیکھا جائے تو کچھ کالجوں کو دیکھ کر شدید مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر اسلامیہ کالج کی پرانی بلڈنگ ،اپنی ناقدری کا نوحہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔حامد بدایونی کالج بنارس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں کبھی کسی نے پڑھا ہی نہیں ہے۔ آدم جی کالج، ڈی جے سائنس کالج ، ایس ایم کالج، دہلی کالج ، سپیریئر سائنس کالج، علامہ اقبال کالج میں پھر بھی طلبہ اور اساتذہ کی رونق نظر آتی ہے۔ مگر اکثر بوائز کالج جامیہ ملیہ کالج کی طرح کھنڈر کا نقشہ پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کاش پھر کالجوں کی وہی رونقیں بحال ہوسکیں یہ تمام کالج حکومت اور ارباب اقتدار کی توجہ کے منتظر ہیں۔

(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights