(تحریر : مبشر سلیم)
کچھ لکھاری آفاقی ہوتے ہیں لیکن ان کو وہ مقام نہیں ملا ہوتا جس کے وہ حق دار ہوا کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریریں ان کے مقام کی گواہ ہوا کرتی ہیں۔ شین مظفرپوری قلم سے قاری کے جذبات کے ساتھ جس طرح کھیلتے ہیں وہ کمال بہت کم لوگوں کے پاس ہے۔ رقص بسمل پڑھ کر میرے جیسا سخت دل انسان بھی کئی دن تک اس کتاب کے واقعات کے اثرات سے باہر نکل نہ پایا۔ تقسیم کے بعد پناہ گزین کیمپ اور وہاں سے پاکستان آنے اور اگلے اٹھارہ ماہ یہاں جو قیام کیا یہ کتاب ان دنوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس دوران جو کچھ دیکھا جو کچھ محسوس کیا وہ سب پڑھ کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے!
شین مظفرپوری، اصل نام ولی الرحمان، ایک ممتاز افسانہ نگار تھے، جو 1920 میں شمالی بہار کے اس وقت کے ضلع مظفر پور میں پیدا ہوائے تھاے۔ انہوں نے کئی ادبی اصناف کے ساتھ تجربہ کیا۔ انہوں نے مختصر کہانیوں کے تقریباً 10 مجموعے شائع کیے۔ آوارہ گرد کے خطوط، بند کمرے میں، دوسری بدنامی، کڑوے گھونٹ، حلالہ کھوٹا سکہ کبھی کسی سے نہ کہنا خون کی مہندی سمیت بے شمار کتابیں لکھیں۔ جب انہوں نے تخلیقی تحریر کے سفر کا آغاز کیا تو یہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک تھی، جس نے انہیں متاثر کیا۔ تاہم وہ اس کے ساتھ کبھی رسمی طور پر منسلک نہیں ہوئے. ان کی کہانیاں سماجی ناہمواریوں، طبقاتی کشمکش، سرمایہ داری کی تباہ کاریوں اور جاگیردارانہ استحصال اور پس ماندہ لوگوں کی پس ماندگی سے متعلق ہیں۔ انہوں نے جرائم، بدعنوان اور ناکارہ پولیسنگ اور ناقص استحصالی عدالتی نظام کے مسائل پر بھی توجہ دی۔
اقتباسات
1947 عیسوی میری عمر کا ستائیسواں سال تھا ستائیسواں سال امنگوں اور ولولوں کی عمر جوش اور جذبات کی عمر۔ یہ ستائیسواں سال میری دنیا میری زندگی کے درختوں کے درمیان گویا شفاف شیشے کی دیوار بن گیا۔ اگست 1947 تا دسمبر 1948۔ سترہ مہینوں کا مختصر سا عبوری دور، اور اُس دور کی یہ سرسری یاداشت گویا شیشے کے اس پار اور اُس پار کے درمیان ربط کی محض ایک کڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگست (1947) کو ملک آزاد ہو چکا تھا۔ لال قلعہ پر ترنگا ہر اچکا تھا۔ دلی نئے سہاگ کے جوڑے میں جگمگا چکی تھی ۔ مگر ستمبر 1947 آتے آتے دلی کے آسمان پر چمکنے والا چاند گہنا چکا تھا۔ اطراف وجوانب اور دور دراز سے فرقہ وارانہ وحشت وبربریت کی رونگٹے کھڑے کرنے والی وارداتوں کی خبریں آرہی تھیں ۔ دو قومی نظریہ سے جنم لینے والا قہر اپنے شباب پر تھا۔ خوف و دہشت کے مارے گھاٹے کے سودا کی چوٹ کھائے ہوئے (پاکستان سے چھٹ کر ہندوستان میں چھوٹ جانے والے بےیارو مددگارمسلمانوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔۔
ریلے دلی اور مغربی اترپردیش میں پہنچنے لگے تھے۔ شیطانی تلوار کی دو دھاری کاٹ اپنا کام کر چکی تھی۔ ضرب کاری تھی۔ زخم گہرا تھا۔ جوشیطان پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو بھگا رہا تھا۔ یہی شیطان بہت دنوں سے مسلمانوں کو بھی بہکا رہا تھا۔ آہ شیطانی سیاست کے مارے ہوئے یہ بے چارے! دیکھتے ہی دیکھتے دلی بھی وحشت و دہشت کی کی زد میں آچکی تھی ۔ آسمان کا رنگ دھوئیں کے بادلوں سے گدلا گدلا سا نظر آتا تھا۔ سبزی منڈی، صدر بازار، قرول باغ ، پہاڑ گنج اور بعض دیگر علاقوں میں آتش زہنی اور فائرنگ کی دہشت سے کُہرام مچا ہوا تھا ۔ پورے شہر کے مسلمانوں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔
اس دن سر شام ہی ایک اور واقعہ ہو گیا جس نے ہمارا رہا سہا حوصلہ بھی پست کر دیا۔ کرفیو کے دوران می بغل والے مکان کی چھت پر کھڑا ہوا ایک جوان یہاں سے پورب نئی سڑک کی سمت سے آنے والے بندوق کے چھروں کا نشانہ بن گیا۔ چھرے چونکہ بھیجے میں گھسے تھے اس لئے وہ وہیں پر ڈھیر ہو گیا۔ اب گویا مسلم آبادی کا یہ قلعہ بھی خون کے پیاسوں کے نرغے میں آچکا تھا۔
مذہب کے نام پر خود مذہب کو ذلیل کرنے والے لوگ ؟ سامنے والے حاطے کے خونی واقعہ کے بعد محلہ کے لوگوں کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی۔ صبح ہوتے ہی خان عیسی کو دیکھا تو ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ منھ سے ٹھیک ٹھیک آواز نہیں نکل پار ہی تھی۔ بولے “یار شین ہم تو اب یہاں سے کوچ کرتے ہیں؟ میں نے پو چھا کہ کہاں جاؤ گے تو کہنے لگے۔ “سنا ہے لوگ شہر سے بھاگ کہ پرانے قلعے میں جمع ہو رہے ہیں. ہم بھی وہیں جائیں گے۔
وہاں سے پاکستان؟
مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے تصور سے میرے یار کے چہرے پر ایک رمق سی دوڑ گئی تھی ، اس پروگرام کو سن کہ غالباً میرا چہرہ اتر گیا ہوگا۔ تبھی انہوں نے پوچھا ” کیا تم نہیں چلو گے ؟” میں نے کہا میں تو اپنے گھر (بہار) واپس جانا چاہتا ہوں ۔وہ بولے کہ دلی سے باہر جانے کے راستے مسلمانوں پر بند ہیں مسلمان سفر کر ہی نہیں سکتا۔ ہر قدم پر جان کا خطرہ ہے۔ شاید پرانے قلعے پہنچ کر ہی کوئی راستہ نکل آئے۔ لیکن میرا دل نہیں مانا، میں تو دلی میں تنہا تھا۔ میرا پورا گھر خاندان موضع باتھ اصلی، ضلع مظفر پور صوبہ بہار میں تھا۔ بیوی اور دو بچے تھے۔۔
میں نے انسانیت کو عجیب کرب و اذیت میں مبتلا پایا۔ میں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ انسان اس درجہ بھی مجبور و بے کس ہو سکتا ہے۔ پرانا قلعہ میں کئی مربع میل کے اندر ہزاروں انسان چیونٹیوں کی طرح کلبلا ر ہے تھے۔ ان کے چہرے خوف وہراس اور خوراک کی کمی کے سبب رندے ہوئے تھے۔ بے خانمائی اور ہے سر و سامانی نے ان کے حوصلے پست کر دیئے تھے۔ ہر طرف بے کسی اور یتیمی چھائی ہوئی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف ہمدردی اور مظلومیت کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ جا بہ جا چھوٹے چھوٹے خیمے نصب کر دیے گئے تھے۔ ایک ایک خیمے میں کئی کئی در جن عورتتں، مرد اور بچے ٹھنسے پڑے تھے۔ کسی کسی خیمے کے آگے دو دو اینٹوں کو کھڑا کر کے چولھا بنا لیا گیا تھا۔ اور ان چولھوں سے ہلکا ہلکا دھواں بھی اٹھ رہا تھا۔ میں نے سوچا تھا۔ زیادہ سے زیادہ تو 10ہزار پناہ گزیں پہنچے ہوں گے، لیکن وہاں تو کم از کم پچاس ہزار آفت رسیدہ لوگ اکٹھے ہو چکے تھے۔ ان میں سے اکثر کے جسم پر کپڑے بھی سلامت نہ تھے۔ بچے والدین کی زندگی ہی میں یتیم نظر آرہے تھے۔ چہرہ ویران جسم منحنی ، لباس میلے ، بال گرد و غبار میں اٹے ہوئے۔ ان کا وجود قدرت اور قسمت کے نام گویا ایک مرثیہ تھا ۔ ایک طنر تھا۔ اُن کی دُکھتی آنکھوں میں فریادیں تڑپ رہی تھیں۔ اُن کی بیمار اور پرالتجا نگاہیں دنیا کے سب سے زیادہ شقی القلب انسان کے سینے کو بھی گرما سکتی تھیں۔ مگر نصیب کے ماروں کو واسطہ کسی انسان سے کہاں ۔کسی درندے سے پا تھا۔ ان کے پیٹرائے ہوئے ہونٹوں میں جو احتجاج اور فریاد کی ایک خاموش چیخ بھنچی ہوئی تھی وہ عرش و فرش کو ہلا سکتی تھی۔ اُن کے دلوں میں گھٹتی ہوئی کراہیں اور روح میں چھبتے ہوئے نشتر کی اذیتیں ان کے احساسات میں تشنج پیدا کر رہی تھیں
اس ہجوم میں وہ نازنیں اور نازک دوشیزائیں بھی تھیں جو ناہموار زمین پر چلنے سے بل کھا جاتی تھیں لیکن آج شلوار کے پائنچے اوپر اٹھائے اور سروں پر پانی سے بھری ہوئی بالٹی لئے کپکپاتی ہوئی گردن اور اکڑے ہوئے جسم کے ساتھ آتی جاتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ میں نے ایسی ناز پروردہ اور عیش و راحت کے پنگوڑے میں جھولنے والی عورتوں کو بھی وہاں پانی کے گھونٹ کے ساتھ ڈبل روٹی کے سوکھے نوالے نگلتے دیکھا۔جو لذیذ ترین اکل و شرب کو بھی گویا زہر مار ہی کیا کرتی تھیں۔
عصمت و عفت پر جان نچھاور کرنے والی وہ خواتین جن کی آواز بھی کسی نامحرم نے نہ سنی ہے آج ہزاروں کے ہجوم میں اپنی شرم و حیا کے جنازے پر خون کے آنسو رو رہی تھیں۔ انتہا یہ کہ ہزاروں نا محرموں کے سامنے وہ بےپردہ ہی فطری حوائج تک پوری کرنے پر مجبور تھیں۔ اپنی قومی حرمت و آبرو کو رسوائی ، بے بسی اور بے چارگی کی اس منزل میں دیکھ کر دل روتا تھا ، کلیجا پھٹتا تھا اور رہ رہ کر انکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ کربلا کے تصور نے بھی مجھے اس قدر متاثر نہیں کیا تھا۔ اس زندہ کربلا کو دیکھ کر روایتی کربلا کو بھول گیا۔ میرے اندر آنسوؤں کا ایک سیلاب ہر دم اُمنڈتا رہتا اور کسی کسی دم سیلاب کا ریلا آنکھوں کے ساحل سے ٹکرا کر آنسوؤں کے چند قطرے میرے چہرے پر رول دیتا۔
تقریباً ایک لاکھ کیڑے مکوڑے ایک جگہ جمع ہو گئے۔ اب تو پرانا قلعہ کی فصیل بند حدود میں راستہ چلنے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ خیمے اتنے ناکافی تھے کہ پناہ گزینوں کی نصف تعداد کی بھی سمائی ان میں نہ ہو سکی۔لوگ ٹاٹ کے پردے اور چادریں تان تان کر گزارہ کرنے لگے ۔ گندگی اور غلاظت اس قدر بڑھ گئی کہ ناک پر کپڑا رکھ کر بھی چلنا دو بھر ہو گیا ۔ ایک ایک سانس تعض اور کراہیت سے آلودہ ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ایسے ایسے گوشوں میں بھی رہنا گوارہ کر لیا تھا کہ جہاں چند دن بیشتر وہ اپنے مویشی بھی باندھنا گوارا نہ کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے نہ خوراک اور پانی کا انتظام تھ۔نہ صفائی کا۔ حکومت کو اتنی فرصت بھی کہاں تھی۔ وہ تو شہر کے اندر کسی اور ہی مہم کو سرکرنے میں مصروف تھی۔
خوراک کی تقسیم کے انتظامات اُن کے ہاتھوں میں تھے جن کے کوٹ اور پتلون پر آج بھی کوئی شکن نظر نہ آتی تھی جن کے جوتے آئینے کی مانند چمک رہے تھے اور جن کے چہرے صحت مند خون کی فراوانی سے آج بھی دمک رہے تھے ۔ یہ لوگ نہایت بےقاعدگی اور افراتفری سے ادنی اور ارزاں اشیائے خوردنی فاقہ کشوں میں جیسے تیسے تقسیم کر دیتے اور خراب نہ ہونے والی اچھی چیزیں الگ چُھپا رکھتے۔ جس وقت یہ لوگ خوراک تقسیم کر رہے ہوتے ان کے گرد لوگوں کا اژدہام لگ جاتا ۔ چھینا جھپٹی کا ماحول ہو جاتا ۔ بھوک کے ستائے ہوئے لوگ۔ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھتے اور بھیڑ کو چیر کر گتوں کی طرح روٹی کے ٹکڑوں پر ٹوٹ پڑتے۔
ابھی پلیٹ فارم پر اُترے چند ہی منٹ گزرے تھے کہ اچانک ہی ایک آدمی زمین پر ڈھیر ہو گیا اور اس کی جان نکل گئی۔ اس کی موت خوشی کے مارے ہوئی تھی یا صدمہ سے یہ کوئی نہ جان سکا ۔ وہ بے چارے کوئی بھی رہا ہو۔ البتہ اس کی بیوی اور بیٹی اس کے پاس بیٹھ کر واویلا کرنے لگیں۔ اور ایک کم سن لڑکا ایڑیاں رگڑا رگڑ کر رونے لگا۔ کسے اتنی فرصت تھی کہ جاننے کی کوشش کرتا وہ کون تھا
اسی اثنا میں ایک عورت اپنے شیر خوار بچے کو چھوٹی سی لُٹیا (چھوٹا لوٹا) سے پانی پلا رہی تھی ۔ طفیل صاحب نے اوپر ہی سے ہاتھ لپکا کر لٹیا عورت سے جھپٹ کر اپنے منھ میں لگالی۔ مگر بد قسمتی سے اس میں بھی ایک دو گھونٹ سے زیادہ پانی نہ تھا۔ طفیل صاحب خشک زبان سے خشک تر ہونٹوں کو چاٹنے لگے۔ ایک ہم سفر ڈاکٹر کی بیوی ہمارے سامنے ہی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ پاس والی عورت کا شیر خوار بچہ دودھ اور پانی کے بغیر جاں بہ لب ہو رہا تھا تو اپنی اٹیچی سے گلوکوز کا ڈبہ نکال کر تھوڑا سا اس عورت کی ہتھیلی پر ڈال دیا۔ طفیل صاحب کا مورال ( MORALE) اتنا مردہ ہو چکا تھا کہ انہوں نے اوپر ہی سے جھٹ عورت کی کلائی وحشی کی طرح تھام کر اُوپر اٹھا لیا اور اس کی تھیلی پر لگا گلوکوزو کو چاٹ لیا
تین دن پہلے یہ بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ جو شاید اپنے نفاس آلود کپڑے تک بدل نہیں پائی تھی۔ ایک نیم بالغ سی لڑکی جس کا چہرہ میرے میری طرف تھا یقینا ان کی بیٹی تھی۔ اس کے منہ سے بدبو آرہی تھی لیکن میرے لئے چہرہ پھیر لینے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔۔دوسری طرف سے چھوٹی لڑکی کے پاؤں میری گردن اور کنیٹی کو چھو رہے تھے۔ تین دن کئے لوتھڑے کو نہ جانے اس سخت جان عورت نے کہاں اور کس طرح چُھپا رکھا تھا۔ یہی وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں عورت کا مرتبہ مرد سے بلند تر محسوس ہوتا ہے ۔ مرد ہوتا تو اس حالت میں اس بچے کو پرانا قلعہ کی فصیل کے اُس پار پھینک آتا۔
یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے اس دن پہلی بار مجھ پر انکشاف ہوا کہ شبلی احمدیہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور شاید ان کے والد قادیان میں اس فرقہ کے خطیبوں میں تھے شیلی کے ساتھ یہاں جو کنبہ تھا اس کو بھی کھانا یقینا اسی مشن کے لنگر خانے سے ملتا رہا ہو گا۔ اسی ضمن میں یہ پتہ بھی چلا کہ میرزا ادیب بھی قادیانی فرقہ کے تھے۔حالاں کہ بمبئی میں جب مرزا اسے (۱۹۴۲ء میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔تب ان کے قادیانی وغیرہ ہونے کا علم مجھے نہیں ہو سکا تھا)
مجھے مولانا ابو الکلام آزاد کی وہ مشہور تاریخی پرشکوہ اور جذبات انگز تقریر یاد آئی جو (مبینہ طور پر) پاکستان بھاگنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لئے انہیں زینوں پر کھڑے ہو کر کی گئی تھی۔ حالاں کہ ایک حالیہ مستند تحقیق نے ثابت کیا۔ہے کہ مولانا نے سرے سے ایسی کوئی تقریر کی ہی نہیں بلکہ یہ توکسی اور کی ایک تصنیفی تحریر تھی جو یوں مشہور ہوگئی۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)