Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi MQM PPP انکشاف پیپلز پارٹی دل چسپ سعد احمد سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

کراچی: غیر مقامی ثقافت کا تسلط عروج پر

(تحریر: سعد احمد)
گاڑیوں اور اسکوٹروں پر سندھی اجرک والی نمبر پلیٹ لازمی کرنے پر کراچی کے شہریوں کے شدید ردعمل کو سندھ کی حکومت نے خاطر میں نہ لانے کا اعلان کردیا ہے کیوں کہ یہ سلسلہ گذشتہ کچھ عرصے سے متواتر جاری ہے۔ لیکن کراچی والے شاید سندھی ثقافت مسلط کرنے کے عمل سے بے خبر رہے۔

یہ سلسلہ کراچی کے در ودیواروں پر اجرکوں کی چھپائ سے شروع ہوا، چپ چاپ سے ایف آئی آر میں اردو کے ساتھ سندھی زبان نافذ کردی گئی۔ کورونا آیا تو سندھی اجرک کے ماسک پھیلا دیے گئے، 2010 میں سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن پہلے ہی کراچی اور حیدر آبا دمیں پھیلایا جاچکا تھا۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے یہ شدومد سے یہ دن نائن زیرو پر بھی منایا تھا۔

اور اس سے بھی پہلے تو ہمیں اسکول کی کتابوں سے لے کر میڈیا تک چار قوموں کا منجن بیچا جاتا ہے، حتیٰ کہ 14 اگست پر بھی چار اور کبھی پانچ چھے قوموں کی ثقافت پیش کردی جاتی ہے۔

بچوں کے رسائل میں بھی پاکستانیت کے نام پر یہ چار قوموں کا پرچار کیا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ تعلیم وتربیت جیسے رسالے میں بھی اگست کے شمارے میں چار قوموں کو “پاک وطن کا رکھوالا” کہہ کر پیش کیا گیا، کیا جو ان چار قوموں کا نہیں ہے وہ پاکستان کا رکھوالا نہیں ہے؟ کسی نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا

ایسے ہی کبھی چار قوموں کے لوگ پاکستان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں، سوال یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی شناخت کچھ نہیں ہے؟

پاکستانیت کا مطلب ہی مختلف قوموں کا ذکر رہ گیا ہے، لیکن سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی “مہاجر قوم” کا نام تک نہیں ہوتا نہ ان کا کلچر بھولے سے دکھایا جاتا ہے۔

چار سے بڑھ کر چھے قوموں کا بھی ذکر ہوتا ہے لیکن نہیں ہوتا تو پانچویں بڑی قوم مہاجر کا نہیں ہوتا!

ہم سب کا پاکستان، ٹھیک ہے، مگر کراچی میں لگے اس پوسٹر میں مہاجر قوم کہاں ہے؟

1972 میں طے ہوا تھا کہ سندھ میں مہاجر اور سندھی دو قوموں کی بات ہوگی، کوٹا بھی بنایا اور اسے باقاعدہ ذولسانی صوبہ طے کیا کہ گورنر مہاجر ہوگا تو وزیراعلیٰ سندھی اور گورنر سندھی ہوگا تو وزیراعلیٰ مہاجر، لیکن کبھی مہاجر وزیراعلیٰ نہ آسکا، لیکن سندھ کی وڈیرہ حکومت سندھی ثقافت کے اشتہارات سے لے کر سندھی ثقافت کے لیے متحرک ہے، کبھی مہاجر ثقافت کی کوئی گنجائش نہیں دیتی۔ یہ اشتہار ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

سندھی اور اردو دو سرکاری زبانیں رکھنے والے صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی تک میں قومی زبان ہونے کے باوجود اردو کا جنازہ نکال دیا گیا

کراچی میں قائم سندھ آرکائیو میں بھی کراچی والوں کی زبان اردو موجود نہیں ہے

سندھ کے اداروں اور تشہیری مواد سے باقاعدہ اردو کو دیس نکالا دے دیا گیا ہے، کراچی تک میں سندھی زبان اور انگریزی زبان میں چیزیں لکھی جا رہی ہیں، کبھی کہیں کوئی خبر دیکھی آپ نے؟

یہ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کا کچھ دن قبل شائع ہونے والا اشتہار ہے جس میں انگریزی تو ہے اور دیہی سندھ کی زبان تو ہے لیکن اردو موجود نہیں ہے، کہیں کسی نے چوں تک کی؟

یہ منظر سول اسپتال لاڑکانہ یا جیکب آباد میں نہیں کراچی میں واقع ہے، لیکن کسی نہ کچھ نہیں کہا کہ سندھی میں یہاں شاہ لطیف کو چپکا کر کیا محبت فروغ پائے گی یا ردعمل جنم لے گا؟

کراچی میں واقع لیاقت لائبریری میں سندھی ثقافت کی سرگرمیاں اپنی جگہ، اس کے ساتھ بھی حکومت سندھ چپکا دیا گیا

یہ وہ پیپلزپارٹی ہے جس نے جناح کے نام کے اسپتال کے ساتھ بھی سندھ چپکا کر دم لیا، کہاں ہیں کراچی کے حقوق کے نام لیوا؟ اور ملک بھر سے مہاجروں کو لعن طعن کرنے والے؟ کیا جناح صرف مہاجروں کا قائد تھا؟

اب تو شہر قائد کا مشہور “کارڈیو” یعنی قومی ادارہ برائے امراض قلب بھی سندھی ادارہ امراض قلب بنا دیا گیا آپ نے کوئی صدائے احتجاج نہ سنا ہوگا

کراچی میں کراچی کی ثقافت قتل کرنے والی سندھی حکومت نے سندھ میں بھی انگریزی کے ساتھ انگریزی کو تو جگہ دی ہے، لیکن اردو کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ بورڈ مثال ہے۔

نمبر پلیٹ پر سندھی اجرک لازمی قرار دینے والی پیپلزپارٹی حکومت نے ہر جگہ سندھی اجرک چھاپنا وتیرہ بنا لیا ہے، یہ سرٹیفکیٹ اس کی مثال ہے۔ کہاں ہے مہاجر ثقافت اور کہاں ہے سندھ کو ذولسانی صوبہ قرار دینے کا وعدہ؟

اب سندھ کی صوبائی حکومت سرکاری ملازمتوں کے اشتہار بھی سندھی میں چھاپتی ہے، آپ نے کبھی کوئی خبر سنی، کوئی اعتراض دیکھا؟

ہاں یہ سوال نامہ ضرور خبروں میں آیا جب مہاجروں کی آمد کے مسائل پوچھے گئے تھے، بس

کراچی میں یوم مہاجر ثقافت پر بڑے اعتراض کیے جاتے ہیں، جب کہ سندھی ثقافت کے دن پر یہاں باقاعدہ بڑے پیمانے پر پروگرام ہوتے ہیں۔ 2023 اور 2024 میں یہ پروگرام ہوئے

بدقسمتی سے کراچی سے بڑے پیمانے پر ووٹ لینے والی جماعت اسلامی بھی کراچی میں ہی سندھی زبان لکھ رہی ہے

اسلامی جمعیت طلبہ کے گڑھ رہنے والے اسلامیہ کالج کی سابقہ عمارت پر بھی سندھی میں خیر مقدمی کلمات لکھے گئے، آپ کسی اور قوم کے ہوم گرائوںڈ میں اس کی ثقافت کو حذف نہیں کرسکتے لیکن مہاجرقوم کی ثقافت کچل سکتے ہیں۔ یہ کراچی ہے،

کینٹ اسٹیشن پر ہوٹل کا نام انگریزی کے ساتھ سندھی میں لکھا گیا ہے، نجی سطح پر بھی سندھی ثقافت اور سندھی زبان پھیلانے کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے

ایم اے جناح روڈ پر اس دکان کا نام بھی سندھی میں لکھا گیا ہے

انتہا یہ ہے کہ سندھی صنعت کار تک اپنی ثقافت کو فروغ دینے میں کسی سے پیچھے نہیں، جب کہ مہاجر صنعت کار اپنی ثقافت سے بے خبر ہے

کراچی میں مختلف کتب میلوں میں باقاعدہ سندھی کتب کو جگہ دی جا رہی ہے

یوم سندھی ثقافت پر کراچی میں زینب مارکیٹ کے پاس سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک کے اسٹال لگائے جاتے ہیں

انتہا یہ ہے ہل پارک کراچی کی بیکری آئیڈیل بیکری نے اپنے کیک کے ڈبوں پر بھی اجرک چھپوا دی ہے اور شاپنگ بیگ پر بھی!!

سندھی صنعت کار نے اپنے ٹشو بکس کے ڈبے کو بھی سندھی اجرک سے رنگ دیا ہے۔ کیا مہاجر اپنی ثقافت کے حوالے سے اتنے جڑے ہوئے ہیں؟ یا اپنے گھر میں غیر ثقافت مسلط ہونے کا ہاتھ باندھے تماشا دیکھ رہے ہیں؟؟

جب کراچی میں سندھی اپنا دعویٰ کرتا ہے، تو پشتون ثقافت بھی اپنی جگہ نکال لیتی ہے، مہاجر دبک کر کسی کونے میں پناہ لے لیتا ہے۔ یہ منظر آپ نے بھی گذشتہ سال دیکھا ہوگا، پخیر راغلے کراچی میں آویزاں کیا گیا

مہاجر ادیب بھی تو منافق ہے، محمود شام کے ماہ نامہ اطراف میں سندھی ادیب نور الہدیٰ شاہ نے کیا لکھا فاطمہ بجیا کے ڈراموں کا امپورٹڈ کلچر۔۔۔۔
آپ لکھ کر دکھا دیجیے سندھی چھوڑ کسی اور قوم کے کلچر کو امپورٹڈ کلچر۔ وہ چھپ جائے اور اس پر قیامت برپا نہ ہوجائے، لیکن یہ کراچی میں چھپا اور کسی نے ایک فیس بک پوسٹ تک نہ کی۔ کبھی جاننا ہو مہاجروں کا یہ حشر کیوں ہے۔ تو بس یہی وجہ ہے

پیپلزپارٹی کے وڈیرے مہاجر قوم کو تو کبھی تسلیم نہیں کرتے، لیکن ووٹ لینے کے لیے
احمقانہ نعرے ضرور دیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ “مہاجر بھٹو ہوں!”۔۔۔۔۔
میرا قلم تھک گیا ہے، لیکن ابھی کراچی میں سندھی ثقافت کے جلوے اور نمایاں ہونے ہیں، آپ بھی دیکھیے ہم بھی دیکھتے ہیں۔ اگر مہاجر شناخت فنا کرنی ہے۔ تو تماشا دیکھیے ورنہ جان لیجیے آپ کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو کے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں!

(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights