Categories
Interesting Facts Karachi Media MQM PPP ایم کیو ایم دل چسپ ذرایع اِبلاغ سعد احمد سمے وار بلاگ سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

آٹھ اگست 1986: “ہر شے جہاں حسِین تھی۔۔۔!”

(تحریر: سعد احمد)
آج 8 اگست ہے۔
1986 کے 8 اگست نے کراچی کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ یہ وہ پہلا دن تھا کہ جب باضابطہ طور پر کراچی کی سیاسی کروٹ کو تسلیم کرلیا گیا، ورنہ پہلے کراچی کے در دیوار ہی اس کی خبر دے رہے تھے۔
بدقسمتی سے ایم کیو ایم (اس وقت کی مہاجر قومی موومنٹ) کے اس پہلے وسیع پیمانے کے جلسے کی مکمل ویڈیو نہ مل سکی، لیکن اخبار کا یہ تراشہ دیکھا گیا جس میں ایک نئی اور نوجوان قیادت نے کس جوش سے متحرک ہو کر سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی۔ اخباری تراشے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور چیئرمین عظیم احمد طارق کو نمایان جگہ دی گئی ہے۔
شہ سرخی میں پانچویں قومیت کا مطالبہ اور وسائل کی برابر تقسیم کے ساتھ جو بات لکھی ہوئی ہے وہ “سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے!” کا موقف ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ شروعات کی ایم کیو ایم نے بھی کبھی مہاجروں کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ نہیں کیا، لیکن ان کے برابر حقوق، محصورین کی واپسی، کوٹا سسٹم کے خاتمے جیسے مطالبات ضرور رکھے۔ بعد میں مہاجر صوبے کی بات کی جاتی رہی، لیکن یہ ایک جذبات نقطہ ہوتا تھا، کبھی واشگاف الفاظ میں اس کی بات نہیں کی، الا یہ کہ یہ مطالبہ ان کے منشور میں شامل ہوتا، پھر پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا۔
اس جلسے کے ایک برس بعد کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں روایتی سیاسی جماعتوں کا صفایا ہوگیا،دو سال بود صوبائی اور قومی اسمبلی میں رسائی ہوگئی۔
اس کے فوری بعد بے نظیر سے معاہدہ بھی ہوگیا
یہ معاہدہ نہ چل سکا، اور اس کے ساتھ نواز شریف سے معاہدہ ہوگیا، لیکن نواز شریف سے معاہدے کے دوران یعنی کہ 1986 سے محض 4 برس بعد ہی الطاف حسین پنجاب پہنچ گئے اور “مہاجر” کو “متحدہ” کرنے کی بات شروع ہوگئی اور فوجی نظم وضبط رکھنے والی ایم کیو ایم دو دھڑوں میں بٹ گئی، یہ دراڑ تنظیمی تھی، لیکن اس سے شہر کراچی برباد ہوا۔ تین میں سے دو زونل انچارج آفاق احمد اور عامر خان باغی ہوگئے، بانی جوائنٹ سیکریٹری بدر اقبال ساتھ چھوڑ گئے۔ لیکن اس کے باوجود ووٹ تو الطاف حسین ہی کے پاس رہا۔
اور اس تقسیم کی بازگشت سے پہلے ہی الطاف حسین عازم لندن ہوگئے۔ اور یوں 1986 کی جوانی کے فقط 5 برس ہی میں ایم کیو ایم کے ابھار کو ایک لگام ڈال دی گئی۔ یعنی حقیقی کا قیام اور الطاف حسین کی جلاوطنی!
بانوے کا فوجی آپریشن کوئی مذاق نہ تھا۔ پھر بے نظیر کے نصیر اللہ بابر کا ظالمانہ دور۔۔۔۔ اسی اثنا میں بانی چیئرمین عظیم طارق کا پراسرار قتل یہ سب کاری وار تھے، بہ ظاہر ایم کیو ایم اپنی جگہ کھڑی رہی، لاشیں گرائی جاتی رہیں، لیکن یہ سب ایم کیو ایم کی جوانی اور جذبہ سہتا رہا، سہتا چلا گیا، لیکن پانی بھی ایک جگہ گرتا ہے تو گڑھا کردیتا ہے، ایم کیو ایم ایسی کون سی آسمان سے اتری تھی، سو گزرے وقت نے اس پر کمزوری کے کسی نہ کسی سطح پر جلوے نمایاں کرنے شروع کردیے۔
تیسرے ریاستی آپریشن کی بازگشت میں جنرل پرویز مشرف کے آنے کے تیسرے برس ایم کیو ایم کو باضابطہ طور پر ایسا اقتدار ملا کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہ ملتی تھی، یہ ایک نیا دور تھا، جسے بہت سوں نے تنظٰمی لحاظ سے بہت برا بتایا، یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کرائی گئی اور اس رخصتی کرانے والوں نے ایم کیو ایم کی طنابیں بھی کس دی تھیں، اور اب وہ چست ہوتی گئیں، ایم کیو ایم گھرتی چلی گئی۔ 2010 میں ڈاکٹر عمران فارق بھی عظیم طارق کی طرح خاصے پراسرار انداز میں راستے سے ہٹا دیے گئے۔ دونوں کے قتل کے الزام ریاست اور متحدہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہے، لیکن یہ سانحہ کمزور ہوتی ایم کیو ایم کو اور لڑکھڑا گیا۔
الطاف حسین قائد ضرور تھے، لیکن تنظیم میں جہاں بہت سے کلیدی لوگ تھے وہاں عظیم طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق دو کلیدی ستون تھے۔ عظیم طارق کے بعد عمران فاروق کا قتل خوف ناک خواب بن گیا۔
کراچی میں امن وامان کی بحالی کے لیے آپریشن نے الطاف حسین کے کارکنوں کی گرفتاری پر ایسا گھائو لگایا کہ مائنس ون سے انکار کرنے والی پوری تنظیم نے اسی اگست کی 22 کو مائنس ون کرڈالا۔ اس طرح 8 اگست سے شروع ہونے والا ایک سفر 22 اگست کی ایک بند موڑ پر آکر ٹھہر گیا ہے۔ اور اب اس کی تبدیلی کی امیدیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ہم اس تراشے پر واپس آتے ہیں، بقول شاعر ؎
اس موڑ سے شروع کریں پھر یہ زندگی
ہر شے جہاں حسِین تھی ہم تم تھے اجنبی!

(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights