(تحریر: تحریم جاوید)
اس وقت ہر طرف سیلابی صورت حال کی چرچا کے ساتھ سیلابی راستوں اور ندی نالوں پر تجاوزات پر بڑی لے دے ہو رہی ہے، لیکن کراچی کے ایک شہری کے طور پر ہم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح کراچی کی بڑی ندیوں پر تجاوزات اور مٹی کی بھرائی جاری وساری ہے۔ ماہرین اِسے کتنا خطرناک بتا چکے ہیں اور یہ معاملات عدالتوں میں بھی چل چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈیفنس فیز 8 سے لے کر قیوم آباد اور فیز7 ایکسٹینشن کے حوالے سے بھی بتایا گیا کہ یہ کس طرح غیر فطری طریقے سے ندی کے اندر تعمیر کی گئیں۔
یہ سب تو برسوں یا عشروں پہلے کی کارروائیاں ہیں، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح مائی کلاچی بائی پاس کے دونوں جانب کی زمین چھینی گئی ہے اور مینگروز کا تیا پانچہ کیا گیا ہے وہ تو ساری دنیا کے سامنے ببانگ دہل ہو رہا ہے، اسے کسی نے کیوں نہیں روکا۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی پروین رحمن چیخ چیخ کر مر گئی کہ یہ بربادی نہ کرو۔ عارف حسن صاحب آج بھی پیرانہ سالی میں کھڑے ہوئے یہ سب بتا رہے ہیں کہ کتنی بربادی ہے یہ، لیکن کچھ نہیں۔
چند برسوں میں مائی کلاچی کی ندی یا سمندری کھاڑی خشکی میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، دور دور تک چٹیل زمین مستقبل کے کسی ٹائون، بڑے تعمیراتی پراجیکٹ کی صورت میں بہت پر کشش معلوم ہو رہا ہے، جس سے نہ صرف آبی بربادی ہوگی، بلکہ آبادی کے غیر فطری بوجھ تلے کچلتا کراچی انسانی نفوس کا ایک زندہ قبرستان بنتا چلا جائے گا جہاں سانس لینے کے لیے بھی جگہ باقی نہیں ہوگی، سمجھ میں نہیں آتا سارا میڈیا اور سارے لوگ اس حوالے سے کیوں بات نہیں کرتے، بربادی ہونے کے بعد بس چند دنوں کی ٹیں ٹیں ہوتی ہے اور پھر وہی پرنالہ وہیں بہتا ہے۔
مائی کلاچی کے ساتھ بلوچ کالون اور محمود آباد کے ساتھ شہید ملت ایکسپریس وے سے شروع ہونے والی کورنگی ندی کا حال بھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، تین عشرے پہلے بنائے گئے اس بند اور شاہراہ فیصل کے متبادل راستے کے ساتھ بھی کیا کھلواڑ ہو رہا ہے، وہ وہاں بند بنا ہوا ہونے کی وجہ سے گزرنے والے نہیں دیکھ سکتے تھے، لیکن چند برسوں سے وہاں بھی عمارتی ملبا پھینکا جا رہا ہے، شہید ملت ایکسپریس وے کے کنارے پر بھی سوزوکیاں خالی ہوتی ہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ نے اس ندی کے اندر جہاں بارش کا پانی جمع ہو کر سمندر میں گرتا ہے، یہاں شہر بھر کا کچرا ٹھکانے لگانے کا باقاعدہ اڈا بنا لیا ہے، جہاں شہر کے مختلف علاقوں سے کچرا لا لا کر پھینکا جاتا ہے اور اس کی چھٹائی کا سارا کام ہوتا ہے اور پھر وہ کچرا جلا دیا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قبیح عمل پر کسی کی بھی آنکھ کیوں نہیں پڑتی، انتہا یہ ہے کہ سامنے اقرا یونیورسٹی کے راستے پر رات کو دھواں بھرا ہوا ہوتا ہے، کچرا جلنے سے سانس نہیں لیا جاسکتا، لیکن کوئی آواز کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ کہ ایک تو سیلابی پانی کی ندی کی واٹ لگ رہی ہے دوسرا کچرا ڈمپ کر کے آپ شہریوں کی صحت اور آلودگی کے لیے کیا سیاہ کارنامے کر رہے ہیں، کہاں ہے وہ ڈان گروپ کی آلودگی کے خلاف تحریک اور وہ این جی اوز کہاں ہیں جو گلوبل وارمنگ پر ٹھنڈے ہوٹلوں میں ڈرامے بازیاں کرتے ہیں۔۔۔۔
اسی پر بس نہیں آپ شہید ملت ایکسپریس وے سے آگے جائیں تو یہاں بھی بھرائی کرکے اونچی عمارتیں بنا دی گئی ہیں، بلکہ مستقبل میں بھی بڑے بڑے پروجیکٹ متوقع ہیں ویسے بھی اسی ندی میں شاہراہ بھٹو بھی گزار دی گئی ہے اس لیے اب اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔
اس سے آگے بڑھیے قیوم آباد سے تو اگلا ندی کا راستہ کورنگی کراسنگ تک کا ہے جو کسی زمانے میں ندی سے اوپر ہوا کرتا تھا، مگر اب ایک طرف کی ندی تو بالکل خشک کردی گئی ہے، وجہ وہی ہے، کہ وہاں باقاعدہ ملبا ڈالا جا رہا ہے، صفائی کا تو خیر کوئی خیال ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ندی میں ذرا سا بھی پانی بڑھتا ہے تو یہ ندی کی گزرگاہ زیر آب آجاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہی لگ رہا ہے کہ یہ ندی بھی سرکار کسی رہائشی منصوبے کی نیت سے دیکھ رہی ہے، یعنی شہریوں کی املاک تو قبضہ کہہ کر گرا دی جائیں توڑ پھوڑ دی جائیں کہ ندی نالے بند ہو رہے ہیں اور شہر کے بیچوں بیچ مائی کلاچی سے لے کر کورنگی ندی کے ساتھ جو بھرائی ہو رہی ہے اور جس طرح پانی کا رخ موڑا جا رہا ہے، اس کے لیے کوئی ایک لفظ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کراچی ایک طرف جہاں اپنی سیاسی اور سماجی محرومی سے برباد ہے وہاں قدرتی آفات کے ہاتھوں بھی بربادی کی تیاریاں ہیں، مائی کلاچی کی سمندری کھاڑی اور کورنگی ندی بھی قصہ پارینہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد کورنگی کا علاقہ ندی خشک کرتے کرتے فیز 8 اور دو دریا سے جا ملے گا!
۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
کیا کورنگی ‘دو دریا’ سے جا ملے گا؟
