Categories
Exclusive Imran khan Karachi MQM PPP PTI Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف پیپلز پارٹی جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ قومی تاریخ قومی سیاست مسلم لیگ (ن)

کیا جماعت اسلامی کا وقت گزر گیا؟

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
چند دن قبل جناب وجاہت مسعود نے “ایکس” پر اپنے ایک خیال کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ “جماعت اسلامی کا وقت گزر گیا۔ اب اس کی سیاسی حیثیت خاکسار تحریک اور مجلس احرار جیسی ہو چکی۔ البتہ جماعت اسلامی اہل پاکستان کے اجتماعی جمہوری شعور کو گدلا کرنے میں پوری طرح کام یاب رہی ہے۔ سیاسی طیف پر موجود سبھی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی کا سستا مگر خطرناک بیانیہ اپنا چکی ہیں۔”

راقم ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر وجاہت مسعود کے خیالات، استدلال اور نظریات سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے اور اکثر دلائل ومنطق سے مزین وچار سوچ کے نئے در وا کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی وہ بھی کمال ہی کر جاتے ہیں۔
کچھ ایسی باتیں اس قدر وثوق سے اور درشتی سے کر جاتے ہیں کہ ہضم نہیں ہوتیں، جیسے جماعت اسلامی سے متعلق ان کا یہ فرمان کہ “جماعت اسلامی کا وقت گزر چکا”
اور “جماعت اسلامی پر اجتماعی جمہوری شعور گدلا کرنے ک الزام”
یہ دونوں باتیں اگرچہ ان کا خالص ذاتی تجزیہ ہو سکتا ہے، لیکن اس قدر ‘اتنہا پسندانہ’ اور اس قدر یک طرفہ۔ یہ ہمیں بالکل ہضم نہیں ہوا، ہر چند کہ ہم جماعت اسلامی کے بھی اچھے خاصے ناقد ہیں، اور ان کے مختلف قول وفعل کے تضاد اور طور اطوار کے حوالے سے سخت تنقید کرتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے خیال مں کچھ تو توازن قائم رہنا چاہیے۔ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ آپ کیسے پاکستان کی واحد غیر موروثی اور غیر خاندانی قیادت رکھنے والی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت کو ایسے بے رحمی سے دھتکار سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آج تک کوئی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے، جس کسی بھی خاندان کی میراث نہ بنی ہو۔ اگرچہ “ایم کیو ایم” بھی اسی طرز کے حامی ہے، لیکن اس کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ الطاف حسین کے بعد اس کا کیا سلسلہ رہتا ہے۔ ایسے ہی پاکستان تحریک انصاف میں ابھی عمران خان کے دور کے بعد ہی کوئی بات کہی جا سکے گی، لیکن جماعت اسلامی نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنے مضبوط سیاسی نظام کی وجہ سے ایک اکلوتی مثال کے طور پر خود کو ثابت کرچکی ہے، جس کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ان کا دور ختم ہو چکا ہے۔
جماعت اسلامی سے بھی غلطیاں ہوئیں، لیکن یہاں تو سبھی سے ایسی بہت سی غلطیاں ہوئیں اور ہوتی ہیں، ہم بھی تنقد کرتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگتا ہے، جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب میں خدائی فوج داری اور جبر اور تشدد کے الزام لگتے ہیں، تنقید ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں ‘البدر’ اور ‘الشمس’ جیسے مظاہر موجود ہیں، لیکن یہ ان کی نظریاتی وابستگی کی ایک شکل تھی، آپ اس پر تنقید کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی آپ ان کے ابتدا میں قیام پاکستان کے مخالف اور پھر حامی ہو جانے پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن بات تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف جیسی لگ بھگ ملتی جلتی اور وہی وڈیرانہ نظام کی آلہ کار بنتی، وہی اسٹیبلشمنٹ سے بار بار سمجھوتے کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کا ارتکاب کرنے والی جماعتوں کی موجودگی میں آپ ملک کے طول وارض میں اپنے وسیع حامی رکھنے والی جماعت کو ایسے دھتکار دیں گے۔ یہ بالکل مناسب نہیں لگتا۔
جماعت اسلامی کے ارکان وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں، اگرچہ سماج کے نظریاتی کاروباری لوگ اسے جی کھول کر بھرتے ہیں، لیکن یہ اپنے کارکنان کے ایک نظام کے تحت چلتی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے، تو وہ ہر جماعت میں ہے، اسٹیبلشمنٹ کی آواز سے مل جانے کا الزام ہے تو پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اس سے مبرا نہیں رہی ہے۔
کاش، آپ جماعت اسلامی کے اندر موجود اس منفرد جمہوری اور سیاسی نظام ہی پر نظر رکھ کر اپنی بات کو متوازن کرلیتے۔ اس کی غلطیوں اور اس سے نظریاتی اختلاف پر بات کرلیتے۔ آپ نے تو اِسے اجتماعی شعور کو گدلا کرنے کا الزام بھی لگا دیا، چلیے یہ بھی آپ کی رائے ہے، جس کی گنجائش دی جاسکتی ہے، لیکن کسی نہ کسی طرح پاکستان کے گندے سیاسی نظام میں سبھی اس گدلے پن کا حصہ بنے ہیں۔
بالخصوص آپ جن بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار میں آنے اور آنے جانے کو جمہوری عمل کہتے ہیں، وہاں آپ جماعت اسلامی جیسی جمہوری راہ اختیار کرنے والی سیاسی جماعت پر بے رحمی سے چُھری چلا دیتے ہیں۔ آپ کو شاید ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ جب آپ جمہور کی آزادی اور جمہوری عمل کے بہت بڑے حامی ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ آپ جماعت اسلامی کو اس ملک کے دستور کے سائے میں جمہوری آزادی دینے کے خلاف محسوس ہو رہے ہیں، جو آپ گدلا کہتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ فقط آپ کے نظریاتی ٹکرائو کی بنا پر آپ کو گدلا لگ رہا ہو، لیکن اختلاف رائے کے حامی ہونے کے ناتے آپ کو اس کی گنجائش دینی چاہیے۔ یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اگر جماعت اسلامی نے اس شعور کو گدلا کیا ہے تو پھر باقی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے تو اِسے ایک گلے سڑے اور بدبو دار اور تعفن زدہ شکل دے دی ہے۔ کیا آپ ملک کی تینوں بڑی اقتدار میں رہنے والی نام نہاد سیاسی جماعتوں کے کرتوت دیکھ کر بھی جماعت اسلامی کو ہی ایسی تنقید کی نوک پر رکھ سکتے ہیں؟
آپ ہی تو اکثر توازن کی بات کرتے ہیں، آپ ہی تو جمہوری عمل اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں، پھر جماعت اسلامی جمہوری عمل کے ذریعے اپنی جدوجہد اور اپنی سیاست کرتی ہے، تو آپ ایسے برہم ہوئے جاتے ہیں، چلیے برہمی سمجھ میں بھی آتی، لیکن پاکستان میں تو نام نہاد جمہوریت ہے، ایسے میں دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھیے تو زیادہ خرابیاں اور بہت زیادہ بے اصولیاں دکھائی دیتی ہیں، لیکن آپ کا نزلہ جماعت اسلامی جیسی متوسط طبقے کی ایک نظریاتی سیاست کرنے والی ملک گیر اور منفرد سیاسی جماعت پر گرتا ہے۔ اگر آپ صرف اس کے داخلی جمہوری اور مضبوط سیاسی نظام کو دیکھ لیجیے تو جی چاہتا ہے کہ پاکستان جیسے نظام میں اس خوبی کے صدقے اس کے سارے “گناہ” معاف کردیے جائیں۔ اب 78 سال میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہ ہو سکے تو جماعت اسلامی کا اتنا حق تو بننا چاہیے، ورنہ جماعت اسلامی اگر باپ کے بعد بیوی، بیٹے، بیٹی، پوتے اور نواسے کے چکر میں پڑی ہوتی تو یقین کیجیے ہم بھی خاموش رہتے، لیکن آپ اس بار زیادتی کر گئے۔
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights