Categories
Education Exclusive Health Karachi Media Society انکشاف تہذیب وثقافت خواتین دل چسپ ذرایع اِبلاغ سمے وار بلاگ سمے وار- راہ نمائی صحت

‘سرمایہ داری نظام’ اور ہوٹل ریسٹورنٹ کلچر کا قصہ

(تحریر: سید خالد جامعی)
جدید مغربی تہذیب نے اسکاٹش تصور نیکی کو اختیار کر کے دنیا کی تاریخ بدل دی، آج ہر انسان سرمایہ کا غلام اور اس کا طالب ہے، اس کے حصول کو اصل نیکی، اصل عبادت اور اصل خیر جانتا ہے لہذا زیادہ سے زیادہ کھانا پینا مغربی تہذیب و تاریخ کی خاص علامت ہے اور صنعتی کارخانے خواہشات نفس کو پورا کرنے کےلئے اشیاء خورد نوش انڈیل رہے ہیں، اس کے نتیجے میں جدید طب کا کاروبار وجود میں آگیا ہے، جہاں اربوں روپے روزانہ صحت کی بحالی پر خرچ کئے جا رہے ہیں، عہد حاضر کی اکثر بیماریوں کا سبب بسیار خوری اور غیر فطری غذائیں ہیں بلکہ وہ بازاری غذائیں جن کے اجزاء مہلک کیمیائی مادوں پر مشتمل ہیں۔
کیا ایک اسلامی ریاست کھانے پینے کی صنعت، فوڈ اسٹریٹ، ہوٹلوں، ریستورانوں اور سڑکوں پر خورد نوش کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے؟ لیکن جب عورت آزادی اور مساوات کے فلسفے کے تحت مرد کی طرح گھریلو ذمہ داریوں سے خود کو سبک دوش قرار دے لے اور مارکیٹ کی زندگی ہی بازار سے خواب گاہ تک میڈیا کے ذریعے مسلط کر دی جائے، انسان صبح آنکھ کھولے تو بازار میں رات کو آنکھ بند کرے تو بازار میں، عورتوں کےلئے کھانے پکانا اور بچے کی پیدائش دنیا کا مشکل ترین کام بنا دیا گیا ہو، درد زہ اس کےلئے سب سے اذیت ناک مرحلہ ہو تو کھانے پینے کے تمام راستے باورچی خانے اور گھر کے بجائے بازار کی طرف چلے جاتے ہیں، اسی لئے اسلامی تاریخ میں Eating out کی کوئی روایت نہیں ملتی __
دنیا کی تمام روایتی تہذیبیں اور اسلامی تاریخ Entertainment ہوٹل اور ٹورازم انڈسٹری کے تصور سے خالی ہے، انٹرٹینمنٹ بظاہر ایک سادہ لفظ ہے مگر یہ عیاری اور پُرکاری کی طویل داستاں ہے جو لغویات خرافات، عیش و عشرت، ہلے گلے، چٹخارے، لذت، لطف اور مزے سے شروع ہو کر حرام کاری کی نت نئی قسموں تک وسیع ہو جاتی ہے، بچوں کےلئے کارٹون فلم سے لے کر Pub کیسینو تک اس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ایک بڑھتی پھیلتی ہوئی صنعت ہے، اس کے اجزاء کی فہرست پڑھئے!
[01] Circus
[02] Dance
[03] Drama
[04] Musical theatre
[05] Opera
[06] Performance art
[07] Magic
[08] Comedy
[09] Sports
[10] Concerts
[11] Theatre
[12] Composers and songwriters
[13] Singers and Musicians
[14] Orchestras
[15] Concert halls and opera houses
[16] The Publishing industry
[17] Amusement park
[18] Busking
[19] Funfairs
[20] Museum
[21] Themed retail
[22] Trade show
[23] Wax museum
[24] Film studios
[25] Movie theaters/ cinemas
[26] Television
[27] Radio
[28] Theme parks
[29] Discotheques
[30] New media
[31] Fashion Industry
[32] Video games
[33] SMS content
[34] Films featuring extraterrestrials
[35] Character-based movie franchises
[36] Cinematic genres
[37] Comedy-drama films
[38] drama films
[39] Disaster films
[40] fantasy films
[41] films noir
[42] gay-related movies
[43] horror films
[44] Mafia movies
[45] punk movies
[46] racism-related movies
[47] science fiction films
[48] Show business families
[49] Computer-animated films
[50] Movie awards
[51] Film festivals
[52] Academy Awards ceremonies
[53] Golden Globe Awards ceremonies
[54] Film trilogies
[55] Sex Industry
[56] Toy Industry
مغرب دنیا کی خبیث ترین تہذیب ہے جہاں طوائف کو تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ عزت کا کام کرنے والا تصور کیا گیا اور جسم فروشی کو صنعت، روزگار اور کاروبار کا درجہ دیا گیا، Adult entertainment اور Erotica جیسی اصطلاحات کی آڑ میں کھربوں روپے سرمایہ دار کما رہے ہیں، امریکہ میں یہ صنعت تیرہ بلین ڈالر سالانہ کا کاروبار مہیا کرتی ہے، Adult Service Provider (ASP) or Adult Sex Provider جیسی ذلیل اصطلاح بھی اس تہذیب نے ایجاد کی ہے __
”جسم میری ملکیت ہے“ کے مغربی مابعد الطبیعاتی فلسفے کی قبولیت کے بعد یہی ہونا تھا، جب علم، اخلاق، اصول اور قانون اس دنیا سے اور نفس انسانی سے نکلیں گے اور جسم انسانی سے یا نفس سے برآمد ہوں گے تو وہی علم فروغ پائے گا جس سے جسمانی لذات، خواہشات اور تعیشات کو ممکن بنایا جا سکے لہذا جسم کی خرید و فروخت عزت ماب کاروبار قرار پایا اس کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً __
[01] Erotica USA
[02] Sex
[03] TV: The Channel
[04] You Porn website alows amateurs to upload porn) Artemis (a mega-brothel in Germany)
[05] Ann Summers (a successful chain of British sex shops)
[06] Call girls, Prostitutes, adult webmasters, erotic dancers
[07] Sex tourism
[08] Sex industries tend to thrive around military bases
[09] Adult film
[10] Brothel
[11] Burlesque
[12] Cybersex
[13] Erotica
[14] Erotic massage
[15] Hentai
[16] Live sex show: a performance on stage where the performers carry out sexual activities
[17] Pornography.
[18] Pro-sex feminism
[19] Prostitution
[20] Sex shop
[21] Sex toy
[22] Sex worker
[23] Spintria
[24] Striptease
[25] Telephone sex
[26] Television X
[27] XBIZ
[28] XRCO awards
[29] XRCO Hall of Fame
اس تمام کھیل میں سب سے زیادہ مظلوم، مجبور، بے کس اور بے بس عورت ہے، جس کے تحفظ، وقار، عزت اور برابری کے دعوؤں کے نام پر اسے تمام معزز اور محترم رشتوں، ماں، نانی، دادی، باجی، خالہ اور بہن سے کاٹ کر محض طوائف بنا دیا گیا ہے اور جسم فروشی کو لعنت سمجھنے کے بجائے اسے عزت والا کام قرار دیا گیا ہے __
جس تاریخ میں مہمان نوازی ایک مذہبی روایت رہی ہو وہاں ہوٹل اور ریسٹورنٹ کیسے چل سکتے تھے؟ ویسے بھی گھریلو مہمان نوازی اخلاق کے دائرے میں ہوتی تھی لہذا گھر میں مہمان کےلئے طوائف مہیا کرنا یا گھر کی خواتین کو طوائف کے طور پر پیش کرنا ممکن نہ تھا لہذا ہوٹل کی صنعت اور طوائف کی صنعت کا باہمی براہ راست تعلق ہے چونکہ میزبان یہ فریضہ روایتی تہذیبوں میں ادا کرنے کے قابل نہ تھا لہذا مغربی تہذیب نے مہمانوں کی مہمان داری میں اس کمی کو شدت سے محسوس کر کے ہوٹل اور سیکس انڈسٹری کے ذریعے جسم فروشی کو عالمگیر قدر بنا دیا، ریسٹورنٹ، ہوٹل، پاگل خانے، کوٹھے، قید خانے اور ہسپتال کا براہ راست تعلق ہے، تمام جسمانی، جنسی اور نفسیاتی بیماریوں کا مرکز یہی چھ نئے ادارے ہیں جو مغرب نے صنعت کے نام پر ایجاد کئے ہیں __
دنیا میں کھانے کا سب سے زیادہ زیاں ہوٹلوں میں ہوتا ہے، اسراف اور ہوٹلنگ لازم و ملزوم ہیں، سترہ روایتی تہذیبوں میں ہوٹل کی کوئی روایت موجود نہیں ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بھی ہوٹلنگ کی روایت نہیں تھی لیکن مہمان نوازی کی روایت اور قدر موجود تھے اسی لئے حضرت خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام ایک بستی میں پہنچے تو قرآن کریم کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام نے وہاں کے لوگوں سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔
فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا (الكهف: ۷۷)
”پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا، پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی، خضر نے اس کو سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا)“
کسی ہوٹل میں آپ کو آدھی پاؤ روٹی نہیں ملے گی، آپ کو پوری روٹی خریدنی ہوگی خواہ آپ آدھی کھائیں یا پاؤ یا اسے پھینک دیں، آپ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے والا آپ کی آدھی پاؤ روٹی میں حصہ لینا اپنی توہین سمجھے گا، اشیائے خورد نوش کے جدید اڈوں اور ٹھکانوں کے سلسلے میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کو اگر اسلامی منہاج میں دیکھا جائے تو پندرہ سو سال کا تعامل اس کی نفی کرتا ہے، سب سے پہلے ہوٹلوں کی اقسام پڑھئے!
[1] Treehouse Hotles
[2] Cave Hotels
[3] Capsule Hotels
[4] Ice and snow hotels
[5] Garden Hotels
[6] Underwater hotels
[7] Other unusual hotels
[8] Resort hotels
[9] Railway hotels
ہوٹل فرینچ Hotel سے مستعار ہے جس کا مصدر Hote ہے یعنی Wikipedia کے مطابق Host ہوٹل اس مقام کا نام تھا جہاں
A town house or any other buliding seeing : frequest visitors rather than a place offering acomodation
انیسویں صدی سے پہلے روایتی تہذیبوں میں کبھی ہوٹل اور ریسٹورنٹ کا کوئی تصور نہیں رہا، مہمان نوازی کی روایت دنیا کی سترہ تہذیبوں میں مشترکہ قدر تھی لہذا کوئی اجنبی کسی اجنبی علاقے میں مہمان کی حیثیت سے رہ سکتا تھا، Paying Guest جیسی ضلالت کا کوئی وجود نہ تھا، کوئی شخص مہمان ہو اور اپنے کھانے پینے کے پیسے ادا کرے روایتی تہذیبوں میں اس تصور میزبانی کو جرم سمجھا جاتا تھا اور آج بھی روایتی علاقوں خصوصاً پنجاب، سرحد (کے پی) بلوچستان میں اور دنیا کے بے شمار خطوں میں یہی صورت حال ہے __
انیسویں صدی تک یورپ اور امریکہ وغیرہ میں گھر سے باہر کھانا کھانے کا تصور تک نہیں پایا جاتا تھا، پروفیسر احمد سعید کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں ہوٹل کا کوئی تصور نہ تھا، سرائے کے نام سے ریاستی مہمان خانے ہوتے، شیر شاہ سوری کا عہد اس ضمن میں مثالی تھا، ابتداء میں جو ہوٹل ہند میں کھلے وہ سرائے کے نام سے کھلتے اور معمولی مشاہرہ پر کام کرتے، ہندوستان میں مسلمانوں کا پہلا ہوٹل ۱۹۱۰ء میں دہلی میں مسلم ہوٹل کے نام سے کھولا گیا (دو قومی نظریہ منہ بولتے زمینی حقائق ص ۱۳۷ لاہور) ۱۹۲۳ء تک لاہور میں مسلمانوں کا کوئی ہوٹل نہ تھا، پہلا اسلامی ہوٹل اسلامیہ کالج کے پاس کھولا گیا، ان مسلم ہوٹلوں میں مختلف اسلامی تہواروں پر مسلم ڈنر کا اہتمام کیا جاتا تھا (دو قومی نظریہ ص ۱۴۰) اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں چھ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی، کبھی کوئی ہوٹل اور ریسٹورنٹ نہیں تھا، مہمان خانے، سرائے کاروانوں کے مسافروں کےلئے اور روایتی مہمانوں اور گھر والوں کےلئے گھر کا باورچی خانہ مہمانی و میزبانی کا مرکز تھا کیونکہ عورت گھر میں تھی، گھر کےلئے تھی لیکن جب وہ گھر سے نکلی تو باورچی خانے برباد اور ہوٹل، ریسٹورنٹ، ہسپتال، طوائف خانے، پاگل خانے اور سب سے عجیب بات کہ قید خانے تعمیر بھی ہوئے اور آباد بھی __
اسلامی نظام عدل میں اس شخص کی گواہی غیر معتبر سمجھی جاتی تھی جو سڑکوں اور بازاروں میں کھاتا پیتا دکھائی دے، ایسے فرد کو غیر ثقہ اور غیر معتبر سمجھا جاتا تھا لیکن عہد حاضر میں اشرافیہ، بڑے بڑے امراء، صنعت کار اور خاندانی لوگوں کی عورتیں جس طرح فٹ پاتھوں پر اہتمام سے بیٹھ کر صبح کا ناشتہ حلوہ پوری کھاتے ہیں اور چھولے، دہی بھلے دنیا بھر کا کچرا، مٹی دھول سے اٹی سڑکوں اور گرد و غبار کے انبار میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر، گاڑی میں انتظار کرتے ہوئے شوقیہ کھاتے ہیں، تاریخ تہذیب انسانی میں اس کا تصور محال تھا، مغرب میں بعض ہوٹل اپنے بعض خاص ذائقوں کےلئے مشہور ہیں، مثلاً نیو یارک کا Waldorf Astoria ہوٹل Waldorf Salad کےلئے، Vienna کا Sachertorte Hotel Sacher کےلئے Hotle de paris اپنے Crep Suzette کےلئے، سنگا پور کا Raffles hotel اپنے Sling Cocktail کےلئے __
مغرب میں ریسٹورنٹ اور ہوٹلنگ کا عروج باورچی خانے اور عورت کے زوال سے شروع ہوا اور صحت کا زوال ہوٹل کے عروج عورت کی آزادی، گھر اور باورچی خانے کے خاتمے سے ہوا، جیسے جیسے باورچی خانہ سمٹتا گیا عورت کا عورت پن مردانے پن میں ڈھلا، باہر کھانا شوق نہیں عادت، رویہ، روایت اور مغرب میں اب عبادت بن گیا ہے، اس عبادت کے نتیجے میں ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت بھی لازمی ہو گئی، ہوٹل کی صنعت کے باعث عیادت کی عبادت میں خلل ممکن ہی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب میں خاندان ہی نہیں تو عیادت کا کیا سوال؟ __
اکثر حاملہ عورتیں کام پر ہوتی ہیں یا تنہا گھر میں درد زہ اٹھتا ہے تو خود گاڑی چلا کر ہسپتال تک جاتی ہیں نہ کوئی عزیز نہ رشتہ دار سب مصروف ہیں، شوہر بھی دور دراز کسی دفتر میں کام کر رہا ہے، اپنے تمام بوجھ خود اٹھانے ہیں لہذا سارا سال معدہ کی عبادت ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے جدید معبدوں میں کی جاتی ہے، باورچی خانہ ماڈرن ازم میں سرد خانہ بن جاتا ہے جہاں کبھی کبھی زندگی کے آثار مجبوراً نظر آتے ہیں، اس لئے کراچی کے بہت سے امیر محلوں میں بلیاں بھوکی رہتی ہیں، ان کو کوڑے دان میں رزق نہیں ملتا کہ اکثر گھر والے کھانا نہیں پکاتے اور مختلف ریستورانوں سے پیزا، برگر، یا اسی قسم کی اشیاء خرید کر گھر پر منگوا کر کھاتے ہیں __
ان اشیاء میں جانوروں کےلئے کچھ نہیں ہوتا، گھروں میں کبھی کبھار کچھ پکایا جاتا ہے تو وہ اسپیگٹیی، نہاری، حلیم کی طرح کی چیزیں جس میں سب کچھ کھا لیا جاتا ہے، ان بلیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، امیر محلوں میں بھوکی بلیوں کے غول ان گھروں میں گھس جاتے ہیں جہاں کھانا پکایا جاتا ہے، تاریخ انسانی میں ایسی ذلیل تہذیب کبھی پیدا نہ ہوئی جو اپنے خود غرضانہ رویوں سے جانوروں کو خوراک سے محروم کر دے، ہر فطری خوراک میں اللہ نے تمام مخلوقات کا حصہ رکھا ہے مگر جدید کھانوں میں جانوروں کا کوئی حصہ نہیں __
”ریسٹورنٹ“ بھی فرانسیسی لفظ ہے، اس کے مالک کو Restaurateur کہا جاتا ہے، یہ دونوں الفاظ فرانسیسی زبان کے فعل Restaurer سے اخذ کئے گئے ہیں، جسکا مطلب Torestore ہے، Alfred Edersheim نے اپنی کتاب Life and Times of Jesus the Messiah Book 1 Chapter V میں بغیر کسی تاریخی حوالے کے لکھتا ہے کہ یروشلم اور انطاکیہ میں ریسٹورنٹ تھے، بالکل اسی طرز پر Lin dsay James E نے اپنی کتاب Daily Life in the Medieval Islamic World 2005 ص ۱۳۱ پر مقدسی کے حوالے سے دسویں صدی میں ریستوران کا ذکر کیا ہے، Salma Khadia نے اپنی کتاب The Legacy of Muslim Spain کے ص ۱۱۷ پر اندلس کے ریستورانوں کا ذکر کیا ہے کہ وہاں تین قسم کے کھانے پیش کئے جاتے تھے، یہ نویں صدی کا عہد ہے، Served in there seprate courses consiting of soup the main course and dessert زوال اندلس میں ریستوران کا ارتقاء ایک اہم موضوع ہے، جس پر ابھی تک تحقیق نہیں کی گئی، ہندی بادشاہ اشوکا نے مسافروں کےلئے بہت مہمان خانے بنائے تھے جن میں علاج معالجے کےلئے جڑی بوٹیاں بھی اگائی جاتی تھیں جسے بعض تاریخ دان ہسپتال سمجھے اور اپنی کتابوں میں اشوکا کے ہسپتالوں کا ذکر کیا ہے __
چین میں (1279-960) Song Dynasty کے عہد میں ریسٹورنٹ کے آثار ملتے ہیں، ان ریسٹورنٹ سے پہلے چائے خانوں کا اجراء ہوا لیکن تاریخ کے مطابق یہ ریسٹوران بھی اجنبی، مسافروں، تاجروں کی خدمات کےلئے کھولے گئے تھے، مقامی افراد ان سے استفادہ نہیں کرتے تھے، جس طرح اسلامی تاریخ میں سرائے، مہمان خانے وغیرہ بلا معاوضہ یا نہایت معمولی نرخوں پر خدمات مہیا کرتے تھے، Stephen H West کے مطابق چین میں ریستوران کی ثقافت کا، فن ڈرامہ، جوا، طوائف اور عصمت فروشی کی صنعت سے براہ راست تعلق تھا یعنی یہ ہوٹل اور ریستوران شرفاء اور عام آبادی کی اخلاقیات کے برعکس رذائل اخلاق کی صنعت کے فروغ کا سر چشمہ تھا __
there awas a direct correlation between the growth of restaurant businesses and institutions of theatrical stage drama, gambling, and prostitution which served the burgeoning merchant middle class during the song
لذت اور نفس پرستی سے وابستہ اس تعلق کا اظہار ۱۲۷۵ء عیسوی کی ایک تحریر سے ہوتا ہے جس کے مطابق:
The people of Hanzhou are very difficult to please. Hundreds of orders are given on all sides: this person wants something hot, another something cold, a third something tepid, a fourth something chilled; one wants cooked food, another raw, another choses roast, another grill.
انسائیکلو پیڈیا wikipedia کے مطابق :
The restaurants in Hangzhou also catered to many northern Chinese who had fled south from Kaifeng during the Jurchen invasion of the 1120s, while it is also known that many restaurants were run by families formerly from Kaifeng.
اسی انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مغرب کے ریسٹورنٹ میں مقامی آبادی کے لوگ کھانا نہیں کھاتے تھے _
In the West, whil inns and taverns were known from antiquity, these were establishments aimed at travellers, and in general locals would rarely eat there. Restaurants, as businesses dedicated to the serving of food, and where specific dishes are ordered by the guest and generally prepared according to this order, emerged only in the 18th century. According to the Guinness Book of Records, the Sobrino de Botin in Madrid, Spain, is the oldest restaurant in existence today. It opened in 1725. There is, however, evidence that Henry III of France ate at the still-extant Tour d’Argent on March 4, 1582. [www.time.com]
ریسٹورنٹ کی اصطلاح وبائے عام کے طور پر اٹھارہویں صدی میں منظر عام پر آئی، فرانس میں انیسویں صدی میں انقلاب کے بعد باہر کھانا کھانے کی روایت شروع ہوئی اور ہوٹل ریسٹورنٹ سے معدہ بھرنے کی بیماری پورے مغرب میں وبائے عام کی طرح پھیل گئی لیکن اس سے پہلے ہوٹلنگ کا رواج نہ تھا، تفصیلات کے مطابق
The term restaurant (from the French restaurer to restore) first appeared in the 16th century, meaning “a food which restores”, and referred specifically to a rich, highly flavoured soup. It was first applied to an eating establishment in around 1765 founded by a Parisian soup-seller named Boulanger. The first restaurant in the form that became standard (customers sitting down with individual portions at individual tables, selecting food from menus, during fixed opening hours) was the Grand Taverne de Londres (the “Great Tavern of London”), founded in Paris in 1782 by a man named Antoine Beauvilliers, a leading culinary writer and gastronomic authority who achieved a reputation as a successful restaurateur. He later wrote what became a standard cookbook, L’Art du cuisinier (1814). Restaurants became a commonplace in France after the French Revolution broke up catering guilds and forced the aristocracy to flee, leaving a retinue of servants with the skills to cook excellent food; whilst at the same time numerous provincials arrived in Paris with no family to cook for them. Restaurants were the means by which these two could be brought together and the French tradition of dining out was born. A leading restaurant of the Napoleonic era was the Véry, which was lavishly decorated and boasted a menu with extensive choices of soups, fish and meat dishes, and scores of side dishes. Balzac often dined there. Although absorbed by a neighboring business in 1869, the resulting establishment Le Grand Véfour is still in business.
ان حوالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہوٹل اور ریستوران کی مسرفانہ ثقافت کے آغاز کو زیادہ طویل عرصہ نہیں گزرا لیکن میڈیا یہ ظاہر کرتا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ہی روئے زمین پر ہوٹل اور ریسٹورنٹ اگنے لگے تھے، ساڑھے سات ہزار سال کی روایتی تہذیب میں موجود مہمان نوازی اور میزبانی کی ثقافت ماڈرن ازم کے فروغ کے بعد گزشتہ ایک صدی میں تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ براعظم امریکہ جہاں انیسویں صدی تک ریسٹورنٹ نہیں تھے اب وہاں دو لاکھ پندرہ ہزار بڑے اور دو لاکھ پچاس ہزار چھوٹے ریسٹورنٹ ہیں جن کا سالانہ کاروبار چھ سو بلین ڈالر سے زیادہ ہے، کینیڈا میں جہاں اٹھارہویں صدی کے آخر تک کوئی ریسٹورنٹ نہیں تھا وہاں دس ہزار شہریوں کو کھانا مہیا کرنے کےلئے ہر علاقے میں اوسطاً چھبیس ریستوران میسر ہیں یعنی کینیڈا میں کوئی عورت کھانا نہیں پکاتی سب نوکریوں پر چلی جاتی ہیں، ہوٹل، ہسپتال اور جیل خانہ لازم و ملزوم ہیں دنیا کی سترہ تہذیبوں میں ہوٹل مفقود تھے لہذا ہسپتال بھی موجود نہ تھے، سترہویں صدی کے اختتام پر یورپ میں روایتی مذہبی معاشرے کی تباہی کے ساتھ ہی خاندان، محبت، عورت کا خاتمہ ہوا تو صنعتی زندگی اور مساوات کے ذریعے جنسی آزادی کے ساتھ ہی ہوٹل، پاگل خانے، قحبہ خانے، شراب خانے، قید خانے اور ہسپتال کی ثقافت پھیلنے لگی۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights