(تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر)
قطر کی عرب اسلامی کانفرنس کے بعد “لڑکے” دوحا میں مصروف ہوئے تو بہت سے ناقدین نے اِسے نشستند گفتند برخاستند قرار دیا۔ کچھ نے اِس اعلامیے کو “اب کے مار” کہہ کر بھپتی کسی، لیکن پارٹی تو ابھی اوور نہیں ہوئی تھی، ابھی تو پکچر باقی تھی۔
17 ستمبر 2025 کو ہمارے “لڑکے” قطر سے سعودی عرب پہنچ گئے، لیکن کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ اِس بار پاکستان کو سعودی عرب میں اتنی اہمیت مل جائے گی۔ ہمیشہ کی طرح ڈولتی معیشت کے لیے ہم کشکول لے کر ہی ریاض جاتے تھے، کبھی ادھار، کبھی رعایت، کبھی امداد تو کبھی سبسڈی لے کر لوٹتے۔ یہ سب بہت بڑی کام یابی سمجھی جاتی تھی، لیکن 17 ستمبر کی شام کے بعد ایک بڑا دھماکا ہی ہوگیا جب سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان “ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ” تصور ہونا اور مشترکہ دفاع کی بازگشت سنائی دی تو جنوبی ایشیا سے مشرق وسطیٰ اور مشرق وسطیٰ سے دور امریکا تلک اس کی گونج سنائی دی۔ بہت سے تو ابھی تک انگشت بدنداں ہیں، لڑکوں نے قدموں کا بہترین استمعال کرتے ہوئے گیند بائونڈری سے باہر پھینک دی ہے!
دنیا کے مرکز نگاہ یہی لڑکے ہیں۔ بیرون ملک ہی نہیں اندرون ملک بھی اس قدر بڑی پیش رفت اور دست سوال دراز کرنے والے ملک کو ایک دم سے اتنی اہمیت ملنے پر شدید خوش گوار حیرت پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمیں دنیا میں کوئی پسند نہیں کرتا، چین سے تعلق تو ایک طرف ہمیں تو دس سال سے سعودی عرب بھی نظریں پھیرتا ہوا لگتا تھا۔ بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے تبدیل شدہ حکمت عملی میں طوائف الملوکی سے نبرد آزما پاکستان کہیں فٹ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ کئی سالوں سے محمد بن سلمان کے پاکستان آمد کی باتیں ہو رہی تھیں، وہ 2022 اور 2024 میں پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے، لیکن بوجوہ ان کے دورے ملتوی ہونے کی خبروں سے تعلقات میں گرم جوشی میں کمی محسوس ہونے لگی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا برادرانہ اور تاریخی واقعات کا بیانیہ صرف ہم ہی سنبھال کے رہ گئے ہیںِ سعودی عرب اب پہلے کی طرح پاکستان پر توجہ نہیں رکھتا، اس کی توجہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرف ہونے لگی ہے۔
لیکن جناب سعودی ولی عہد نے ساری دنیا کو حیران پریشان کر دیا ہے۔ اِسے چاہے تو آپ پاکستان کی کام یابی بھی کہہ سکتے ہیں، کہ مذہبی لحاظ سے پورے ملک میں جوش وخروش ہے کہ ہم مقدس مقامات کے باقاعدہ محافظ قرار پاگئے ہیں تو دوسری طرف اس معاہدے کے بدلے میں پاکستان کو بھی بہت سے فوائد ملیں گے۔ جو پاکستان کی سالمیت اور ترقی کی راہیں کھولے گا۔
کچھ لوگ اِسے کرائے کے فوجی اور پرائی جنگ میں ٹانگ اڑانا کہہ رہے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے مذہبی لگائو سے الرجک ہیں یا پھر ان کے ساتھ ایسا ہی کوئی نظریاتی مسئلہ ہے۔ ورنہ دنیا میں سبھی ممالک ایسے معاہدے کرتے ہیں کیا ضروری ہے کہ آپ اسے مذہبی اتحاد ہونے کی بنا پر مسترد کریں۔
سب سے آخر میں خراج تحسین پیش کرنا پڑتا ہے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کو۔ جنھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک بار پھر آگے لا کر کھڑا کردیا ہے۔ کاش اب اس معاہدے پر اسی روح کے مطابق عمل ہو۔ اور سعودی عرب بھی ترقی کرے اور پاکستان بھی پھلے پھولے۔
فی الحال تو دل سے ایک ہی بات نکلتی ہے کہ “بوائز پلیڈ ریئلی ویل۔۔۔۔!”
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
“بوائز پلیڈ ریئلی ویل۔۔۔”
