Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi KU MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی تعلیم جامعہ کراچی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مسلم لیگ (ن) مہاجر صوبہ مہاجرقوم

چوبیس سالہ سیکریٹری اور 32 سال کا مطلوب ’ایم بی بی ایس‘ ”دہشت گرد“!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
ڈاکٹر عمران فاروق کو اگر ’ایم کیو ایم‘ ہی نہیں، بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد اور یک تا کردار کہا جائے، تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ سیاست میں اتفاق اور اختلاف تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور ہمارے ملک جیسی سیاست میں یہ اتنہاﺅں کو بھی چھو جاتے ہیں، لیکن بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جسے اختلاف رکھنے یا ناپسند کرنے والوں کے لیے بھی سرسری گزرنا ناممکن بنا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق بالکل ایسا ہی ایک کردار تھے۔
کراچی میں طب کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ سیاسی جدوجہد کی طرف راغب ہوئے اور پھر جب 18 مارچ 1984ءکو ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق ابھی اپنی 24 ویں سال گرہ سے بھی تین ماہ دور تھے۔ یہ ان کی قابلیت اور مرتبہ تھا کہ انھیں اس سیاسی جماعت میں اتنی اہم مرکزی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے اپنی موت تک درست ثابت کیا۔ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے قائد الطاف حسین کو اگر مرکزی اور کرشماتی حیثیت حاصل رہی، تو اس میں بلا مبالغہ دائیں اور بائیں ان کے دو بازو سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق اور چیئرمین عظیم احمد طارق تھے۔ اول الذکر اِن سے سات سال چھوٹے، جب کہ موخر الذکر ان سے نو سال بڑے تھے۔ اگر غور کیا جائے، تو ان تینوں شخصیات میں کافی مختلف لوازمات اور جہتیں پائی گئیں، جو ایک ساتھ مل کر ان کی تحریک میں ایک توازن اور حکمت تشکیل کرتیں کہ ’ایم کیو ایم‘ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخ رقم کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر عمران فاروق نے بہت بڑے پیمانے پر ’ایم کیو ایم‘ کا تنظیمی اور نظریاتی کام کا بیڑا اٹھایا۔ ’ایم کیو ایم‘ کے کارکنان کا نظم وضبط، اصول وقواعد، قیادت سے وفاداری اور اختلاف سے لے کر سیاسی جدوجہد اور تاریخی سوالات تک ہر چیز کا احاطہ ڈاکٹر عمران فاروق نے اپنے قلم سے خوب کیا اور پھر یہ ’کتاب چے‘ کارکنان کو تربیت کے لیے فراہم کیے جاتے۔

1988ءکے عام انتخابات میں ’ایم کیو ایم‘ نے کراچی اور حیدرآباد میں کام یابی حاصل کی، تو یہ تجویز بھی ڈاکٹر عمران فاروق ہی کی تھی کہ اِن کے نومنتخب قومی وصوبائی ارکان اسمبلی کرتا پاجامہ، واسکٹ اور سلیم شاہی جوتی پہن کر اجلاس میں جائیں، تاکہ منتخب ایوان میں پانچویں قومیت کا ایک تشخص اجاگر ہو۔ پھر اسمبلی میں منفرد اندازِ خطابت اور موقع محل کی مناسبت سے اشعار ان کی گفتگو کا خاصہ رہا، جو ہمیں بہت سے دیگر ارکان میں بھی دکھائی دیا۔ کہتے ہیں کہ الطاف حسین سے حلف وفاداری اور ’قائد پر اندھا اعتماد‘ جیسے اصولوں کی وضع کاری بھی ڈاکٹر عمران فاروق کے ذہن کی رہین منت تھی۔ تنظیمی راہ نمائی کے لیے لکھا گیا ایک کتاب چہ ’نظم وضبط کے تقاضے‘ اکتوبر 1986ءمیں شائع ہوا اور یہ اب بھی ’ریختہ‘ کی ویب سائٹ پر دست یاب ہے۔ اس میں بھی ’قیادت پر اندھا اعتماد‘ کا سبق موجود ہے۔

٭ جب ان کے سر کی قیمت مقرر کی گئی!
جون 1992ءمیں ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران حکومت کی جانب سے انھیں اشتہاری ملزم قرار دے کر ان کے سر کی قیمت سات لاکھ روپے مقرر کی گئی، جسے ان کی والدہ رئیسہ فاروق نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اُسے جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس شوکت حسین زبیدی نے غیر آئینی قرار دیا، جسے پھر حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا تھا۔ ایسے ہی ’ایم کیو ایم‘ وائس چیئرمین سلیم شہزاد کے سر کی قیمت بھی مقرر کی گئی تھی۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کے نہایت منفرد اور عجیب وغریب واقعات ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کو اشتہاری ملزم قرار دینے کا پوسٹر یا اشتہار اب بھی انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے، جس میں عمران فاروق کو بدنام زمانہ دہشت گرد قرار دے کر ان کی زندہ یا مردہ برآمدگی پر 7 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

٭ سات سالہ روپوشی
1992ءسے 1999ءتک کا عرصہ ڈاکٹر عمران فاروق نے مکمل روپوشی میں گزارا۔ اس دوران وہ کہاں رہے، کیسے رہے اور کیا کرتے رہے؟ اس حوالے سے انھوں نے کبھی لب کشائی نہیں کی۔ اس وقت کے ’ایم کیو ایم‘ بہت سے سینئر اور روپوشی گزارنے والے لوگ بھی ’ایم کیو ایم‘ کی سرگرمیوں میں ان کے مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں بات تو کرتے ہیں، لیکن انھیں اس کا یقین نہیں تھا، کیوں کہ عمران فاروق نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا اور غالباً جولائی 1999ءمیں جب وہ اچانک لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کے موقع پر منظر عام پر آئے، تو یہاں سے وہاں تک ایک حیرانی پھیلی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ایک حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ نتظیمی حوالے سے بے شمار چیزیں لکھنے والے عمران فاروق نے اِس سات سالہ روپوشی یا جدوجہد کے حوالے سے کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی؟ یہ ایک پراَسرار سی بات لگتی ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ اُن کی روپوشی کو ’ایجنسیوں کی تحویل‘ بھی قرار دیتے ہیں کہ تبھی وہ اتنے محفوظ طریقے سے لندن پہنچنے میں کام یاب ہو گئے، جب کہ ایک بڑی تعداد اس کے برعکس ان کی روپوشی کو تحریکی مشن کے طور پر سمجھتی ہے۔ کچھ ناقدین نے انھیں انڈر گراﺅنڈ رہ کر ’گوریلا وار‘ کرنے کا ماہر بھی قرار دیا۔

٭ روپوشی میں ’ایم کیو ایم‘ کے نشیب وفراز
1992ءکا فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین اِس سے چھے ماہ پہلے لندن جا کر سیاسی پناہ کی درخواست کرچکے تھے، آپریشن شروع ہوتے ہی ’ایم کیو ایم‘ کی ساری قیادت اور کارکنان روپوش ہوگئے۔ پھر 1993ءمیں اسمبلیاں ٹوٹیں، تو ’ایم کیو ایم‘ کو وقتی طور پر کچھ آزادی میسر ہوسکی، 1995ءمیں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کا ایک اور بدترین آپریشن شروع ہوگیا۔ 1996ءمیں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد ایک بار پھر ’ایم کیو ایم‘ کو سانس لینے کا موقع ملا تو نواز شریف کے دوسرے دور میں یہ سلسلہ اکتوبر 1998ءتک جاری رہا، حکیم محمد سعید کے قتل کے الزام کے بعد ایک بار پھر ’ایم کیو ایم‘ عتاب میں تھی، اس موقعے پر ’ایم کیو ایم‘ پر فوجی عدالتوں کا گھاﺅ بھی لگایا گیا، اگرچہ سپریم کورٹ نے یہ عدالتیں ختم کرا دیں، لیکن ’ایم کیو ایم‘ کے لیے آزادانہ سرگرمیوں کی گنجائش اب بھی خاطرخواہ طور پر موجود نہ تھی۔ اس موقعے پر لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق منظر عام پر آگئے۔ اس وقت ان کی داڑھی اور مونچھیں تھیں اور وہ پہچانے بھی نہیں جا رہے تھے،

اس کے بعد وہ کلین شیو ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کی صرف مونچھیں ہوا کرتی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ انھوں نے روپوشی کے دوران کراچی میں ’ایم کیو ایم‘ کو سنبھالے رکھا، اس حوالے سے ڈاکٹر عشرت العباد کا نام بھی ان کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف 1992ءکے فوجی آپریشن اور ایم کیو ایم ’حقیقی‘ کے قیام کے کچھ ماہ بعد ’ایم کیو ایم‘ کے چیئرمین عظیم احمد طارق منظر عام پر آگئے تھے، اور انھوں نے ’ایم کیو ایم‘ کی قیادت سنبھال لی تھی، جس کی اگرچہ لندن سے الطاف حسین نے توثیق بھی کی، لیکن پھر بھی ’ایم کیو ایم‘ کے جو لوگ عظیم طارق کے پاس جا رہے تھے، وہ ’الطاف گروپ‘ سے الگ تصور ہو رہے تھے، پھر چند ماہ بعد انھوں نے قیادت دوبارہ الطاف حسین کو واپس کردی تھی۔ اسی اثنا میں یکم مئی 1993ءکو عظیم طارق کو فیڈرل بی ایریا میں اپنے سسرال میں خواب گاہ گھس کر قتل کر دیا گیا۔ پھر جس طرح ان کی نماز جنازہ اور تدفین تک کے معاملات ’ایم کیو ایم‘ (حقیقی) کے قبضے میں رہے، وہ بھی ایک تاریخ ہے۔ عظیم احمد طارق کے بعد 1995ءمیں ’ایم کیو ایم‘ کے فنانس سیکریٹری ایس ایم طارق کو بھی کراچی میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ پھر 1997ءمیں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کو ’متحدہ قومی موومنٹ‘ میں بدل دیا گیا۔ یہ سارے معاملات ڈاکٹر عمران فاروق کی روپوشی کے دوران ہوتے رہے۔ عمران فاروق جب منظر سے غائب ہوئے، تو ایم کیو ایم کے ’سیکریٹری جنرل‘ تھے، لیکن آپریشن شروع ہوا، تو الطاف حسین نے سارے تنظیمی عہدے تحلیل کر کے ایک ’رابطہ کمیٹی‘ تشکیل دی، جس میں ’کنوینیر‘ اور ’ڈپٹی کنوینیر‘ کے عہدے بنا کر تنطیمی معاملات چلائے گئے۔ لہٰذا 1999ءمیں جب ڈاکٹر عمران فاروق لندن پہنچے، تو الطاف حسین نے انھیں ’ایم کیو ایم‘ کا ’کنوینیر‘ بنا دیا۔

٭ ’کنوینیر‘کے عہدے سے بار بار معطلی وبحالی
ڈاکٹر عمران فاروق تین سے چار مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ کے ’کنوینیر‘ کے عہدے سے معطل کیے گئے۔ جس میں پہلا موقع نومبر 2002ءکا ہے، عام انتخابات کے بعد جب ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر سندھ نام زَد کیا گیا، تب ان کا عہدہ ’کنوینیر‘ کا بتایا جاتا تھا۔ اس موقع پر لندن سے ان کی روانگی کی تصویر میں دیگر مرکزی راہ نما موجود ہیں، لیکن ڈاکٹر عمران فاروق نہیں ہیں۔ تاہم وہ جلد ہی اپنے عہدے پر بحال ہوگئے، اس کے بعد 2005ءکے زمانے میں ان کے منظر سے پرے ہونے کی بنا پر ایسی افواہیں بھی سامنے آئیں، جس میں یہ کہا گیا کہ ڈاکٹر عمران فاروق ’ایم کیو ایم‘ کی قیادت سنبھال لیں گے، اس کے ردعمل میں کراچی بھر کی دیواروں پر ’قائد صرف الطاف‘ اور ’اپنا قائد صرف الطاف‘ کی بھرپور چاکنگ کر دی گئی، پھر ڈاکٹر عمران فاروق نے بھی الطاف حسین سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔

ان کی تیسری معطلی کا عرصہ 2007ءکا ہے۔ 12مئی کے تصادم کی وجہ سے ’ایم کیو ایم‘ کے لیے ایک مشکل دور شروع ہو رہا تھا۔ بارہ مئی کے واقعات کے بعد لندن سے ڈاکٹر عمران فاروق نے ’ایم کیو ایم‘ کے موقف کو نجی چینلوں پر بیان کیا۔ 2008ءمیں وہ ایک بار پھر ’کنوینیر‘ کے طور پر فعال تھے اور کراچی میں تنظیمی معاملات کو براہ راست اپنی نگرانی میں چلا رہے تھے۔ انتخابی امیدواروں کے لندن سے ’آن لائن‘ انٹرویو اور ان کی حتمی فہرست کی تیاری میں ان کا کردار کلیدی ہوتا۔ اس عرصے میں انھوں نے ’جنگ‘ اخبار کے لیے محمود شام کو بہ ذریعہ ٹیلی فون ایک مفصل انٹرویو بھی دیا، جس میں یہ بتایا کہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے پنجاب کے ہر ضلعے میں دفاتر قائم ہو چکے ہیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی 2009ءیا 2010ءمیں ان کی چوتھی مرتبہ معطلی ہوگئی، جو بدقسمتی سے آخری ثابت ہوئی۔
ممتاز صحافی مظہر عباس نے 2020ءمیں اپنے ایک مضمون میں اپنے ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا کہ الطاف حسین انھیں ایک بار پھر متحدہ کا ’کنوینیر‘ بنانا چاہتے تھے، لیکن انھوں نے منع کر دیا تھا۔ وہ الطاف حسین کے وفادار تھے، لیکن اب تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے رضا مند نہیں ہو رہے تھے، نیز ان کے الطاف حسین سے اختلافات کی وجہ تنظیمی اختیارات کے استعمال کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام تھا۔ ایک دوسرے مضمون میں مظہر عباس نے یہ بھی لکھا کہ تنظیم میں نظم وضبط کے مسائل بھی ڈاکٹر صاحب کی معطلی کی وجہ بنے، یہاں سے لوگ تنظیمی معاملات کے لیے اُن سے اجازت لینے کے لیے فون کرتے اور وہ اپنی مصروفیت کے سبب دفتر میں موجود نہیں ہوتے تھے۔
1999ءڈاکٹر عمران فاروق کے کچھ روز بعد ’ایم کیو ایم‘ کے سابق وائس چیئرمین سلیم شہزاد (مرحوم) بھی لندن پہنچ گئے تھے اور پھر وہ بھی ’لندن رابطہ کمیٹی‘ کے ایک فعال رکن کے طور پر دکھائی دیتے۔ تاہم انھیں بھی ایک سے زائد بار معطلی اور بحالی سہنا پڑی۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے موقعے پر وہ الطاف حسین کو دلاسا دینے والوں میں نمایاں نظر آتے ہیں، لیکن اس کے بعد ہونے والی معطلی کے بعد وہ تنظیمی عہدے پر بحال نہ ہو سکے، اگرچہ وہ اس کے بعد الطاف حسین سے ملاقات کی تصاویر ’سوشل میڈیا‘ پر لگاتے رہے اور ان کے لیے مختلف انٹرویو میں نیک کلمات کا اظہار بھی کرتے رہے۔

٭ ڈاکٹر عمران فاروق کی شادی
2004ءمیں ڈاکٹر عمران فاروق لندن میں ’ایم کیو ایم‘ کی اس وقت کی رکن سندھ اسمبلی شمائلہ نذر سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ الطاف حسین نے بھی 2001ءمیں فائزہ گبول سے شادی کی، جو 2007ءمیں ان کی علاحدگی پر منتج ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی افضا الطاف ہے۔

٭ قتل کا واقعہ اور الزامات
16 اور 17ستمبر 2010ءکی درمیانی رات حسب روایت ’نائن زیرو‘ پر الطاف حسین کی سال گرہ کی مناسبت سے جشن عروج پر تھا، ہزاروں کارکنان ’ایم کیو ایم‘ کے مرکز پر موجود تھے، الطاف حیسن کے خطاب کا انتظار تھا، کہ اس سے پہلے ہی لندن دفتر سے کارکنان کو گھروں کو جانے کا کہہ دیا گیا، پتا چلا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ لندن میں معمول کے مطابق اپنے گھر کی طرف آ رہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے دو قاتلوں نے انھیں چُھری اور اینٹ کے وار سے قتل کر دیا اور موقع واردات سے فرار بھی ہوگئے۔
عمران فاروق کے قتل کی اطلاع کے بعد ہر طرف فضا سوگورا ہوگئی، تو دوسری طرف اسی وقت ’امت‘ اخبار نے اِسے ’ایم کیو ایم کے معطل رہنما کا قتل‘ کی سرخی سے ایک الگ رنگ دے دیا، یعنی کہ جیسے یہ بات کہی جاتی ہے کہ الطاف حسین اپنے لوگوں کو خود ہی مروا دیتے ہیں۔ جو بھی اُن کی جگہ لینا چاہے، ان کی قیادت کے لیے خطرہ بنے یا پھر ان سے اختلاف کرے! اس سے پہلے روزنامہ ’جنگ‘ کے شام کے اخبار ’عوام‘ میں ’ایم کیو ایم‘ کے گرفتار کارکن صولت مرزا کے حوالے سے یہ بیان شائع ہوا تھا کہ ’الطاف حسین نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بلوچستان میں مروا دیا‘ لیکن اس کے بعد عمران فاروق منظر عام پر آگئے تھے اور یہ الزام غلط ثابت ہوگیا تھا۔
لندن میں بھی الطاف حسین سے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے تفیش کی گئی، تو ان کے گھر سے بڑی تعداد میں نقد کرنسی برآمد ہوگئی، جس پر انھیں منی لانڈرنگ کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے ملزمان گرفتار ہوئے اور مقدمہ چلا، جس کا فیصلہ 18 جون 2020ءکو سنایا گیا، جس کے مطابق ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے ملزمان کو کہا گیا کہ الطاف حسین نے عمران فاروق نے قتل کرنے کا کہا تھا۔ اس بنیاد پر عدالت کی جانب سے انھیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس سزا کے بعد ’جیو نیوز‘ پر شاہ زیب خان زادہ نے ڈاکٹر عمران فاروق کی شریک حیات شمائلہ عمران سے بہ ذریعہ ویڈیو بات کی، جس میں انھوں نے عمران فاروق کے قتل کے عدالتی فیصلے پر اطمیمنان کا اظہار کیا، لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ وہ اس گفتگو میں حسب سابق اس موقف کا اعادہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عمران فاروق کوئی الگ سیاسی جماعت یا سیاسی گروپ نہیں بنا رہے تھے، یہی نہیں شمائلہ عمران نے الطاف حسین کو بھی ’بھائی‘ کے لاحقے کے ساتھ پکارا۔ اس موقع پر شاہ زیب خان زادہ نے نہ جانے کیوں ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ایک طرف وہ عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں، جس کے مطابق اس قتل میں الطاف حسین ملوث ہیں، دوسری طرف آپ اسی الطاف حسین کو بھائی بھی کہہ رہی ہیں؟
عمران فاروق کے قتل کے بعد ان کی ایک ڈائری کا ذکر کیا جاتا ہے، جس میں انھوں نے خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو کسی نقصان کی صورت میں ’ایم کیو ایم‘ کے لوگوں کو اس کا ممکنہ ذمہ دار بتایا، لیکن اس میں انھوں نے کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔ شمائلہ عمران سے بھی کبھی اس حوالے سے سوال نہیں کیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کا اس سے پہلے کوئی بھی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا، اپنی پہلی ہی واردات لندن جیسے شہر میں کرنا اور چھُری اور اینٹ جیسے ہتھیاروں سے بالکل صفائی سے قتل کر دینے کے بعد کام یابی سے فرار ہو جانا بہت زیادہ عجیب سی بات لگتی ہے۔ کوئی شخص ایک مرغی کو بھی اتنی مہارت سے ذبح کرکے نہیں نکل سکتا، جیسے وہ ایک جیتے جاگتے انسان کو مار کے نکل گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب بھی بہت سی چیزیں ہیں جو پردہ اِخفا میں ہیں۔

٭ عمران فاروق کے اہل خانہ
ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوی بچے اب بھی لندن میں مقیم ہیں، شمائلہ عمران اپنے شوہر کے قتل کے بعد 2016ءتک تو ’ایم کیو ایم‘ کے لندن سیکریٹریٹ میں جوش وخروش کے ساتھ دیکھی جاتی رہیں، اس کے بعد 22 اگست 2016ءکو کراچی میں موجود تنظیم کی ’لندن رابطہ کمیٹی‘ سے علاحدگی کے بعد وہاں بھی بہت سے اہم راہ نما الطاف حسین سے الگ ہوتے گئے، وہاں شمائلہ عمران بھی پس منظر میں چلی گئیں۔ اس کے بعد پتا چلا کہ وہ کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں اور شدید کس مُپرسی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ’ایم کیو ایم‘ کی جائیداد میں سے انھیں رہنے کے لیے گھر دینے کی بات بھی سابق ارکان رابطہ کمیٹی محمد انور اور طارق میر کے گروپ، الطاف حسین کے لندن گروپ اور پاکستان کے دھڑے کے درمیان تنازع کے باعث نہ بن سکی، جس کے نتیجے میں وہ لندن میں ایک نہایت خراب حالت گھر میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئیں۔
دوسری طرف کراچی میں 22 اگست 2016ءکے بعد ڈاکٹر عمران فاروق کے والدین کبھی کبھار ایم کیو ایم (بہادر آباد گروپ) کی تقاریب میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عمران فاروق کی موت کے بعد ان کا اپنی بہو اور دونوں پوتوں سے کوئی رابطہ یا تعلق موجود نہیں رہا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی روپوشی کے دوران ان کے والد محمد فاروق کو انتخابی ٹکٹ دیا گیا تھا، جو ’ایم کیو ایم‘ میں موروثی امیدواروں کی چند ایک ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے۔ تاہم ’بہادر آباد گروپ‘ کی ایک تقریب کے دوران چشم فلک نے یہ افسوس ناک منظر بھی دیکھا کہ جب ایک تقریب میں ’ایم کیو ایم‘ بہادر آباد کے کنوینیر عامر خان، ڈاکٹر عمران فاروق کے بوڑھے والد کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو یک سر نظرانداز کر کے آگے بڑھ گئے تھے اور انھوں نے مصافحہ کرنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔ واضح رہے عامر خان 1992ءمیں آفاق احمد، بدر اقبال اور منصور چاچا وغیرہ کے ساتھ ’ایم کیو ایم‘ کے منحرف گروپ ’حقیقی‘ کا حصہ رہے اور پھر 2011ءمیں جب وہ ’متحدہ‘ میں شامل ہوئے تو ڈاکٹر عمران فاروق اس دنیا میں نہیں رہے تے۔ جولائی 2019ءمیں ڈاکٹر عمران فاروق کے والد محمد فاروق اور جنوری 2025ءمیں انکی والدہ رئیسہ فاروق انتقال کرگئیں۔

٭عمران فاروق، کراچی کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ
طب کے شعبے سے 24 برس کی عمر میں عملی سیاست میں آ جانا، 32 سال کی عمر میں سات برس کے لیے روپوش ہونا، پھر تشدد کے الزامات اور دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات سہنا، بدنام زمانہ مجرموں کی طرح اشتہاری مجرم قرار دے کر سر کی قیمت تک مقرر کیے جانا۔ 39 سال کی عمر میں ہمیشہ کی جلاوطنی اور فقط 50 برس کی عمر میں بے دردی سے قتل ہو جانا۔ اِس مختصر سی زندگی کے یہ نشیب وفراز ایک ’ایم بی بی ایس‘ ڈاکٹر کو ہماری سیاست میں ایک مختلف اور منفرد مقام پر فائز کرتے ہیں۔ جب بھی کراچی کی سیاسی تاریخ قلم بند کی جائے گی، مورخ ڈاکٹر عمران فاروق کے کردار سے سرسری نہیں گزر سکے گا کہ ایک ایسا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین سیاسی راہ نما جو 32 سال کی عمر کے بعد شاید کبھی اپنے گھر نہ جا سکا اور 18 سال بعد وہ اپنے شہر آیا تو صرف دفن ہونے کے لیے!
دوسری طرف ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ’ایم کیو ایم‘ کی تنظیمی تاریخ کا دوسرا سب سے تاریک واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے، یہ بالکل چیئرمین عظیم احمد طارق جیسی شخصیت جیسا ایک خلا تھا، جسے ’ایم کیو ایم‘ دوبارہ کبھی پُر نہیں کر پائی۔ کراچی میں صحیح معنوں میں نواجوانوں اور متوسط طبقے کی جدوجہد، مہاجر شناخت اور مہاجر حقوق کی جدوجہد میں اگر کردار کا مرکزی سنگھاسن الطاف حسین کو دیا جائے گا، تو الطاف حسین بھی عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق کے بغیر قطعی نامکمل ہی رہیں گے۔ بہت سے تجزیہ کار 1992ءکے بدترین فوجی آپریشن اور پے درپے کارروائیوں کے باوجود ’ایم کیو ایم‘ کے سہار جانے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے کردار کو مرکزی قرار دیتے ہیں۔ عمران فاروق کے قتل سے ’ایم کیو ایم‘ ایک سچے، مخلص اور ذہین راہ نما سے محروم ہوئی اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اس کا نقصان الطاف حسین اور ’ایم کیو ایم‘ دونوں کو ہی ہوا۔

2010ءمیں عمران فاروق کے قتل کے بعد ’ایم کیو ایم‘ مختلف بحرانوں میں گھرتی چلی گئی اور بالآخر 1992ءمیں ناممکن رہ جانے والا ’مائنس الطاف حسین‘ فارمولا 2016ءپایہ تکمیل کو پہنچا۔ ’ایم کیو ایم‘ میں الطاف حسین کے وفاداروں میں ڈاکٹر عمران فاروق سے نصف قابلیت کا بھی کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا۔ سینئر راہ نماﺅں کی وفات اور غیر فعال ہونے کے بعد آج اس تنظیم میں اگر کوئی فرق دکھائی دے رہا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ فرق ڈاکٹر عمران فاروق ہی ہیں۔

(ختم شد)
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights