(تحریر: سعد احمد)
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں منہ سے جھاگ کیا اڑائے دیرینہ جیالے اور صحافی اور تجزیہ کہلانے والے درباری واہ واہ کے ڈونگرے برسانے پہنچ گئے۔
مرتضیٰ وہاب اگرچہ میئر ابھی بنے ہوں گے، لیکن وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے نمائندے ہیں جو 17-18 سال سے اس صوبے میں بھرپور اختیارات کی مالک ہے۔ جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کے سیاہ وسفید کی مالک ہے۔ اس کا میئر مرتضیٰ وہاب اگر کوئی بات کرتا ہے تو اس کے پاس بات کرنے کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ وہ کیا کہے؟ کس پر الزام لگائے؟ کہاں کہاں اگر مگر چوں چاں کرتا رہے؟
کس پر الزام لگائے، وزیراعلیٰ کو کچھ کہے؟ حکم راں جماعت تو وہ خود ہے؟ ایم کیو ایم تو ہاتھ پائوں باندھ کر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی کی ٹھوکروں میں پھینک دی ہے۔ ایک ایسا شہر جس پر حکم رانی خواب دیکھتے دیکھتے بھٹو ہی نہیں بے نظیر بھی مرگئیں۔ آج وہاں اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے من مانیوں کا موقع بھی ہاتھ لگا ہوا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے میئر کے امیدوار کی اکثریت کے باوجود اس کا میئر نہیں آنے دیا جاتا، مضافاتی اور دیہی علاقوں کو شہرمیں ضم کردیا جاتا ہے۔ شہر میں مہاجر اکثریت کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا جگہ ہے جہاں پیپلزپارٹی کراچی میں اپنے جھنڈے نہیں گاڑ سکتی۔
ضلع وسطی اور حسین آباد تک میں پیلپزپارٹی کی تصویریں اور جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور شہر کھنڈر بن چکا ہے۔ کھنڈر بھی شاید بہتر ہوگا، جو حال شہر کا ہے، لیکن بڈھے صحافی آج بھی بھٹو بھٹو کرتے پھرتے ہیں۔ سو ذکر ہو رہا تھا مرتضی وہاب کے عذرِ لنگ کا۔ سو وہ تو وکیل ہیں، بیرسٹر ہیں، کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، پھر پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں تو ڈھٹائی تو پہلے سے ہی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ 126 سڑکیں صرف کے ایم سی کے پاس ہیں، باقی ٹائون کی فلاں کی اور فلاں کی۔ اس لیے میں کیا کروں؟
تو کیا ٹائون پر ان کی پارٹی کی صوبائی حکومت نہیں ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ چوں کہ ان کو الزام لگانا ہے تو اس وقت چوں کہ وفاق میں ان کی حکومت نہیں ہے، اس لیے راگ الاپنے کے لیے وہ وفاق کو مورود الزام ٹھیراتے ہیں۔ یعنی 18 ویں ترمیم کے بعد جب سندھ کو 18 سال سے دبا کر مال مل رہا ہے، اس میں سے وہ کراچی کو کیا دے رہا ہے؟
اس کا جواب دینے کے بہ جائے جیسے شرجیل میمن ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہمارا اتنا بجٹ کراچی پر لگ رہا ہے اور اتنا لگ رہا ہے وغیرہ ۔ ایسے مرتضیٰ وہاب بھی کہہ رہے ہیں کہ وفاق پیسے دے۔ جیسے حکومت سندھ کنگال ہے!
وہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو بھی طعنے دیتے ہیں کہ وفاق سے پیسے لائو۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گورنر تو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے جو صدر نام زد کرتا ہے۔ سو مرتضیٰ وہاب اپنے صدر ہی سے کیوں نہیں کہتے جو ان کی پارٹی کے مالک بھی ہیں۔ عجیب بے تکی ہانکتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ مرتضیٰ وہاب فرماتے ہیں کہ بلدیہ کراچی کے لیے وفاق فلاں چیز دے فلاں پیسہ دے فلاں کام کرائے فلاں کرائے۔ (جب کہ کریم آباد انڈر پاس سے لے کر یونیورسٹی روڈ کی کئی برس سے ہوئی کھدائی پر کوئی توجہ نہیں ہے) یہاں سوال یہ ہے کہ جب سندھ میں ان کی 18 سال سے قائم حکومت اپنے صوبائی دارالحکومت کراچی کے لیے پائی پیسہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ روتے ہیں کہ بلدیہ کے پاس فلاں سڑک نہیں فلاں سڑک نہیں۔ تو جب سندھ کراچی کو اپنا حصہ کہنے کے باوجود کچھ نہیں دے رہا تو ایسے میں وفاق کیوں کراچی کے لیے دے سکتا ہے، اگر سندھ کراچی کے لیے خرچ کرے تو کوئی بات بنتی ہے۔
لاہور اور پنجاب بھر میں تو سب صوبائی حکومت کر رہی ہے، لیکن سندھ کراچی کے وسائل پر وفاقی ناسور بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ کراچی کے بڈھے اور نام نہاد جیالے صحافی عمر کے آخری حصے میں اپنے شہر کے لیے منہ کھولیں گے؟
۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
مرتضیٰ وہاب! جب سندھ، کراچی کو کچھ نہیں دے رہا تو وفاق کیسے؟
