Categories
Exclusive MQM Rizwan Tahir Mubeen انور مقصود ایم کیو ایم پیپلز پارٹی رضوان طاہر مبین سندھ قومی تاریخ کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

کیا مہاجر سیاست نے نقصان پہنچایا؟

انور مقصود سے مظہر عباس تک!

تحریر: رضوان طاہر مبین
تجزیہ کرتے ہوئے یا اپنا نقطہ¿ نظر دیتے ہوئے کم از کم ہمیں اپنے تئیں دلائل مضبوط رکھنے چاہئیں، تاکہ ہماری بات میں وزن پیدا ہو، ورنہ ہماری تحریر غیر متوازن اور یک طرفہ شمار ہوتی ہے۔ گذشتہ دنوں ہمارے استاد اور نہایت سینئر صحافی جناب مظہر عباس نے ایک بار پھر ’ایم کیو ایم‘ کے حوالے سے ایک ’کالم‘ رقم فرمایا، جس کا عنوان ”مہاجر سیاست کے نقصانات“ تھا۔ سب کی اپنی اپنی رائے ہے، ممکن ہے جناب مظہر عباس صاحب اسی نتیجے پر پہنچے ہوں، لیکن جب ہم ان کا ’کالم‘ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو افسوس ہوا کہ انھوں نے تصویر کا ایک رخ ہی دکھایا اور وہ بھی غیر متوقع طور پر اتنا غیر متوازن اور پروپیگنڈے کا شکار نظر آیا کہ خیال گزرتا ہے کہ کہیں یہ کسی اور کی تحریر تو نہیں، جو سہواً ان کے نام سے شایع ہوگئی۔ ورنہ مظہر عباس تو کراچی کی سیاست کے حوالے سے اپنے منفرد، متوازن، مدلل اور گہرے نقطہ نظر کے باعث ہی جانے جاتے ہیں۔
پہلے تو ہم عنوان ہی کی بات کر لیتے ہیں، کیوں کہ اس کے مطابق مہاجر سیاست کے صرف ’نقصانات‘ ہی ملے ہیں۔ اگر ان کی یہ رائے ہے تو ہمیں بھی ’ناقص‘ ہی سہی، لیکن اپنی رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں تو یہ امر ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے کسی کو حق مانگنے کے جواب میں کسی ظلم کا شکار ہونا پڑے، تو آپ ظالم کی طرف سے پیٹھ کر کے الٹا حق مانگنے والوں ہی کو مورود الزام ٹھیرا دیں، بقول قتیل شفائی
گھر والوں کی غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
زیادہ دن نہیں گزرے ہماری قوم کی ہر دل عزیز شخصیت جناب انور مقصود نے بھی کچھ یہی کلمات ادا کیے تھے کہ ’مہاجر سیاست کی وجہ سے ہمیں نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے!‘ اور اب بالکل یہی بات مظہر عباس نے اپنے کالم میں بھی لکھی ہے۔ تو صاحب، پھر اس اصول کے تحت کراچی میں ڈکیتوں سے مزاحمت کرنے والے ہی اصل قصور وار ہیں، کیوں کہ اگر وہ مزاحمت نہ کریں، تو کون لٹیرا اتنا ”سنگ دل“ ہوگا کہ چار، چھے ہزارے کے موبائل کے پیچھے کسی ماں باپ کا اکلوتا جوان بیٹا مار دے!
اگر مظہر صاحب ’مہذب دنیا‘ کا مسلمہ حق، انصاف مانگنا جرم سمجھتے ہیں، تو پھر کشمیر سے لے کر فلسطین تک سبھی مظلوم ایسے ہی ’خسارے‘ سمیٹ رہے ہیں۔ تو پھر آپ نہ لکھا کیجیے کبھی اس ملک کے مظلوم لوگوں کے لیے، کیوں کہ وہ سب تو آپ کے اس نقطہ¿ نظر کے حساب سے خود ہی سارے ”نقصانات“ کے ذمہ دار ہیں اگر وہ اپنے سیاسی آزادی اور انسانی حقوق سے دست بردار ہو جائیں تو اس ملک کیا دنیا کا کوئی ظالم اتنا ’پتھر دل‘ نہیں کہ کسی کو ’لاپاتا‘ کر دے یا اس پر کوئی ظلم وزیادتی کرے!
بہت احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ عنوان کے پہلے لفظ ہی آپ نے اس ملک کی ایک قوم کا حق انصاف، حق شناخت اور حق جدوجہد کو کچلنے کا سنگین ظلم فرمایا ہے! آپ کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ آپ کسی کے بنیادی حقوق کے اگر وکیل نہ بن سکیں، انھی کے شہر میں رہتے ہوئے ان پر جاری مظالم پر مجموعی طور پر بھی کوئی بات نہ لکھ سکیں، تو الٹا ان ’مرے ہوئے لوگوں‘ کی موت پر اس طرح کے سنگین مذاق فرمائیں کہ بہ یک جنبش قلم انھی کی جدوجہد کو مورودِ الزام ٹھیرا دیں!
مظہر عباس کا یہ کالم کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے:
”مہاجر سیاست‘ کے جو نقصانات ان 76 سال میں خود اردو بولنے والوں کو ہوئے، چاہے وہ سیاست ’کراچی صوبہ‘ کے نام پر ہوئی، مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ہوئی یا پھر مہاجروں یا اردو بولنے والوں کی اپنی جماعت بنا کر ہوئی اس کا تو شاید اب ازالہ بھی ممکن نہیں، اگر یقین نہیں تو ٹھنڈے مزاج سے صرف ان چالیس سال کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوائے معذرت کے ساتھ ’قبرستان‘ ہی آباد ہوئے، نہ نوکریاں، نہ داخلے، تعلیم اور قلم جو اصل میں اردو بولنے والوں کا اثاثہ تھا۔ کچھ ’بڑوں‘ کی سیاست کی نذر ہو گیا کچھ اپنوں کی اور ہاتھ میں ہتھیار آگیا، جس نے صرف مقتولوں کی فہرست میں اضافہ کیا اور جس کا شکار ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق بھی ہوئے اور بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق سمیت ہزاروں کارکن۔“
قبلہ مظہر عباس صاحب!
آپ کیسے کسی بھی قوم سے اس کے حقِ صوبہ اور حقِ شناخت چھین سکتے ہیں؟ کس طرح اس بنیادی حق کے لیے اس کی جدوجہد اور اس کے لیے جدوجہد کے حق کو روند سکتے ہیں؟ آپ کہیں گے، آپ نے ایسا نہیں کیا، ہاں، لیکن آپ کے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ بالواسطہ اس قوم پر ظلم کے لیے عذر تراش رہے ہیں اور ’مہاجر سیاست‘ جسے بوجوہ آپ خود پسند نہیں کرتے، اس کے خلاف ہی رائے عامہ ہم وار کرنا چاہتے ہیں، ورنہ کسی متوازن رائے میں تو آپ کو تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اگر یہ قوم اپنی شناخت کے لیے الگ صوبے تک کے لیے بھی کوئی جدوجہد کرتی ہے، تو یہ اس کا آئینی اور قانونی حق ہے، لیکن اس کے اس اصولی اور بنیادی حق کو دبایا جا رہا ہے۔ لیکن نہ بابا، آپ تو ظالموں کی طرف سے انتہائی یک طرفہ بات کر کے الٹا مرنے والوں ہی کو قصور وار بتا رہے ہیں۔ کاش، آپ یہ تجزیہ کرتے کہ 40 سال کی سیاست میں قبرستان آباد ہوئے، ہتھیار آئے اور صرف مقتولوں کی فہرست میں اضافہ ہوا، تو اس کے قصور وار کون کون تھے؟ ریاست نے کہاں مداخلت کی؟ اسٹیبلشمنٹ نے کہاں ظلم کیا اور خود ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے کہاں پر چُوک ہوئی یا نقصان ہوا؟ لیکن افسوس آپ پہلے لفظ ہی سے بہت عجیب طریقے سے یک طرفہ بہاﺅ ہی میں بہتے چلے گئے۔
آپ اگلے پیرے میں لکھتے ہیں کہ ”1988ءکے عام انتخابات میں بے مثل سیاسی کام یابی ملی جس کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جاتا تو شاید آج واقعی متحدہ متحد ہوتی مگر اس ’طاقت‘ نے یا معذرت کے ساتھ طاقت کے نشے نے نشیمن اجاڑ دیے۔“
مظہر عباس صاحب!
کیسے طاقت کے نشے میں؟ معذرت کے ساتھ ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ کے پاس کوئی خاص قسم کی عینک ہے، جس میں سوائے ”ایم کیو ایم کے ظلم“ کے اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا؟ یعنی 1986 ءکے قصبہ علی گڑھ کے بدترین حملوں کو تو چھوڑیے، سانحہ سہراب گوٹھ 1986ئ، سانحہ حیدرآباد 1988ءاور سانحہ پکا قلعہ 1990ءکے واقعات سے لے کر اپنی ’مہاجر‘ سیاست کو ’متحدہ‘ کرنے کے چکر میں پارٹی میں بحران، جناح پور کے الزام میں ظالمانہ فوجی آپریشن وغیرہ آپ کو کچھ دکھائی ہی نہ دیا۔ اس لیے ”کس نے طاقت کے نشے میں نشیمن اجاڑ دیے“ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ بات درست ہے ’ایم کیو ایم طاقت کے نشے‘ میں ضرور مبتلا ہوئی، لیکن بات ایسے بھی ہرگز نہیں، جیس آپ نے اپنے کالم میں اظہار فرمائی ہے۔ یہاں بھی ہم جیسے طالب علموں کی حسرت رہی کہ آپ تھوڑا سا متوازن تجزیہ کرتے، مگر آپ کیوں کرتے، آپ کا مضمون تو ’مہاجر سیاست کے نقصانات پر ایک مختصر نوٹ‘ جو ٹھیرا۔ ایسے میں نہ کسی تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ توازن کی حاجت!
اسی پیرے میں آپ نے پیپلزپارٹی سے 1988ءکے معاہدے کا تذکرہ ضرور فرمایا۔ یہ بھی بالکل درست تھا کہ ’ایم کیو ایم‘ نے اس معاہدے کے باوجود بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ دے کر اپنی اخلاقی حیثیت کمزور کی تھی۔ لیکن کیا یہی پورا سچ ہے، اتنا سچ آپ کو پسند تھا، اس لیے آپ نے ضرور لکھا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ’ایم کیو ایم‘ نے اس معاہدے کی شکل میں ہر صورت مفاہمت کی خاطر کس طرح اپنے بنیادی ترین مطالبات سے دست برداری اختیار کی تھی۔ ایسے موقع پر ان کی لچک کو نہ سراہنا اور ایک غلطی کو نمایاں کرنا بالکل بھی انصاف نہیں، نیز آپ کو ’ایم کیو ایم‘ کے اس عمل سے ’سیاست کے گندہ‘ ہونے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے طرز عمل اور اس 50 نکاتی معاہدے پر عمل درآمد کی صورت حال طرف بھی ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے تھی۔
اسی پیرے میں آپ کے قلم کو مبینہ طور پر 1987ءمیں جماعت اسلامی کے خلاف بے نظیر کے ’ایم کیو ایم‘ سے اتحاد نہ ہونے کا غم کھاتا ہوا دکھائی دیا، کیوں کہ شاید اس سے آپ کی ’پی پی نوازی‘ اور کسی طرح ’کراچی‘ کے ’سندھ‘ میں انضمام کی راہ نکلتی تھی، آپ نے اس معاہدے کے ٹوٹنے کا غم ضرور کیا، ساتھ ہی ’ایم کیو ایم‘ کے استعمال ہونے اور بے نظیر کی حکومت ختم ہونے کا گریہ بھی فرمایا۔
اپنے اس کالم میں آپ بہت سہولت سے یہ تو لکھ رہے ہیں کہ ”جن کے کہنے پر میاں صاحب سے خفیہ معاہدہ کیا تھا انھوں نے ہی ان کے خلاف آپریشن کیا، مگر ایم کیو ایم کی قیادت نے تاریخ سے پھر بھی سبق نہ سیکھا۔“
جناب مظہر عباس، کیسا سبق؟ بدترین ریاستی آپریشن اور جبر کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بعد ’ایم کیو ایم‘ کے قائد جلاوطن، چیئرمین قتل اور جنرل سیکریٹری روپوش ہیں، لیکن اس نوجوان اور نوآموز سیاسی قیادت اور جماعت پر اس قدر بدترین صورت حال کا احساس کیے بغیر آپ بے رحمی سے انھی مار کھانے والوں سے ہی شکایت کر رہے ہیں کہ ”پھر بھی سبق نہ سیکھا؟“ یا ابواللعجب!
دل چسپ بات یہ ہے کہ ’سبق نہ سیکھنے‘ والی ان سطروں کے ساتھ ساتھ ہی آپ یہ بھی لکھتے ہیں ”پی پی پی نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ’ایم کیو ایم‘ کو ’سبق سکھانے‘ کا فیصلہ کیا اور پولیس آپریشن کی آڑ میں ’ماورائے عدالت‘ قتل کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، وہ آپریشن اس وقت ختم ہوا جب خود وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اس کا شکار ہوئے۔ بعد میں یہ پالیسی حکومت کے زوال کا باعث بنی اور 1996ءمیں ان کے اپنے صدر فاروق لغاری نے حکومت کو برطرف کر دیا۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف 1992ءکے فوجی آپریشن سے بھی بہ خوبی واقف تھے اور بے نظیر کے دوسرے دور میں ’سبق سکھانے‘ اور ’ماورائے عدالت قتل‘ کی دہشت گردی سے بھی اچھی طرح آگاہ، لیکن آپ نے اس کی مذمت کرنا، اسے برا کہنا اور اس کا الزام کسی کو دینا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ دراصل یہ سب تو ’مہاجر سیاست کے نقصانات‘ تھے۔ یعنی آپ کا کہنا ہے کہ یہ ظلم نہیں، بلکہ زیادتی تو ’مہاجر سیاست‘ شروع کرکے کی گئی تھی!
پھر آپ نے یہ رقم فرمایا کہ حکیم محمد سعید کے قتل کا الزام انتہائی جلد بازی میں ’ایم کیو ایم‘ پر لگا لیکن آج تک پتا نہیں چل سکاان کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔ گویا اس تلخ حقیقت کو آپ مانتے ہیں، لیکن اگلی ہی سانس میں کہ مُبادا قارئین کہیں ’ایم کیو ایم‘ یا مہاجر سیاست کو مظلوم یا حق بہ جانب نہ سمجھ لیں، ارشاد فرمایا:
”ایم کیو ایم کی پوری سیاست ان چار دہائیوں میں تضادات کا شکار رہی کبھی مصلحت کے ہاتھوں تو کبھی مفادات کے ہاتھوں۔ جن کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہونی چاہئے تھیں ان کے ہاتھوں میں غداری سے لے کر قتل تک کے مقدمات کی فائلیں ہیں، بس تاریخ پہ تاریخ پڑتی رہتی ہے۔ ریاست نے 1992ءسے لے کر 2013ءتک شہری علاقوں میں کوئی چار بڑے آپریشن کیے ہیں، جن کا مجموعی ہدف ’ایم کیو ایم‘ رہی۔ ایم کیو ایم کے پاس سنبھلنے کا بہترین موقع 1999ءسے 2007ءتک اس وقت تھا جب جنرل پرویز مشرف کو ضرورت تھی کسی ایسی جماعت کی۔ 2002ءمیں ایک ’خفیہ معاہدہ‘ کے تحت گورنر سندھ کے پاس ’شہری سندھ‘ کے مکمل انتظامی اختیارات آگئے تھے، وزیراعلیٰ صرف اس پر دستخط کرتے تھے، مگر اس وقت بھی ’ایم کیو ایم‘ نے نہ شہروں میں اچھے اسکول بنوائے نہ کالج البتہ کچھ پل کچھ انڈر پاس اور اس سب سے پارٹی کو بہتر سمت ملی ہی تھی کہ مشرف نے 12مئی 2007ءکو ایک بار پھر ان کو پرانی ڈگر پر ڈال دیا۔ کبھی اس کی تحقیقات غیرجانب دار کروالیں تو پتا چل جائے گا کہ اصل کردار کون کون تھے۔ اس واقعہ نے ایم کیو ایم کو ایک بار پھر 80 اور 90 کی دہائی میں دھکیل دیا۔“
پورے کالم میں یہ پیراگراف ایسا تھا کہ جس سے شاید آپ اختلاف نہیں کر سکتے، بات بالکل متوازن اور درست ہے، تاہم ’ایم کیو ایم‘ کے تضادات کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اور ڈگری والے ہاتھوں میں قتل اور غداری کے مقدمات کی فائلوں کی بات اس قدر غیر اہم ہر گز نہیں تھی کہ جتنا آپ اس سے سرسری گزر گئے۔ اس کے بعد اختتامی پیرے میں آپ لکھتے ہیں:
’22 اگست 2016ءایم کیو ایم کے لیے ایسا ہی ثابت ہوا، جیسا 9 مئی 2023ءپاکستان تحریک انصاف کے لیے۔ آج 8 سال بعد بھی وہی ایک مقدمہ پوری ’ایم کیو ایم‘ کے لیے ’لندن سے پاکستان‘ تک کافی ہے کسی پر غیرعلانیہ پابندی ہے، تو کوئی اداروں کے حکم کے تابع۔ 2018ءمیں چار سیٹیں دی گئیں اور چھے سے آٹھ لے لی گئیں اور آج 17 سیٹیں دے دی گئیں، مگر خود ’ایم کیو ایم‘ کے لاتعداد لوگوں کو یقین نہیں کہ یہ جیتی ہوئی سیٹیں ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی سینیٹ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹکٹ مل جاتا ہے، تو کبھی فیصل واوڈا کو۔ اس وقت تو فروغ بھائی کو یہ اپنا نہیں ماننے کو تیار تھے اب بھی سنا ہے پارٹی تقسیم ہے۔ اب ’ایم کیو ایم‘ کے دوست لندن سے پاکستان تک اور بہادرآباد سے لانڈھی تک، خود ہی جائزہ لے لیں کہ یوم تاسیس منایا جائے یا ’چالیسواں‘۔ ناظم آباد اور لیاقت آباد سے جنم لینے والی متوسط طبقہ کی اس جماعت نے ان سالوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ ماسوائے رسوائی کے تو ضرور بتائیے گا۔“
ہم یہاں صرف اس کی پہلی سطر کے حوالے سے بات کریں گے کہ کیا 22 اگست کا موازنہ 9 مئی سے اس طرح کیا جاسکتا ہے؟
کراچی کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے رویوں اور دُہرے معیار کو آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا، لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ نے یہاں بھی تجزیہ کرنے سے گریز کیا ہے، چلیے ہم دیکھتے ہیں کہ 22 اگست کیوں برپا ہوئی؟
ہوا یوں کہ 2013ءسے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری تھا، ایم کیو ایم کے کارکنان لاپتا اور گرفتار ہو رہے تھے، 2014ءکے بعد 2015ءمیں اس میں اتنی شدت آئی کہ مارچ 2015ءکو مختلف ’یونٹ‘ اور ’سیکٹر‘ دفاتر سے ہوتا ہوا، مرکز ’نائن زیرو‘ پر چھاپہ پڑ گیا اور مبینہ طور پر سنگین وارداتوں میں ملوث ملزمان پکڑے گئے، اسلحے وغیرہ کی بھی بات کی گئی، لیکن اس چھاپے اور جاری کارروائیوں میں بہت بڑی تعداد میں ملزمان بری بھی ہوئے اور شاید وہ اسلحہ بھی قانونی تھا۔ تاہم ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ایک ’میڈیا وار‘ جاری رہی۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس ’نامعلوم افراد‘ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے اور ان کو کہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا، ادارے کہتے کہ یہ ہمارے پاس نہیں ہیں، کچھ بازیاب ہو جاتے، کچھ لاپتا رہتے اور کچھ کی لاشیں پڑی ہوئی مل جاتیں۔ خود ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب کو رینجرز نے اٹھایا اور انھی کی حراست میں وہ مارا گیا، جس پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کہا تھا کہ کمیٹی بنا کر تحقیق کریں گے، لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ دوسری طرف ریاستی جبر مسلسل جاری رہا۔
یہ ساری صورت حال لندن میں موجود الطاف حسین کے لب ولہجے کو جارحانہ اور خراب کرتی چلی گئی، انھوں نے براہ راست حساس اداروں کے خلاف نہایت اشتعال انگیز زبان استعمال کرنا شروع کر دی، جس کے بعد 22 اگست 2016ءسے پورے ایک سال پہلے ہی اگست 2015ءکو تمام ذرایع اِبلاغ پر ان کے بیانات نشر کرنے سے لے کر ان کے نام اور تصویر تک پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ چوتھے ریاستی آپریشن (جیسا کہ آپ نے بھی مانا) بدترین جبر کا شکار ایک سیاسی جماعت جو اپنے لاپتا کارکنان کی بازیابی کے لیے مظاہرے کر رہی ہے، ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ان کے کارکنوں پر جو الزامات ہیں اس کے مقدمات چلائے جائیں، تمام گرفتار ولاپتا کارکنان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، لیکن صورت حال جوں کی توں رہتی ہے۔ ذرایع اِبلاغ کے ذریعے بھی ان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا جاری رہتا ہے۔ ایسے ہی ماورائے عدالت قتل اور لاپتا کارکنان کے حوالے احتجاج کا سلسلہ تھی وہ 22 اگست 2016ءکو جاری بھوک ہڑتال، جس کا افسوس ناک اور ناپسندیدہ اختتام ’ایم کیو ایم‘ کو مزید شدت سے کچلنے کا جواز بھی بن گیا۔ اس احتجاج میں شریک مظاہرہین کا ایک نجی چینل پر دھاوا بولنے کے بعد سخت ترین کارروائی عمل میں لائی گئی۔ نائن زیرو سیل ہوا، اور پھر بہ تدریج شہر بھر میں کم از کم 125 سے زائد ’یونٹ‘ اور ’سیکٹر‘ دفاتر بغیر نوٹس دیے مسمار کر دیے گئے۔ 23 اگست کو پوری ’ایم کیو ایم‘ الطاف حسین سے الگ کر دی گئی، اس سے چند ماہ پہلے مارچ 2016ءمیں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی ’پی ایس پی‘ کے ذریعے بھی ’ایم کیو ایم‘ پر ایک تنظیمی ضرب لگانے کی کوشش کی گئی اور نتیجہ کہ آج آٹھ سال سے ایک رتی بھر گنجائش یہاں الطاف حسین کی سیاست کے لیے موجود نہیں ہے۔
اب 9 مئی 2022ءکے واقعات دیکھتے ہیں۔ یہ ’ردعمل‘ صرف عمران خان کی گرفتاری کا نتیجہ تھا، جس میں آپ عمران خان کی حکومت کی بے دخلی کا غصہ بھی شامل کرلیجیے، مگر یہ ردعمل 22 اگست کے ’ردعمل‘ سے کہیں زیادہ خطرناک اور بھیانک تھا، جب کہ تحریک انصاف کے خلاف تو ایسی کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی تھی، نہ کوئی آپریشن ہوا، نہ کوئی پارٹی توڑی گئی، نہ لاپتا کارکنان کا سلسلہ، نہ ان کا ماورائے عدالت قتل اور نہ کوئی ریاستی جبر۔ اس کے باوجود انھوں نے ریاستی اداروں پر حملہ کیا، کورکمانڈر ہاﺅس تک میں توڑ پھوڑ کر ڈالی۔ اگرچہ ان پر ’ایم کیو ایم‘ کے جبر کا 10 فی صد بھی نہیں ہوا، لیکن ردعمل کہیں زیادہ شدید تھا۔ اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے صرف انھیں صرف ایک ضروری کارروائی کی۔ باقی نہ ان کا مرکز سیل ہوا، دفاتر مسمار نہ ان کی قیادت کی اپنے چیئرمین سے لاتعلقی، نہ ہی لاپتا کارکنان، نہ ماورائے عدالت قتل، بس نو مئی کے بلوے میں ہلاکتیں ہی تھیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی طرح تحریک انصاف کو بھی عام انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، کوئی بڑا جلسہ جلوس نہ ہوا، لیکن ایم کیو ایم (الطاف) کے مقابلے میں انتخابی مہم کی اجازت حاصل رہی۔ اخبارات وغیرہ پر عمران خان کے نام لینے پر پابندی بھی اتنی سخت نہ رہی۔ دوسری طرف الطاف حسین آٹھ سال سے بدستور عتاب کا شکار ہیں، بلکہ انتخابات میں ان کے آزاد امیدواروں کا اعلان 48 گھنٹے قبل ہوا، لیکن ایک بینر، پوسٹر تک نہ لگ سکا کہ پتا چلے کہ کس امیدوار کا نشان کیا ہے، الٹا ان امیدواروں کے گھروں پر چھاپے پڑے اور عملاً انھیں مفلوج کر کے رکھا گیا۔
مظہر عباس صاحب!
کیا اس بڑے تضاد اور واضح فرق کے ذکر کیے بغیر آپ ایک سانس میں 22 اگست 2016ءاور 9 مئی 2023ءکا ذکر کر کے انصاف کر سکتے ہیں؟
شاید اس لیے کیوں کہ آپ کو اپنے عنوان ’مہاجر سیاست کے نقصانات‘ کے موافقت میں ہی اظہار خیال کرنا ہے اور پوچھنا ہے کہ: ”یوم تاسیس منایا جائے یا ’چالیسواں‘۔ ناظم آباد اور لیاقت آباد سے جنم لینے والی متوسط طبقہ کی اس جماعت نے ان سالوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ ماسوائے رسوائی کے تو ضرور بتائیے گا۔“
آخر میں بطور ایک تاریخ کے طالب علم کے ’کھویا پایا؟‘ کے جواب میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں متوسط طبقے سے نکلنے والی ایک سیاسی جماعت جس نے طاقت حاصل کرنے کے محض دو، تین سال بعد ہی اپنی اس بنیادی ’مہاجر سیاست‘ سے کنارہ کش ہوگئی اور ملک بھر کے متوسط طبقے کی بات کرنے لگئی، لیکن شاید اس کالم کو لکھتے ہوئے آپ کے ذہن سے یہ اہم نکتہ چُوک گیا اور آپ نے جزوی اور باقاعدہ و مکمل ’متحدہ سیاست‘ کو نظرانداز کر دیا اور اس پہلو کو بھی کہ باوجود ’مہاجر سیاست‘ کی طرف تھوڑا سا پلٹنے کے، یہ آج بھی مجموعی طور پر ملک بھر کے متوسط ومظلوم طبقے ہی کے نام لیوا ہی ہیں۔
’مہاجر ووٹوں‘ سے منتخب ہونے والی اس جماعت کے ارکان اسمبلی نے اپنے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے آرگنائزر میاں عتیق اور بیرسٹر سیف کو سینٹیر بنوانا بھی ”رسوائی“ ہے؟
کراچی کے مہاجر حلقوں سے سندھی امیدواروں کو اسمبلی بھیجنا، ملک میں وڈیرہ شاہی کے خلاف مستقل مزاجی سے آواز اٹھانا بھی ”رسوائی“ ہے؟
کراچی میں گھروں پر حملے اور بلوے کے ماحول میں نہتے مہاجروں کو ایک احساس تحفظ دلوانا بھی ”رسوائی“ ہے؟
ملک میں تواتر کے ساتھ 98 فی صد متوسط اور غریب طبقے کی حکم رانی کی بات کرنا موروثی سیاست اور ملک پر جمہوریت کے نام پر مسلط چند خاندانوں کی اجارہ داری اور وڈیرہ شاہی کے خلاف ایک مضبوط سیاسی روایت قائم کرنا ’قائد‘ اور ’چیئرمین‘ کا نہ کبھی خود انتخاب لڑنا نہ اپنے خاندان میں سے کسی کو اقتدار میں لانا اپنے انتخابی امیدواروں کے انتخابی اخراجات پارٹی کا خود اٹھانا ملک میں جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بغیر کسی حیل وحجت کے ملک اور فوج کے ساتھ کھڑے ہونا ایک ایسے وقت میں جب دہشت گرد حملوں کے خطرے کے باعث وردی پہننے سے گریز کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی، جب ان سے یک جہتی کے لیے کراچی میں ہزاروں افراد کی ریلی نکالنا ’وسیع تر مفاد کی خاطر‘ اپنے بنیادی مہاجر حقوق، جیسے کوٹا سسٹم، مہاجر صوبہ، بہاریوں کی واپسی وغیرہ پر بات کرنے سے گریز کرنا، تاکہ بقول آپ ہی کے موقف ’مہاجر سیاست‘ کے نقصانات سے بچا جاسکے، لیکن یہ بہت بدنصیب رہے کہ انھیں اس کے باوجود ”رسوائی“ قرار دے دیا گیا!
انھیں لاشیں بھی اٹھانی پڑیں، آپریشن بھی جھیلنے پڑے، یہ بنیادی انصاف سے بھی پَرے ہوئے، ان کی قوم کے بنیادی حقوق کیا ملتے یہ خود عدالتی ٹرائل کے لائق بھی نہ جانے گئے اور ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ ’صحافتی جبر‘ اور ’دانش وری جبر‘ کی کند چُھری سے بھی ذبح کیے گئے کہ پوچھا گیا کہ ”بتاﺅ رسوائی کے سوا کیا ملا؟“ ان کی غلطیاں اور جرائم سے لے کر ان پر عائد الزامات اتنے تواتر سے دُہرائے گئے اور پوچھا گیا کہ ’تاسیس مناﺅ گے یا چالیسواں“ تاکہ لوگ بھول ہی جائیں کہ تصویر کا کوئی دوسرا رخ بھی تھا اور سوال تو او ربھی بہت سے تھے، جن کے جواب تاریخ نے طلب کیے تھے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *