Categories
Exclusive India Interesting Facts Karachi KU MQM PPP انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی دل چسپ سمے وار بلاگ سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

کراچی میں گجراتی بولی جاتی، کچھ ماہی گیر سندھی بولتے!

(تحریر: محمد علی)
بابائے قوم محمد علی جناح نے فروری 1947 میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس وقت کی سندھ حکومت کو 75 لاکھ روپے دے کر صوبائی دارالحکومت حیدرآباد منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
پاکستان جب بنا تو کراچی میں دستور ساز اسمبلی یا نیشل اسمبلی آف پاکستان تھی اور پاکستان سیکریٹریٹ تھا، جب کہ حیدرآباد میں سندھ اسمبلی اور صوبائی سیکریٹریٹ قائم تھا۔
اس وقت قائد اعظم کے پاس وائسرائے کے نمائندے این اے فاروقی آئے اور ان سے درخواست کی کہ کراچی کے بجائے لاہور کو دارالحکومت بنا لیں لیکن اسے انتظامی طور پر برٹش گورنمنٹ کے پاس رہنے دیں کیوں کہ برطانیہ نے کراچی میں بہت سے ترقیاتی کام کرائے ہیں اور ہانگ کانگ کے بعد وہ یہاں مزید کام کرائیں گے لیکن قائد اعظم نے انہیں منع کردیا۔۔۔اور کہا کہ میں ایک دفعہ جو فیصلہ کر لیتا ہوں وہ حتمی ہوتا ہے۔
جامعہ کراچی کی اپنے وقت کی انگریزی کی ایک پارسی پروفیسر ڈاکٹر وانیا کہتی تھیں کہ کراچی کی آبادی کی اکثریت اس وقت پارسی،کرسچن، اسماعیلی، بوہری، میمن، گجراتی ،ہندو بنیئے پر مشتمل برادری گجراتی زبان بولتی اور لکھتی تھی۔ ہم پارسی اور کرسچن بہترین انگریزی بولتے اور لکھتے تھے، جب کہ دہلی سوداگران والے آپس میں اردو بولتے لیکن گجراتی بھی بولتے تھے، کچھی ۔۔۔کچھی اور گجراتی بولتے تھے۔۔۔صرف موہانڑے ماہی گیر سندھی بولتے تھے، جب کہ بلوچ ماہی گیر دیدگ عیسیٰ مرحوم بتاتے تھے کہ ہم لوگ بلوچی بولتے تھے اور گجراتی بھی بولتے تھے وہ قیام پاکستان سے قبل 1945 میں جب فشر مینز سوسائٹی بنی تو وہ اس کے پہلے ڈائریکٹر بھی بنے تھے۔۔۔۔۔وہ سندھی سمجھتے تھے لیکن بولتے نہیں تھے۔۔
حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے!
انگریزوں سے پہلے کراچی پر جام آف لسبیلہ کا قبضہ تھا جو 17 سال تک رہا اور کراچی کا لسبیلہ کے علاقے کا نام انہوں نے ہی رکھا تھا جہاں لسبیلہ ہاؤس آج بھی موجود ہے ۔ جام کمال کے دادا جام غلام قادر یہ تاریخی بات بتاتے تھے پھر انگریزوں نے بلوچوں کو شکست دے کر کراچی پر قبضہ کر لیا اور تیرہ(13) سال تک اسے سب سے الگ تھلگ رکھا۔۔۔۔اس دوران انہوں نے یہاں بے شمار ترقیاتی کام کرائے۔۔۔۔۔لائٹ ہاوس۔۔۔کھارادر مارکیٹ ، ڈینسوہال، بولٹن مارکیٹ ،جوڑیا بازار، صرافہ مارکیٹ اور صدر و ایمپریس مارکیٹ یہ سب انگریزوں نے بنائی تھی ورنہ یہ صرف ماہی گیروں کا چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کراچی شہر اور سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی میں شامل کردیا اور یہ تقریباً سو (100) سال تک اس کا حصہ رہا پھر انیس سو چھتیس (1936) میں اسے بمبئی سے الگ کر کے کراچی کو سندھ کا کیپیٹل بنایا گیا جو اکیس سال تک برقرار رہا پھر جب پاکستان بن گیا تو اس شہر کو قائد اعظم کے حکم پر پاکستان کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔
مزدور لیڈر سعید بلوچ جن کا خاندان کراچی میں صدیوں سے آباد ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دادا انہیں بتاتے تھے کہ یہاں عربی افریقہ سے کالوں کو پکڑ کر لاتے تھے اور گھاس منڈی میں ان کی نیلامی کی منڈی لگتی تھی جہاں انہیں غلام بنا کر بیچ دیتے تھے۔۔۔۔بیچنے والے عربی اور خریدار زیادہ تر بلوچ سردار اور امرا ہوتے تھے۔
یہ جو کالے بلوچ ہیں یہ حقیقت میں بلوچ نہیں ہیں بلکہ افریقی غلاموں کی نسل ہے جو بلوچی بولتے لگی ہے غلامی کا یہ دور بھی انگریزوں کی مہربانی سے انہوں نے ہی ختم کرایا تھا انھوں نے عربوں کو مار کر بھگا دیا تھا اور اس کاروبار میں ملوث بلوچوں کو پکڑ کر قید کر دیا تھا جس کے بعد کراچی سے غلامی کے کاروبار و دور کا خاتمہ ہوا تھا اور یہ بھی کراچی پر انگریزوں کے جو بڑے بڑے احسانات و مہربانیاں تھیں ان میں سے یہ بہت بڑا احسان و مہربانی تھی۔
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights