Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi Media MQM PPP Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

بصیر نوید….کراچی کے صحافتی المیوں کا تسلسل!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
کراچی وہ بدنصیب شہر ہے کہ جس کے اکثر اہل قلم بھی ’مجرم‘ نکلے! دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ڈھنڈورے پیٹنے والوں سے لے کر مسلم امّہ کے مروڑ سے اپنے پیٹ پکڑنے والوں تلک سبھی کو کراچی کے لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یقیناً یہ المیہ صرف آج کا نہیں ہے۔ آج بہت سے سفید سفید بالوں والے صحافی، مدیر اور اہل قلم اپنے شہر کراچی کے لیے کبھی منمناتے تو ہیں، لیکن منہ کھول کر انھیں حق کے دو لفظ کہنے کی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ ریاست یہاں نوٹنکی بند کرے، سیدھی طرح لوگوں کو برابر کا شہری اور انسان سمجھے اور قانون کی عمل داری قائم کرے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہ بزرگ صحافی اگر لب کشائی بھی رکتے ہیں، تو ان کا نشانہ اہل جبر کی طرح مظلوم کراچی کے عوام اور ان کے حقوق کی بات کرنے والے ہی ہوتے ہیں اور وہ لعن طعن کرنے میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ پھر ان سے مظلوموں کے خلاف یک طرفہ ریاستی پروپیگنڈا کرنے والے بھی شرمائے جاتے ہیں۔ کم ظرفی میں ’مذہبی انتہا پسند مُلا‘ اور ’لبرل مُلا‘ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور یہ دونوں انتہائیں کراچی والوں کے حقوق اور ان کے جائز مطالباب کے آگے یک ساں اور مشترکہ طور پر مزاحم نظر آتے ہیں۔
اب ہمارا کیا ہے، سچ پوچھیے تو ہم جیسوں کا تو دماغ بالکل ہی خراب ہے، ہم باز نہیں آتے۔ دونوں طرف سے پوری پوری ’مار بھی کھاتے‘ ہیں، خوب نقصان بھی اٹھاتے ہیں، آستینوں سے ڈسے بھی جاتے ہیں، بلکہ دو طرفہ کے علاوہ ہر طرف سے ہی ہمیں کسی نہ کسی عنوان سے بدنام کیا جاتا ہے، تعصب اور سیاسی جانب داری کے لغو اور بے ہودہ الزام لگائے جاتے ہیں، لیکن ہم بھی اپنی عادت اور اپنی تربیت سے مجبور کہ اپنی بات کہنے سے باز نہیں رہ پاتے۔ کبھی کوئی بات کسی کو بری لگتی ہے تو کبھی کسی اور کو۔ سو ہر گروہ اپنے اپنے حساب سے ہمیں کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ٹھونسنے کی کوشش کرکے خود کو دھوکا دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔
کراچی سے غافل اہل قلم میں شعرا، ادیب اور کالم نگاروں کے ساتھ صحافیوں اور بزرگ صحافیوں کا ایک طویل حلقہ آج بھی موجود ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی (چند ایک استثنا کے علاوہ) کوئی ایک آواز ایسی نہیں ملتی، جو توازن سے اس شہر کی آواز بن سکے۔ اب ان بزرگوں کا احترام اپنی جگہ، لیکن صاحب، آپ کے غیر متوازن خیالات سے سرسری گزرنا بعض اوقات بہت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ ہمارے لیے بہ لحاظ عمر محترم ہیں، محترم رہیں گے، لیکن آپ کی رائے کا جائزہ لینا اب ضروری محسوس ہوتا ہے۔
ایسے ہی ایک ممتاز صحافی بصیر نوید صاحب ہیں، انھوں نے گذشتہ دنوں ایک فیس بک پوسٹ پر لکھا:
”سچ تو یہ ہے کہ کراچی کی تباہی میں اردو بولنے والے مہاجرین اور ان کی نسل پرست تنظیموں خاص کر الطاف حسین کی ’ایم کیو ایم‘ کا براہ راست ہاتھ ہے، جنھوں نے سندھیوں، پٹھانوں، پنجابیوں و بلوچوں کے خلاف نفرت کی بنیاد رکھی، جس طرح سابقہ مشرقی پاکستان میں انھوں نے ہجرت کے بعد بنگالیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی اور مذہبی جماعتوں سے مل کر اپنی مسلح تنظیمیں ہی نہیں بنائیں، بلکہ اپنی آبادیاں بھی بنائیں اور وہاں سے بنگالیوں کے خلاف مورچہ بندی بھی کی۔ بنگالیوں کو چار فٹے گردان کر کالے اور غیر مسلم قرار دیتے تھے۔ پھر ان سے پٹنے اور رسوا ہونے کے بعد کراچی آن بسے۔ بھٹو سندھی تھا اس نے اورنگی ٹاو¿ن بنا کر دیا، اسے انھوں نے ’میر پور‘ اور ’محمد پور‘ بنا کر پٹھانوں پر خونی حملے کیے، تاکہ مزدوروں کے توسط اور ان کے خون سے جو صنعتی ترقی ہوتی ہے وہ نہ ہو۔ یوں کراچی کی تباہی کا آغاز ہوا۔
1988ءکے بعد سے آج تک ہر حکومت میں شامل ہیں اور اپنے نسل پرستی کے ایجنڈے کو لے کر بھی چلتے رہے۔ 35 سے 40 سالوں تک کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں حیدرآباد، میر پور خاص وغیرہ میں جہاں مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد تھی وہاں دل کھول کر خون خرابہ کیا۔ کراچی میں اس عرصے کے دوران کوئی تجارتی و صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے دیں، مہینے میں کم سے کم دو مرتبہ خونی پہیا جام ہڑتالیں کراتے تھے۔ جن جن پچھلی ہڑتال کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ بنایا جاتا تھا، جن زیادہ تعداد پٹھانوں، پنجابیوں اور سندھیوں کی ہوتی تھی۔
مسلسل حکومتوں میں رہنے کے باوجود ٹرانسپورٹ کے نظام کو کبھی ٹھیک نہیں کیا، پانی کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی، حالاں کہ مشرف کے ساتھ ہنی مون کا لمبا عرصہ بھی چلا۔ گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر و درستگی آج تک نہیں کی۔ کوئی نئی فیکٹری، کاشانہ یا صنعت نہیں لگائی، بلکہ جو کارخانہ باہر ملکوں کو گارمنٹس بنا کر بنگلا دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کو مات دے رہا تھا وہاں آگ لگا کر 160 محنت کشوں کو زندہ جلادیا، تاکہ کسی میں ہمت نہ ہو کہ ایکسپورٹ کی جرا¿ت نہ ہو۔ کراچی ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں، بھتّا خوری اور خونی ہڑتالوں کی علامت بن چکا تھا۔ یہ سب کچھ ’اہم کیو ایم‘ کرتی تھی، جو ہجرت کر کے آنے والوں کی نمائندہ جماعت کرتی تھی، آپ بتائے کہ کہاں سے سرمایہ کاری ہوتی، کون بے وقوف تھا جو تجارتی سرگرمیاں کرے گا۔ یہ سب دیہاتی علاقوں میں نہیں ہوتا ہے نہ کبھی تھا اس لیے کہ وہاں اردو بولنے والے مہاجر اور ان کی خونی تنظیمیں وجود نہیں رکھتی ہیں۔
کراچی میں ان کے وجود سے قبل لوگوں کا سڑکوں پر قتل عام نہیں ہوتا تھا، فیکٹریوں میں مزدوروں کو زندہ نہیں جلایا جاتا تھا، بھتّے کھلے عام نہیں لیے جاتے تھے، کوئی عمارت بننے سے پہلے کثیر رقم بھتّے کی صورت میں نہیں کہ جاتی تھی، نام وَر قسم کے غنڈے اور قاتلوں کو ’بھائی‘ کے نام سے نہیں پکارا جاتا تھا۔ کسی سندھی یا کسی اور زبان والے نے کراچی کو تباہ نہیں کیا یہ صرف مہاجروں اور ان کی تنظیموں نے تباہ کیا ہے۔“
آپ نے بصیر نوید صاحب کا مکمل تبصرہ ملاحظہ کرلیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی کے خراب حالات میں ’ایم کیو ایم‘ ایک مرکزی ملزم کے طور پر موجود ہے، یہاں کے حالات میں وہ اپنی جواب دہی سے بچ نہیں سکتی۔ لیکن سرکار آپ ایسے یک طرفہ عدالت لگا کر خود ہی گواہ، خود ہی جج اور خود ہی فیصلہ سنا دیں گے؟ ایسا کم از کم آپ جیسے صحافی کو تو قطعی زیب نہیں دیتا۔ دنیا کا کوئی قانون بڑے سے بڑے ملزم کو بھی حق صفائی تو ضرور دیتا ہے۔ چلیے آپ نے عدالت نہیں لگائی، لیکن نہ جانے کیسے جذبات میں بہہ کر ساری خرابی مہاجروں اور ان کی جماعت کے سر کرڈال دی۔ یہ تو قطعی انصاف نہیں ہوا۔ البتہ کسی سیاسی مخالف کی رائے ضرور ہو سکتی ہے، کسی بھی باشعور فرد کی ہر گز نہیں!
رہی بات دیگر قومیتوں کے خلاف نفرت کی بنیاد کی تو بصیر نوید صاحب تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایم کیو ایم کے بننے سے پہلے کراچی میں ایوب خان کے دور میں پشتون مہاجر تصادم کرایا گیا، اور ذوالفقار بھٹو کے دور میں سندھی مہاجر تصادم سامنے آیا۔ تب ایم کیو ایم کا کسی سطح پر کوئی وجود نہ تھا۔ آپ چوں کہ ”پاکستانی لبرل“ ہیں، جو بھٹو خاندان کو پاک پَوتر مانتے ہیں اور ان کے خاندانی سیاہ کرتوتوں پر لب کشائی کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، سو آپ نے لوگوں کو گم راہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور روایتی طور پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے سر سارا ملبا گرا دیا۔
رہی بات مشرقی پاکستان کی تو ہمیں آپ کے مندرجہ بالا خیالات کے بعد آپ کے ان الزامات پر پورا ”یقین“ ہے، چوں کہ نام نہاد ’لبرل‘ کمیونسٹ، سوشلسٹ ’سیکولر‘ سرخ اور وغیرہ وغیرہ نام کی تمام چیزیں یک ساں طور پر پاکستان بننے کو بہ یک جنبش قلم غلط قرار دیتے ہیں، اس کے مقابل انھیں یہاں کی صوبائیت ہمیشہ سے (غیرمتوازن طور پر بھی) بہت عزیز رہی ہے۔ سو ٹھیک ہے، آپ نے جو کچھ مشرقی پاکستان کے مہاجروں کے بارے میں کہا اوران کے وہاں ”پٹنے اور رسوا ہونے کے بعد“ یہاں آنے کے بعد جو کچھ فرمایا وہ آپ کے ہاں کہا جاتا رہا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ہماری خواہش تھی کہ آپ یہ تو بتا دیتے کہ اورنگی ٹاﺅن سے کب پٹھانوں پر خونی حملے کیے اور مزدوروں کا خون کرکے صنعتی ترقی کو روکا گیا۔
حیرت کی بات ہے ہمارے سینئر صحافی اور فاضل تبصرہ نگار نے نہ صرف اس کی وضاحت نہیں کی بلکہ اورنگی ٹاﺅن میں ہونے والی دسمبر 1986 ءکی خوں ریزی پر مجرمانہ غفلت اور تجاہل عارفانہ سے کام لیا، کیوں کہ آپ یک طرفہ طور پر مہاجروں کو ہی واحد مجرم قرار دے چکے۔ آپ کو خدشہ لگا ہوگا کہ اگر یہ ذکر کر دیا تو کہیں آپ کے موقف کا تضاد نمایاں نہ ہو جائے سو آپ 1986ءکے قصبہ علی گڑھ کے چار پانچ سو مہاجروں کے خون سے یک سر گزر گئے۔ یہی نہیں آپ نے اپنی پوری تحریر میں 1988ءکے سانحہ حیدرآباد اور 1990ءکے سانحہ پکا قلعہ کو بھی بھولے رہے۔ یہ تو وہ تاریخ ہے کہ ”ایم کیو ایم کی دہشت گردی“ کے باوجود آج تک کسی غیر مہاجر بستی پر حملہ نہیں ہوا، جب کہ مہاجر بستیوں پر سرکاری سرپرستی میں درندگی مچائی جاتی رہی ہے۔ شاید آپ کے نام نہاد لبرل نظریات ایسے ہی تضاد خیالات ہی کو درست جانتے ہوں، آپ کی باتوں سے تو کم ازکم یہی محسوس ہوا۔
اچھا جی، آپ اس عام خیال کہ 1988ءتک ہر حکومت میں شامل رہے اور خون خرابہ کیا۔ اس عرصے میں کوئی تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے دیں۔ اور ہر مہینے پہیا جام ہڑتالیں اور غیر مہاجروں کو قتل کرتے تھے۔
یقیناً ایسے یک طرفہ اور خلاف حقیقت خیالات کسی بھی ذی شعور انسان کے ہر گز نہیں ہو سکتے۔ یہ صرف ایک متعصب اور ناپختہ سیاسی کارکن کے الفاظ ہیں، جو سچ اور جھوٹ میں تمیز کھو کر مخالفانہ جذبات کی رو میں اس قدر بہہ جاتا ہے کہ اسے خیال نہیں رہتا کہ اس کے بچگانہ اور نابالغ خیالات سے لوگ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟
ہم تو کالج کے زمانے سے آٓپ جیسے صحافیوں کے خیالات سے سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ جس طرح کثیر النظریہ موقف، اختلاف رائے، اور حقائق کی صحت کی باتیں کرتے، ہم نے تو ہمیشہ اسے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا۔ انصاف، مساوات، انسان دوستی اور رواداری کی جو باتیں آپ ایف ایم 103کے پروگرام میں تواتر سے کرتے رہتے تھے، تو وہ سب ہم اپنے سیکھنے کی سیڑھیاں بناتے گئے، لیکن عملی طور پر آپ بھی ایسی باتیں کریں گے؟ یہ بہت افسوس ناک حقیقت اور کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں لگتا بزرگوار!
بطور تاریخ کے طالب علم کے ایک بار پھر یہ یاد دلانا چاہیں گے کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے ’ایم کیو ایم‘ 1988ءسے ہر حکومت میں شامل رہی۔ جس کا پہلا مرحلہ بے نظیر اور نواز شریف کی باری باری چار حکومتیں ہیں، جن کی مدتیں دو، ڈھائی سال ہوتیں اور اس سے بھی پہلے ’ایم کیو ایم‘ ان حکومتوں سے باہر ہوتی اور ان کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع ہو جاتا۔ وزیراعظم نواز شریف نے 1992ءمیں ’جناح پور‘ کا الزام لگا کر یہاں فوجی آپریشن کیا۔ ایم کیو ایم کے ایک دھڑے کی مکمل ریاستی سرپرستی کر کے کراچی کے ہزاروں نوجوانوں کو مروا دیا۔ یقیناً ایم کیو ایم کو بھی اس میں دوش دیجیے، لیکن آپ تو ایک باشعور اور گھاگ سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ آپ کیسے ”تکبیر“ کے صلاح الدین اور ”امت“ کے رفیق افغان کی طرح آدھا سچ اور مکمل بے ہودگی فرما سکتے ہیں؟
1995ءمیں بے نظیر کے دور میں ماورائے عدالت قتل کا لائسنس دے دیا گیا اور ایم کیو ایم کے کارکنان جعلی مقابلوں میں مارے گئے۔ لیکن آپ کو لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اس عرصے میں صرف حکومتوں میں بیٹھ کر خوں ریزی کرتی رہی، سلام ہے آپ کی صحافت اور آپ کے تجزیے کو جناب!
’ایم کیو ایم‘ کی پہیا جام ہڑتالیں کارکنان کے قتل کے خلاف بطور احتجاج ہوتی تھیں، جو کہ آئینی اور جمہوری حق ہیں (ہمیں یاد آیا کہ شاید آپ بہت خود کو بہت زیادہ جمہوی فکر کا علم بردار بھی بتاتے تھے) اس ہڑتال میں لوگ مارے جاتے تھے، یہ بالکل ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن ہر ہڑتال میں پچھلی ہڑتال سے زیادہ لوگ مارے جاتے اور ان میں زیادہ تعداد پٹھان، پنجابی اور سندھی ہوتے۔ اگر آپ نے شروع سے کوئی تجزیاتی اور متوازن انداز اپنایا ہوتا، تو ہم بالکل اسے سچ مان لیتے کہ یقیناً آپ نے کوئی تحقیق تو کی ہوگی، لیکن اب یہ پڑھنے والوں پر ہے، کہ وہ خود ان دونوں الزامات کی پرکھ کرلیں۔
آپ نے فرمایا کہ کوئی نئی فیکٹری نہیں لگائی، ٹرانسپورٹ بہتر نہیں کی، پانی کی فراہمی اور سڑکوں پر بھی توجہ نہیں دی۔ بالکل، ہم متفق ہیں، لیکن اگر آپ کو ’ایم کیو ایم‘ کے پرویز مشرف دور میں بنائی گئی کراچی کی سڑکیں بھی نظرنہیں آئیں، تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کچھ کہنے سے بھی نظر نہیں آ سکیں گی، کراچی کے عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں ہے، پھر ابھی تو وہ پل، انڈر پاس موجود ہیں، (کسی کے صحافتی معیار کی طرح گرے نہیں ہیں!)
آخر میں حضرت بصیر نوید نے 2012ءمیں بلدیہ فیکٹری کے جلائے جانے الزام کو بھی سچ مان لیا، ظاہر ہے جب آپ شروع سے یک طرفہ، ادھورے اور لغو الزامات کو حقیقت بنا کر پیش کررہے ہیں تو آپ کو ابھی اگر یہ کمزور الزام بھی درست لگتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ باقی آپ نے آخر میں کراچی میں بوی بند لاشیں، بھتّے اور ساری بے امنی کا الزام بھی ایک ہی جماعت پر عائد کیا اور غنڈے اور قاتلوں کو بھائی کہہ کر پکارے جانے کی وضاحت نہیں کی۔ پتا نہیں ایم کیو ایم میں کتنے کارکنان غنڈے اور قاتل تھے، شاید سبھی ہوں گے۔
ہر حکومت میں موجودگی کے الزام میں اگر ہم 2013ءکے بعد سے آج تک کا جائزہ لیں تو ’ایم کیو ایم‘ پھر سے ریاستی جبر تلے ہے۔ 2016ءسے اصل جماعت تو روپوش ہے، اور ایک مصنوعی قیادت سامنے لائی گئی ہے۔ (شاید آپ ہانگ کانگ میں مقیم ہونے کے باعث اس کی جان کاری نہیں رکھتے ہوں، تو ہم ویسے ہی گوش گزار کرا رہے ہیں۔) لیکن آپ نے تو کسی ایک جبر کا ذکر نہیں کیا، تو ہمیں یقین ہے کہ آپ کے علم میں نہیں ہے، ورنہ ضرور ذکر کرلیتے۔
بصیر نوید صاحب کا یہ سارا نزلہ اس وجہ سے گرا کہ یہاں 17 برس سے مسلط دیہی وڈیروں کے اقتدار پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ کراچی کی تباہی پر عوامی باز پرس جاری ہے، اس لیے انھوں نے ماضی کے اپنے خود ساختہ زخم کرید کر اپنے تئیں توجہ ہٹانے کی ایک بھونڈی اور ناکام سی کوشش کی، جس پر کراچی کے اس طالب علم سے رہا نہیں گیا اور سوچا کہ تھوڑا سا بصیر نوید صاحب کے خیالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ باقی اے پڑھنے والو!
خدا کے واسطے ان گزارشات کو کسی کی سیاسی ترجمانی نہ سمجھ لیجیے گا، یہ خالصتاً ایک سیاسی تجزیہ اور صرف حقائق کا بیان ہے۔ اور کراچی کے صحافتی المیے کا ایک ماتم ہے، اس صحافتی المیے کے ایک بڑے نمائندے بصیر نوید صاحب ہیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ دودھ کی دھلی ہوئی جماعت ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے! ہم تو بصیر نوید صاحب کے دیے ہوئے سبق قانون کی عمل داری اور آئین کی پاس داری سے لے کر انسانی حقوق اور مساوات کے تناظر میں یہ ساری باتیں کر رہے ہیں۔ بصیر نوید صاحب کے وچار کے مطابق ان الزامات کے شفاف عدالت میں ثابت کیے جانے کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ اور جو جرم ثابت ہو، اسے فی الفور اور کڑی سے کڑی سز املنی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی قوم یا کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ ہمارا ماننا تو صرف یہ ہے۔ اگر اس کے باوجود ہم آپ کو جانب دار یا کسی کے ترجمان معلوم ہوں، تو پھر ہم واقعی کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ سمجھ لیجیے، باقی ہم تو ایسے ہی ہیں!
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights