Categories
Karachi Media PPP PTI Rizwan Tahir Mubeen پیپلز پارٹی تحریک انصاف جماعت اسلامی جیو نیوز ذرایع اِبلاغ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

کراچی میں غنڈہ گردی کے حامی قلم کار؟

سمے وار (تحریر: رضوان طاہر مبین)
“رام سوامی” میں نوجوان شاہ زیب شاہد کی ڈمپر سے کچل کر ہونے والی اندوہ ناک موت کے بعد پھیلنے والے شدید اشتعال کے واقعے کو اب 24 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ ہم ابھی تک تلاش کر رہے ہیں کہ کس کس کو اس واقعے پر کوئی احساس ہوا ہے اور اگر احساس ہوا ہے تو کیا ہوا ہے؟
کل یعنی تین اور چار نومبر 2025 کی درمیانی شب کراچی میں گارڈن کے علاقے رام سوامی میں روزانہ کی طرح ایک اور بے قابو ڈمپر نے کراچی کے نوجوان شاہ زیب کو کچل کر ہلاک کر دیا، تو عوام نے مشتعل ہو کر ذمہ دار ڈمپر کو نذر آتش کر دیا۔ اس موقع پر جلتی پر تیل اس وقت پر پڑا جب کراچی والوں کے لیے نفرت انگیزی کی شہرت رکھنے والے نام نہاد ڈمپر ایسوسی ایشن کے سرغنے لیاقت محسود وہاں پہنچ گئے، ہجوم ویسے ہی تپا ہوا تھا، سو لیاقت محسود کی جانب سے حسب روایت ڈمپر جلنے پر رونے گانے پر عوام ادھار کھائے بیٹھے تھے، سو ان کی گاڑی پر پتھرائو اور ان کا گھیرائو ہوا۔ پولیس وہاں موجود تھی، اس موقعے پر لیاقت محسود کو بھاگتے ہی بنی، اور یہاں اس کے مسلح گارڈز نے فائرنگ بھی کی۔ بعد میں لیاقت محسود نے کہا اس پر دو ڈھائی ہزار لوگوں نے قاتلانہ حملہ کیا۔ بہرحال رات بھر کی دھینگا مشتی کے بعد لیاقت محسود کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے میں کام یابی مل گئی۔ اب تازہ اضافہ یہ ہے کہ متحدہ کے سابق رکن صوبائی اسمبلی کامران فاروقی کے اس بیان کہ “اس بدبخت کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت یہ گاڑی سمیت نہیں جلا، یہ عوامی ردعمل تھا وغیرہ وغیرہ۔
رات ہی سے “جیو نیوز” اور “اے آر وائے” پر لیاقت محسود کے مسلح گارڈ کی فائرنگ اور لوڈ بندوق لوگوں کی جانب تاننے کی ویڈیو گردش کر رہی ہے۔ اِدھر ہم انتظار کرتے رہ گئے کہ وہ سارے “غیر مقامی” جو کراچی کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اور اپنی مخصوص بدبودار ذہنیت کے تحت لغویات بکنا فرض عین سمجھتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں۔ نہتے عوام پر کراچی جیسے شہر میں وڈیرہ شاہی اور کھلی غنڈہ گردی مچانے پر ان کی جانب سے کیا کہا جاتا ہے؟
لیکن صاحب، صفا سناٹا رہا، سارے صحافی، سارے نام نہاد تجزیہ کار اور خود ساختہ کراچی کے امور کے ماہرین بدترین بے حسی میں مبتلا رہے۔ دنیا جہاں کی باتیں ہوتی رہیں اور کراچی میں رام سوامی میں پھیلے اشتعال پر ان کے قلم یا زبان سے ایک لفظ ادا نہ ہوسکا۔ کیا کراچی کیا ملتان، کیا لاہور، کیا پنڈی، اسلام آباد، پشاور کوئٹہ، کشمیر، گلگت اور ٹھٹہ سے لاڑکانے اور ننکانے تلک۔۔۔۔
سارے کے ساروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا، وہ جو کراچی کی سیاسی آزادی کے زمانے میں گز گز بھر کی زبانیں نکالے زہر اگلتے تھے اور اصل میں اپنے لسانی بغض اور مہاجر دشمنی کے اظہار کرتے تھے، ان کی منشا یہی تھی کہ کراچی کو ایسے ہی ریاستی جبر کے تحت زنجیروں میں باندھ کر رکھا جائے کیوں کہ کراچی جسے ووٹ دیتا ہے وہ انھیں پسند نہیں یا پھر وہ ان کی قوم سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ اس لسانی عناد کا اظہار اس سیاسی قوت کی کردہ اور ناکردہ غلطیوں پر کرتے تھے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے یہ تصویر یا ویڈیو کراچی کی سیاسی جماعت کی ہوتی تو ٹھٹھے سے لاڑکانے اور لاہور سے میانوالی، کشمیر سے کوئٹے اور پشاور تلک چینلوں سے اخبارات اور یوٹیوب سے ایکس اور انسٹا سے فیس بک تلک کیا کیا ہاہاکار نہ مچ گئی ہوتی۔ بدبخت کراچی کے غم میں ہلکان ہونے والوں نے کیسے کیسے بغض نہ نکال لیے ہوتے۔ وہی نام نہاد جو کچھ مرکزی دھارے کے تجزیہ کار کہلاتے ہیں، کچھ ادب میں پناہ لیتے ہیں، کسی نے خود کو محقق اور مدرس کہا، کسی نے کسی سیاسی گروہ کا گھو کھایا تو کسی نے کسی اور محکمے سے دانہ چُگ لیا، کسی کے دل میں کسی طرح کی غلاظت جمع رہی تو کسی کے دل میں اور طرح کی۔
اب کیوں چپ سادھی رکھی؟ اور 10 برس سے جاری ریاستی جبر کے حوالے سے کیوں سکون میں بیٹھے رہتے ہیں؟
اس لیے کہ 80 سال بعد بھی اس ریاست کی طرح اس ریاست کے دانش ور کو بھی ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے آنے والے تسلیم نہیں ہیں!
ان کے دلوں میں ابھی تک کوئی گنجائش نہیں پیدا ہو سکی
یہ ہمیں پاکستان کا شہری نہیں سمجھتے، ان کے دلوں میں ہماری وفاداری مشکوک ہے، یہ ہمیں کوئی انسانی حقوق اور کوئی مذہبی برابری تک دینے کے روادار نہیں ہیں۔۔۔
یہ نام نہاد تعلیم یافتہ اصل میں لسانی اور صوبائی تعصب کے پروردہ ہیں، یہ چاہتے ہی یہی ہیں کہ کراچی والوں کو ریاست ایسے ہی پانی بجلی کے لیے ترسائے، انھیں سڑکوں پر کچلے، ان کے بنیادی انسانی حقوق دبا کر انھیں کسی مقبوضہ وادی کے شہریوں جیسا سلوک کرے، انھیں لاوارث اور بے یارومددگار رکھے، ان کو قانونی سیاسی سرگرمیوں اور آئینی سیاسی آزادی کو سلب رکھے۔ انھیں لاپتا اور قتل کرتی رہے۔ انھوں نے 10 سال پہلے تک جتنی بے ہودگی کی تھی، اس میں کراچی کے لیے اصل میں یہی بغض چھپا ہوا تھا، وہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی قائد سے نفرت ہر گز نہ تھی، بلکہ اس ملک کی پانچویں قوم سے نفرت تھی، شاید ریاست بھی پانچویں قوم سے یہی تفریق رکھتی ہے، اب تک کے طرز عمل سے تو یہی ثابت ہو رہا ہے۔
اور کراچی تو بہت سے “کراچی والوں” کو ہی قبول نہیں ہے، انھیں بے غیرتی کی عادت ہے، وہ اپنی قومی شناخت پر بغلیں جھانکتے ہیں، ان کے حسب نسب میں جانے کیا کمی ہے کہ وہ مہاجر شناخت پر شرمندہ اور مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید غیر مقامیوں سے زیادہ ایسے مقامی صحافی، اہل قلم، نثر نگار، کالم نگار اور نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکے دار زیادہ بڑے مجرم ہیں کراچی والوں کے!
***
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights