Categories
Exclusive Society انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی تحریک انصاف سعد احمد سمے وار- راہ نمائی سیاست شہباز شریف عمران خان قومی سیاست مسلم لیگ (ن)

اپنی ماں بہنوں، بیٹیوں کی بالیوں اور چوڑیوں کا حساب بنالیجیے!

تحریر :سعد احمد
سوچیے تو حیرت ہوتی ہے کہ ابھی تک یہ ’خلا‘ کیسے چھوڑا ہوا تھا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی نظر اب اس پر بھی پڑ گئی ہے، جس کے اثرات متوسط طبقے اور نچلے طبقے سے لے کر بہت سے عام غریبوں پر بھی پڑیں گے، وہ ہے سونے کی خریدوفروخت کو ایک ریکارڈ میں لانے کا فیصلہ۔
جی ہاں، ابھی تک تو یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ ’سونا مافیا‘ یا سونے کے ”اسمگلروں“ کے خلاف ہے۔ ممکن ہے یہ بات ٹھیک ہو، لیکن آپ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے کہ قانون کیا بن رہا ہے اور کل کو کیا ہونے والا ہے!
اب ہوگا یہ کہ جیسے موٹر سائیکل، گاڑی یا گھر وغیرہ خریدو فروخت کرتے ہوئے اس کا لائسنس، رسید یا دیگر دستاویزات ضروری ہوتے ہیں، بالکل ویسے ہی اب سونے کے ساتھ بھی ہونے والا ہے! یعنی آج سے پہلے تک یہ بہت آسان تھا کہ کسی طرح آپ نے چار پیسے بچائے اور اسے روپے کی شکل میں رکھنے کے بہ جائے ایک آدھ بالی وغیرہ بنوالی، کوئی چاندی وغیرہ کی صورت میں چیز لے لی، تاکہ کم سے کم آپ کی پونجی کی قیمت ختم نہ ہو، کیوں کہ روپیہ ہمیشہ سے زوال پذیر رہا ہے اور آج کل تو اس سے بھی زیادہ بدتر صورت حال ہے۔ پیسہ رکھے رکھے کوڑا ہو رہا ہے۔ عملاً 100 روپے کا نوٹ 10 روپے کے نوٹ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور ہزار کا نوٹ سو روپے کا۔ آپ دیکھ لیجیے ایک روٹی ابھی 25 روپے تک کی مل رہی ہے، کل یہ اس سے بھی بڑھ جائے گی، تو ان 25 روپے کی کیا حیثیت رہ گئی۔ اب روپے، دو روپے اور پانچ روپے کے سکے بالکل ختم ہونے کو ہیں، اسی طرح ممکن ہے کہ جلد ہی دس، اور بیس روپے کے نوٹ بھی ختم ہوجائیں، کیوں کہ سرکاری طور پر لاکھ ان کی قانونی حیثیت ہو، لیکن جب اس کی کوئی چیز ملے ہی نہیں تو عملاً نوٹ یا سکے بے وقعت ہو جاتے ہیں۔
اب آجائیے اس بات پر کہ آپ نے کبھی یا اب اگر کوئی فاقے کر کے اپنی بیٹی کی شادی، بچوں کی تعلیم یا والدین کے علاج کے واسطے کہیں کوئی رقم محفوظ کی ہے تو اب حکومت نے اس پر بھی ٹیکس لینے یا ریکارڈ رکھنے کے نام پر نظریں گاڑ دی ہیں۔ کہنے کو یہ قانونی کرنے کے ڈرامے ہیں، لیکن عملاً آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ اب اگر آپ کوئی زیور فروخت کرنے بھی جائیں گے تو اس کا ثبوت مانگا جائے گا کہ بتائیے کہ یہ آپ ہی کا ہے؟ کہیں آپ نے چوری تو نہیں کیا؟
ممکن ہے کہ کچھ وقت کے لیے سہولت دی جائے کہ لوگ اپنے گھروں میں موجود زیورات اور سونے کو ظاہر کرکے کچھ پیسے دے کر اس کے سرٹیفکیٹ بنوالیں، اس کے بعد اگر بغیر کاغذات کوئی بالی بھی نکلی تو آپ ریاست کی نظر میں ”چور“ ہوں گے اور اس اندھے قانون کے سامنے آپ کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا کہ بتائیں کہ یہ آپ نے چوری نہیں کی، یہ آپ کی امی کو دادی نے اور دادی کو ان کی والدہ نے دی تھی!
اس کے بعد تو یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں اگر کسی دلھن کو زیور بھی دیا جائے گا تو ساتھ اس کے کاغذات بھی تھمائے جائیں گے، ساتھ ملکیت کی منتقلی کی ’کارروائی‘ بھی کرانی پڑے گی۔ کیوں کہ زیور ہر صورت کسی نہ کسی کے نام پر ہوگا، اور پھر وہ سارے جھمیلے نمٹائے گا۔ اگر کسی دلھن کو منگنی کی انگوٹھی پہنائی گئی ہے تو بھی اور کسی کو منہ دکھائی میں کچھ ملا ہے تب بھی۔ اسی طرح جن شادیوں میں اشرفیاں دینے کا رواج ہے۔ وہ بھی اس کی پکڑ میں آئیں گے۔ اس طرح عوام کا خون نچوڑتی ریاست کے وارے نیارے تو ہوجائیں گے، لیکن غریب کو قانون اور اصول کے نام پر ایک فضول کی بلّی چڑھایا جائے گا۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس کوئی نہیں دیتا۔ جب کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ کیا ہر چیز خریدنے پر جو ٹیکس ہے، وہ کیا ہے؟ ہر چیز بیچنے پر ٹیکس ہے وہ کیا ہے؟ آمدنی پر ٹیکس ہوتا ہے، یہاں تنخواہوں پر ٹیکس ہے! موبائل کا بیلنس خریدو تو بھی ٹیکس دو اور پھر اسے استعمال کرو تو بھی ٹیکس دو۔ بجلی کے بلوں سے لے کر پانی اور گیس کے بلوں تک ہر جگہ عوام کے گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ تو اب آپ تیار ہوجائیے، اپنی ماں بہنوں کے زیورات نکالیے، بیٹیوں اور بہوﺅں کی بالیوں اور چوڑیوں کے حساب بنائیے۔ بندوق لے کر ریاست آرہی آپ کے پاس جمع پونجی کی آخری امید بھی قتل کرنے کے لیے!
شاید ظالم حکمرانوں کو اب آخری مرحلے میں یہ جائزہ لینا ہے کہ اس بھیانک مہنگائی اور بدترین معاشی حالات میں بھی اگر کسی عوام نامی مخلوق کے پاس اگر سونے کی ایک بالی بھی رہ گئی ہے تو آخر حکومت اور ریاست کے وجود کا کیا جواز رہا؟؟؟
ہے ناں!
تو اب کوئی ماں اپنی چوڑیاں بیچ کر بیٹی نہیں بیاہ سکے گی، کوئی جوان اپنی پس انداز کی ہوئی اس چند ٹکوں کی سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنے جو کا نہیں رہے گا۔ نہ بچوں کی تعلیم ہوگی، نہ کوئی زندگی کی ناگہانی سے باعزت طریقے سے نکلنے کی راہ۔ بھکاری حاکم عوام کے تن کے کپڑے اتار کر انھیں سڑک پر بھوکا پیاسا مارنا چاہتے ہی۔ یہی ہے کل خلاصہ ساری حکومتوں کی ڈرامے بازیوں کا!
اللہ ہمارے حال پر رحم فرما!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *