Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi Rizwan Tahir Mubeen Society جیو نیوز دل چسپ ذرایع اِبلاغ رضوان طاہر مبین سمے وار- راہ نمائی کراچی

صحافی کبھی ’سیاسی کارکن‘ نہیں ہو سکتا!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
بدگمانی بہت سے مہلک امراض کی طرح ایک لاعلاج بیماری ہے، لیکن پھر بھی اپنی طرف سے تو حجت تمام رہنی چاہیے۔ ’ہدایت‘ کا معاملہ اوپر والے نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، بالکل ایسے ہی عقل اور سمجھ بھی ہمیں کچھ ایسی ہی شے معلوم ہوتی ہے، اس لیے ہر لمحہ دعا کرنی چاہیے کہ رب تعالیٰ عقل اور سمجھ کو سلامت رکھے اور کھلے دل ودماغ کے ساتھ پسندیدہ اور ناپسندیدہ حقائق اور سچائی کا طلب گار رکھے۔
ہم ایک صحافی ہیں۔ ایک صحافی کا کام خبر کی تلاش اور خبر کی فراہمی، متعلقہ اور منطقی سوالات اٹھانا، حقائق کی پرکھ اور صورت حال کے تجزیے کے ساتھ ساتھ اصولوں کی پاس داری، انصاف کی بالادستی اور بنیادی انسانی حقوق کے تئیں پورا منظر پیش کرنا ہوتا ہے۔ اب ہماری بدقسمتی ہے کہ اکثر صحافی کسی نہ کسی گروہ، ادارے یا سیاسی جماعت سے لے کر کسی بلڈر وغیرہ تک کے کاسہ لیس اور ترجمان بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین، ناظرین اور سامعین بھی انھیں پھر اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے حساب سے ”اپنا“ اور ”پرایا“ سمجھتے ہیں اور صبح شام ان کے نام کی مالا جپتے ہیں یا تبرّا بھیجتے رہتے ہیں، جب کہ یہ ایک دو طرفہ غلط طرز عمل ہے۔
صحافی بھی ایک انسان ہوتا ہے، اس اعتبار سے غیر جانب داری کسی بھی ایمان دار صحافی کی ایک بھرپور کوشش ضرور ہو سکتی ہے، لیکن بہرحال اس میں گنجائش باقی نہ رہنا ایک مشکل امر ہے، اس کے باوجود صحافی کو اپنے موقف اور تجزیے میں مضبوط استدلال سے سامنے رہنا چاہیے اور پھر ایمان داری اور اپنی پوری صلاحیت و قابلیت کے ساتھ کوئی بھی بات سامنے پیش کرنی چاہیے۔
بہت سارے لوگ جو تمام صحافیوں کو صرف اپنی پسند کے بریکٹ میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، انھیں ایک دن کی بات، خبر یا استدلال بہت پسند آجاتا ہے، تو وہ اس پر واری واری جاتے ہیں، لیکن جب اگلے دن کی خبر یا کوئی استدلال ان کی پسند کا نہیں ہوتا تو وہ لَٹھ لے کر اسی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور بکاﺅ سے لے کر منافقت تک کے تمام الزامات اس پر عائد کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ہمیشہ سے ایسے رویوں کا شکار ہوتے چلے آئے ہیں، اب حقائق تو تلخ وترش ہوتے ہیں، اس کا کیا کیجیے۔ بہرحال، ہم اپنے طور پر تعمیری اور تخریبی دونوں طرح کی تنقیدوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ وضاحت کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے، کیوں کہ اب ہم یہ بات بڑی ذمہ داری سے کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہماری صحافت میں واقعتاً صحافی بہت کم رہ گئے ہیں، بہت سے تو جناب باقاعدہ ’دھندے باز‘ بنے ہوئے ہیں! بہت سارے مفاد پرست، بہت سے منافق اور کچھ نہیں تو سماج میں شریف اور دین دار تک کہلانے والے بھی بدترین ’غول پسندی‘ کا شکار ہیں اور اچھا خاصا مہلک کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہماری طرح کے شاید ہی کوئی ’نمونے‘ ہوں گے کہ جو ابھی تک آزادی سے جینے اور اپنی بساط کے مطابق پیشہ وارانہ فرائض کی ادائی میں جُتے رہنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کی بہت بھاری قیمت بھی ادا کر رہے ہیں!
بات کہیں اور نکل جائے گی، ہم موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، صحافی کے فرائض اور کردار کا ہم نے تذکرہ کر ہی دیا ہے، یہ تمام لوازمات اس کے کام یعنی خبروں، تجزیوں، مضامین، رپورٹ، فیچر اور انٹرویو وغیرہ میں جھلکنے چاہئیں۔ انسانی غلطی اور کمی بیشی کے امکان کے باوجود اس بابت ہر ممکن طریقے سے انصاف کرنا ایک لازمی امر ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ اب دوسرا پہلو صحافی کا بطور عام شہری کردار ہے، جس کے لیے وہ سب کی طرح ’سماجی ذرائع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) کا استعمال کرتا ہے۔ یہ زمانے کی تبدیلی ہے کہ صحافتی ذمہ داریوں میں اس جدید ذریعے کا بہت اہم کردار ہوگیا ہے، اور ہم اپنے صحافتی کام کو اس ذریعے سے بھی مشتہر کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک صحافی بھی اس میں اپنی ذاتی رائے، چٹکلے، لطیفے، چھیڑ چھاڑ، دل کا حال، الجھنیں، خوشی و غمی سمیت مختلف جذبات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اُسے بھی ایک عام شہری کے طور پر اس کا پورا حق حاصل ہے۔ اُسے صحافتی ذمہ داری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ذریعے آپ ضرور اس صحافی کی شخصیت اور رجحانات کو جان سکتے ہیں، اس کے تعصبات اور ذاتی پسند وناپسند کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ چاہیں تو اُسے ’جج‘ بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے آپ کو ایمان داری سے اس کے صحافتی کام کو سامنے رکھنا پڑے گا کہ یہ شخص ذاتی طور پر کچھ فلاں رجحان کا ہے، تو کیا اس نے اپنے کام میں اس پہلو کو جھلکنے دیا ہے یا واقعی انصاف سے کام لیا ہے، پھر آپ اس پر اس کی وضاحت بھی طلب کر سکتے ہیں، بطور قاری، ناظر یا سامع کہ آپ کا پورا حق ہے کہ آپ اس کے کام پر اپنا ردعمل دیں اور اگر تعریف کرتے ہیں تو تنقیدی جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ البتہ اس کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کی بنیاد پر اس کی صحافت کو سوالیہ نشان بنا دینا اور یہ کہنا کہ ’بطور صحافی آپ کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا‘ کافی غیر مناسب ہوگا۔ الّا یہ کہ یہ فیصلہ صادر کرنا کہ آپ نے ’فیس بک‘ پر کوئی پوسٹ کرتے ہوئے صحافتی اصولوں کے مطابق دوسرے فریق کی رائے نہیں لی! ارے جناب، فیس بک پر ہم بطور شہری کوئی چیز مشتہر کر رہے یا کوئی رائے دے رہے ہیں، یہ کوئی صحافتی ذمہ داری نہیں ہے کہ جہاں ہمیں یہ کہا جائے کہ جس پر تنقید کر رہے ہیں اس کی رائے بھی لیجیے، دوسری بات یہ کہ دوسرا رخ، دوسری طرف کا موقف کسی بھی ’خبر‘ کے لیے لینا لازمی ہوتا ہے، کالم، مضمون یا بلاگ وغیرہ میں تو آپ صرف اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔
صحافی بھی انسان ہے، وہ بھی اسی سماج میں زندگی بسر کرتا ہے، وہ بھی اپنے ایسے جذبات کا اظہار چاہتا ہے، جو صحافتی ذمہ داریاں روکے دیتی ہیں۔ قارئین کو صحافی کے اِس حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یقیناً صحافی کی اپنی رائے بھی ہوتی ہے، پسند وناپسند بھی ہوگی۔ اُسے حق دیجیے اور ہاں سب سے اہم بات کہ چاہے اس کی صحافتی ذمہ داری ہو، اس کے نظریات ہوں یا ’سماجی ذرائع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر اس کے وچار۔۔ اس کے استدلال کو ہر لمحہ سامنے رکھیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی صحافی کسی ’ملزم‘ کے واسطے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کر رہا ہے تو بھائی، وہ ملزم کا طرف دار یا اس کے مبینہ جرائم کا حامی کسی صورت میں نہیں کہا جاسکتا!
خدارا، یہاں اپنی ذاتی پسند وناپسند کو ایک طرف رکھ کر یہ سوچا کیجیے کہ آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اس صحافی کا یہ کہنا درست ہے یا غلط؟ اگر کوئی کہہ رہا ہے کہ پروپیگنڈے اور محض الزامات کی بنیاد پر کسی حوالے سے کوئی فیصلہ صادر نہ کیجیے، اس کے لیے عدالتیں اور شفاف مقدمے کی راہ ہونی چاہیے۔ ساتھ ساتھ حق اور سچ کی تلاش کے لیے تمام مطلوبہ تقاضے پورے کیے جانے چاہئیں، تو چاہے کسی بھی ’ملزم‘ سے آپ ذاتی طور پر کتنی ہی نفرت کرتے ہوں، یہ ضرور سمجھنے کی کوشش کیا کیجیے کہ یہ صحافتی جانب داری نہیں، وہ تو ایک بنیادی شہری حق کی بات کر رہا ہے، جو کہ اس کی پیشہ وارانہ ذمہ داری کا تقاضا بھی ہے۔ یقیناً انسانی حقوق کی پائمالیاں اور بھی ہوں گی اور اگر وہ کسی ایسے پہلو، نکتے اور زاویے کی بات کر رہا ہے، جس پر کوئی اور نہیں کر رہا تو یہ اس کا پیشہ وارانہ فرض ہے۔ آج کل خبروں اور اطلاعات کے حوالے سے ایک معاملہ خبروں کا لوگوں تک پہنچنا یا روکنا بھیبن گیا ہے۔ ’سوشل میڈیا‘ کی مجبوریوں سے لے کر عام ذرائع اِبلاغ تک، کس طرح آپ مَن چاہی اطلاعات زور شور سے پیش کر سکتے ہیں، لیکن جب چاہیں جس خبر اور موضوع، سیاسی جماعت اور مسئلے کا ’بلیک آﺅٹ‘ کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی اس ’بلیک آﺅٹ‘ میں کسی چراغ کی مانند ٹمٹانے کی کوشش کرے اور اس کے اپنے گروہ بند اور غول پسند ”پیٹی بھائی“ بھی اس پر برابر چڑھائی کر رہے ہوں، تو اس موقع پر صحافی کا حوصلہ بننا آپ کی سماجی ذمہ داری ہے۔ حق گوئی اور اصول پسندی صحافی کی طرح سماج کے باشعور لوگوں کو بھی ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہئیے۔
یاد رکھیے! کوئی بھی صحافی کبھی سیاسی کارکن نہیں بن سکتا، وہ کبھی کسی ’قائد‘، صدر، چیئرمین اور ’راہ بر‘ کا قصیدہ گو نہیں ہو سکتا، نہ ہی کسی سیاسی راہ نما اور شخصیت کو تنقید اور سوالات سے مُبرا قرار دے سکتا ہے۔ اس کا کام سچائی کی تلاش میں سوالات کرنا ہے، اس لیے سیاسی کارکنان اور سیاسی پسند وناپسند رکھنے والوں کو یہ سمجھ لینی چاہیے، صحافی کی پارٹی صرف اور صرف صحافت ہے، اس کی تلاش صرف سچ اور حقائق ہیں۔ اب وہ حقائق آپ کی پسند کے بھی ہو سکتے ہیں اور سخت ناپسند بھی، اس میں صحافی کا کوئی قصور نہیں ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights