سمے وار (خصوصی رپورٹ)
گذشتہ دنوں ’زیبسٹ‘ میں منعقدہ ایک پروگرام میں سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاق اور صوبے جتنا چاہے روپیا کراچی سے لے جائیں، لیکن کراچی کو خود وسائل پیدا کرنے اور خود حکومت کرنے کی اجازت دے دیجیے، بہت عرصہ ہوا یہاں نے اپنے نمائندے منتخب نہیں کیے، 1988ءاور 1990ءکے بعد سے منتخب نہیں کیے۔ 2007 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ فوجی استعمال کے ادارے الگ کیے جائیں اور شہری ادارے بلدیاتی حکومت کے ماتحت کیے جائیں۔ یہ آج تک نہیں ہوا۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے کہا کہ 17 سالہ حکم رانی کے بعد پیپلپزپارٹی اس حوالے سے بڑی واضح ہے کہ کراچی کو نہیں بننے دینا! ورلڈ بینک کہتا ہے کہ کراچی کے لیے 15 ہزار بسیں چاہیں۔ اس وقت صرف 400 بسیں چل رہی ہیں۔ اس موقع پر اے آر وائے کے میزبان وسیم بادامی نے کہا ایم کیو ایم کی ہڑتالیں نہ ہوتیں تو 700 بسیں ہوتیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں نے کہا کہ پہلے کراچی میں 22 ہزار بسیں تھیں، پتا نہیں آج ورلڈ بینک یہ کیسے کہتا ہے کہ کراچی شہر کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ یہاں تو آج بھی چھے ہزار بسیں رجسٹرڈ ہیں، یہ بسیں کچھ کمپنیوں سے مسنلک ہیں۔ یہاں تو 32 کلو میٹر سرکلر ریلوے کا ٹریک تھا۔ یہاں لیاری ایکسپریس وے بھاری گاڑیوں کے لیے بنا تھا، لیکن بھتے کی شکایت کی وجہ سے اسے نادرن بائی پاس سے جانا پڑتا ہے۔
Categories
کراچی نے 1990ءکے بعد سے اپنے نمائندے منتخب نہیں کیے، سابق ایڈمنسٹریٹر
