Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi Rizwan Tahir Mubeen Society انکشاف تہذیب وثقافت دل چسپ رضوان طاہر مبین کراچی

ہمارا اسلامیہ کالج: لائبریری، پہاڑیاں اور کرکٹ!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
اسلامیہ کالج آنے کے بعد ہم نے پہلی بار ’پبلک لائبریری‘ طرح کی کوئی ’چیز‘ دیکھی۔۔۔ کالج سے گرومندر کو جانے والی سڑک پر حبیب بینک کی چھت پر ’علامہ اقبال لائبریری‘ تھی، جس میں زیادہ تر کالج کے لڑکے وقت گزاری کرتے، اخبار وغیرہ پڑھتے، وہیں بہت سے عام شہری بھی پابندی سے وہاں آتے تھے۔۔۔ یہاں آنے والوں کے باقاعدہ رجسٹر پر نام اور پیشے وغیرہ درج کیے جاتے۔۔۔ بہت سے بزرگ وہاں بہت دیر تک بیٹھے اخبار اور کتب وغیرہ پڑھتے نظر آتے۔۔۔ ہمیں اس ’کتب خانے‘ کے بارے میں کچھ بعد میں معلوم چلا۔۔۔ کالج کا کتب خانے کی کتب تو تالے میں بند رہتی تھیں، جب کہ یہاں کتابیں کھلی تھیں، اخبارات کے علاوہ مختلف سیاسی ہفت روزے بھی موجود ہوتے۔۔۔ پچھلے ایک ماہ کے اخبارات کا ریکارڈ موجود ہوتا۔ ہم اس میں سے تاریخی چیزیں ٹٹولتے رہتے اور پھر اس کی فوٹو کاپی کراتے۔ فوٹو کاپی کے لیے لے جانے کے لیے کالج کارڈ رکھوا کر چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک فوٹو اسٹیٹ کی دکان پر جانا ہوتا تھا، جہاں شاید چھے ساتھ فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔۔۔
ہم سے تب بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر یا فارغ ذرا بھی نہیں بیٹھا جاتا تھا، اس لیے ہم نے اپنے بستے میں اخبار کے کالموں کے چھے، سات صفحے رکھ لیے تھے، اور وہ بس میں دوران سفر ’نمٹا‘ دیتے، یا پھر کالج میں کوئی کلاس نہیں ہو رہی ہو تو ہم اس وقت کو کارآمد کرلیتے۔۔۔ لیکن کلاسوں کے درمیان ایسے ’خلا‘ پُر کرنے کے لیے ہمارے لیے اس لائبریری کی دریافت بہت حیران کن اور بڑی نعمت تھی۔۔۔
کالج کی عمارت سڑک کے کنارے ایک لمبوتری سی شکل میں ہے۔۔۔ یعنی یوں سمجھ لیجیے، بس ایک سڑک اور فٹ پاتھ کے متوازی لمبی سی گلی ہے۔۔۔ اس ’گلی‘ کے درمیان کالج کا صدر دروازہ ہے، جس سے دائیں اور بائیں کالج کی راہ داری ہے، دائیں جانب شاید آڈیٹوریم تھا، لیکن اکثر اس طرف کا دروازہ بند رہتا تھا۔ صدر دروازے کے بالکل سامنے کی رخ پر کچھ پودے اور درخت وغیرہ تھے، عدم توجہی کے سبب اُسے باغ تو نہیں کہا جاسکتا۔۔۔ تاہم تھا کچھ اسی طرح کا کچھ سبزہ۔۔۔ سامنے سے سیڑھیاں اوپر کی منزل کو جاتی تھیں، جب کہ بائیں طرف لائبریری اور پرنسپل وغیرہ کے کمرے ہوتے تھے۔ اسلامیہ کالج کی وسیع وعریض اور پرشکوہ لائبریری، جس میں بھری ہوئی کتابوں کی الماریوں پر تالے پڑے رہتے تھے۔۔۔ یہ کالج کے لڑکوں کے لیے ایک بیٹھک، نوٹس بنانے کے لیے ایک آرام دہ جگہ، بات چیت کرنے اور اخبار پڑھنے کے لیے ایک اچھی جگہ تھی۔۔۔ اس کی اونچی چھت کے ساتھ سڑک پر کھلنے والے دیو قامت روشن دان تھے، جہاں سے روشنی ہوا سے زیادہ دھواں اور شور کرتی بسوں اور پانی کے ٹینکر اور دیگر بھاری گاڑیوں کی گھن گرج سنائی دیتی تھی، اور یہ گرج تو ایسی ہوتی تھی کہ اس سے ذرا دیر کو پوری عمارت لرزتی تھی اور آپ کو ذرا دیر کے لیے کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی، اس لمحے میں کلاس ہو رہی ہو تو استاد کو لیکچر کے دوران ٹھیرنا پڑے، اگر کوئی بات کر رہا ہے تو اس سمع خراش دھمک کے کم ہونے کا انتظار کرے۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ پھر یہ کیا گیا کہ لکڑے کے تختے ٹھونک کر لائبریری کے ان ’بے در‘ روشن دانوں کو بند کر دیا گیا، یوں کتب خانے کا ماحول کافی شانت ہوگیا۔۔۔ لیکن پہلی منزل پر کلاسوں کا حال بدستور ویسا ہی رہا۔۔۔ یہاں بہت کم کھڑکیوں کے دروازے تھے۔۔۔ کھڑکیوں کے دروازوں کے پار سیمنٹ کی موٹے سوراخوں والی جالیاں تھیں، یعنی کھڑکیوں سے کوئی باہر نکلے تو وہ عمارت کی جالیوں اور کھڑکی کے درمیانی خلا میں رہے گا، باہر نہیں گرے گا۔۔۔ تیسری منزل پر ان جگہوں پر جنگلی کبوتروں نے گھونسلے بھی بنائے ہوئے تھے، جس میں ان کے چوزوں سے بھی ننھے بچوں کی ’چوں چوں‘ سنائی دیتی تھی۔۔۔ تیسری ہی منزل پر شعبہ¿ عمرانیات کی کلاس کی کھڑکیاں سلامت تھیں، اس کے علاوہ ہماری باقی تو ساری کلاسیں پہلی منزل پر ہوتیں۔۔۔ پھر ’بین الاقوامی تعلقات‘ کی کلاس اسی کے برابر میں ہونے لگی تھی، کالج کی دوسری منزل مکمل طور پر خالی رہتی، شاید امتحانات کے دنوں میں بطور ’امتحانی مرکز‘ یہاں طلبہ کو پرچا حل کرانے کے لیے اہتمام کرایا جاتا ہوگا۔۔۔
کالج کی تیسری منزل سے دیکھیے تو شہر کا بہت دور تک کا نظارہ نگاہوں کے سامنے ہوتا۔۔۔ شاید جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ علاقہ بلند تھا، تبھی دور افق پر ترتیب سے اورنگی ٹاﺅن کی پہاڑیاں بالکل صاف دکھائی دیتی تھیں، کبھی فضا میں خاک ودھول زیادہ ہوتی تو یہ منظر قدرے دھندلا ضرور جاتا۔۔۔ یہ کراچی کی وہی پہاڑیاں ہیں، جسے کاٹ کر بعد میں ایک راستہ نکالا گیا، جو ’کٹی پہاڑی‘ کہلایا۔ کٹی پہاڑی کا یہ شگاف بھی پھر یہاں سے بہت آسانی سے دکھائی دینے لگا تھا۔۔۔
ہمارے چھے میں سے صرف تین مضامین ہی کی کلاس پابندی سے ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے فرصت کے وقت میں ہم اس راہ داری کی دیوار پر ٹک کر کھڑے رہتے۔۔۔ کالج میں ہمہ وقت جاری رہنے والی کرکٹ دیکھتے، ہمیں یہ بڑا عجیب لگتا تھا کہ اسکول میں تو ’بریک‘ میں کھیل کود ہوتی ہے، یہاں تو ہر وقت ہی بریک ہی بریک ہے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے کہ پڑھو گے کب۔۔۔؟ کبھی تو ایسا لگتا کہ یہاں سبھی طالب علم کھیل رہے ہیں، یا پھر کھیل دیکھ رہے ہیں، اور کالج کی راہ داریوں میں کھڑے ہوئے چوکوں اور چھکوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، تبصرے کر رہے ہیں اور تالیاں بجا کر آوازیں لگا کر داد وتحسین بھی دے رہے ہیں۔ اگر کھیلنے والا کوئی دوست یار ہے، تو چھیڑ خانی کو جملے بھی اچھالتے جا رہے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ سامنے کافی دور اسلامیہ سائنس کی راہ داری میں بھی چہل پہل دیکھی جاتی، کیوں کہ اسلامیہ سائنس میں مخلوط تعلیمی سلسلہ تھا۔۔۔ اس لیے آپ اِسے کسی کلاس کے انتظار میں ’بوریت‘ دور کرنے کا ذریعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ ’اسلامیہ کالج کمپلیس‘ کہلانے والا یہ پورا ایک چوکور حاطہ تھا، درمیان میں ’اسلامیہ لا کالج‘ تھا، اس کے بعد ہمارے کالج جیسی تین منزلوں سے آراستہ اگلے سِرے پر اسلامیہ سائنس کالج، جب کہ دائیں طرف کی تین منزلہ عمارت میں سرکاری اسکول تھے، یہاں سب سے زیادہ بچے بھاگتے دوڑتے دکھائی دیتے۔۔۔ یعنی یہ ’لا کالج‘ کو چھوڑ کر یہ تینوں عمارتیں ’یو‘ کی شکل میں باہم جڑی ہوئی تھیں، لیکن ان کے درمیان ہر منزل پر دیوار موجود تھی۔
ہمارے کالج میں کلاسوں میں ڈیسک پرانے ضرور تھے، لیکن بہتر تھے، پنکھوں کا یاد نہیں پڑتا کہ تھے یا نہیں۔ اگر نہیں بھی ہوں گے تو کھلی ہوئی کھڑکیوں کے سبب ضرورت ہی نہ پڑتی ہوگی۔۔۔ سامنے بلیک بورڈ لکڑی کا تھا۔۔۔ یہ ہمارے لیے نئی چیز تھی، ہم دیوار میں بنے ہوئے سیمنٹ کے بلیک بورڈ پر پڑھتے آئے تھے، لیکن یہ لکڑی کا بنا ہوا بورڈ الگ سے دیوار میں نصب تھا، اور ساخت اس کی ایسی تھی کہ نیچے سے اس کی چوڑائی اوپر تک جاتے جاتے تین چار گنا بڑھ جاتی، یوں اس کا اوپری حصہ جھکا ہوا محسوس ہوتا، یہ نہایت مضبوطی سے دیوار سے جڑا ہوا ہوتا تھا اور اس بورڈ کے نیچے ایک بریکٹ سا تھا جس میں چاک اور ڈسٹر وغیرہ رکھے جاتے۔۔۔
٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights