Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

کسی عمارت پر لکھ دینے سے وہ ’اسلامیہ کالج‘ نہیں ہوجاتا!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
گذشتہ برس حُکام کی غفلت سے جمشید روڈ پر واقع کراچی کا معروف ’اسلامیہ کالج‘ نجی ملکیت میں چلا گیا اور ’سرکار‘ نے بفرزون میں کہیں جا کر ’گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس و کامرس کالج‘ قائم کرلیا۔۔۔ کچھ دن قبل ہم جب اپنے ویران اسلامیہ کالج کے سامنے سے گزرے، تو اِسے دیکھ کر ہمیں بہت دکھ ہوا۔۔۔ اب ’اسلامیہ کالج‘ کے سامنے چورنگی پر نصب تاریخی گلوب تو ہٹنا ہی ہے، اس سے بھی پہلے ہمارا ’اسلامیہ کالج‘ بھی وہاں سے رخصت کر دیا گیا ہے۔ اب یہ کون سوچتا ہے کہ کسی بھی عمارت پر ’اسلامیہ کالج‘ لکھ دیں گے اور وہ ’اسلامیہ کالج‘ ہوجائے گی؟ہر گز نہیں۔۔۔!
ہم نے اسلامیہ آرٹس کامرس کالج میں اپنی تعلیمی زندگی کے بہت قیمتی چار برس گزارے ہیں، وہاں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ پایا ہے! اس لیے ہمارے لیے ’گورنمٹ اسلامیہ آرٹس کامرس کالج‘ کی یہ افسوس ناک رخصتی ایک اچھا خاصا دھچکا ہے۔
ہوا یوں اکیسویں صدی کے تیسرے برس ہمارے تعلیمی مرحلے میں ’کالج‘ کا پڑاﺅ آیا۔۔۔ اور ناظم کراچی نعمت اللہ خان کی شہری حکومت کے تحت جاری کی گئی ’مرکزی داخلہ پالیسی‘ میں شہر بھر کے سرکاری کالجوں میں اپنے ’سی‘ گریڈ اور آرٹس کے مضامین کے حوالے سے بہت سوچ بچار اور مشاورت کے بعد ’تاریخ‘ اور ’نفسیات‘ کے مضامین دیکھ کر ’گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج‘ کو انتخاب کے خانے میں اول لکھا، دوسری ترجیح شاید نیشنل کالج اور تیسرے انتخاب میں ایس ایم آرٹس کالج لکھا تھا۔۔۔
قسمت نے پورا ساتھ دیا، جب داخلوں کا اعلان ہوا تو ہمارا نام ’اسلامیہ کالج‘ میں آچکا تھا۔۔۔ ہم نے میٹرک سے پہلے کبھی اکیلے بس کا سفر نہیں کیا تھا، اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن تینوں ہی محلے میں تھے، باقی گھر سے دور جانے کے حوالے سے کافی روک ٹوک بھی تھی، ورنہ سکینیڈری کلاس میں آنے کے بعد ہمارے بہت سے ہم جماعت چار کلو میٹر کی مسافت پر واقع ’صدر‘ اکیلے جانے کا ذکر کرتے رہتے، لیکن ہم کبھی اکیلے نہیں گئے تھے، پھر پہلی بار میٹرک کے بعد کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر دور اپنے تایا کے گھر گئے، وہ بھی ہم نے گھر میں یہی کہا تھا کہ ہم دوست کے ساتھ جائیں گے، لیکن ’دوست‘ نے عین وقت پر گولی دے دی تو ہم بہت دل برداشتہ ہوئے اور اکیلے ہی بس پکڑی اور چلے گئے۔۔۔ اور حقیقت گھر میں بعد میں بتائی۔ خیر، اب ’جنوبی کراچی‘ کے اپنے محلے تک محدود مجھ جیسے ’بچے‘ کے لیے اسلامیہ کالج بہت دور تھا، لیکن ہمیں اپنے آرٹس کے پسندیدہ مضامین اسی کالج میں ملے تھے، اس لیے ہم نے بہ ضد ہو کر وہاں داخلہ لیا۔ کبھی اسلامیہ کالج دیکھا ہی نہ تھا، اتا پتا سنا تو ہمیں پتا چلا کہ ’مزار قائد‘ کے پاس ہے۔ اور ہم ’مزار قائد‘ اپنے گھر سے بہت دور‘ تصور کرتے تھے۔ اب داخلہ ہوجانے کے بعد کالج دیکھنے جانا تھا، تو ہم اپنے ابو کے ساتھ 4H بس میں بیٹھے، جس میں سارے سفر گانا ’تیرے نام‘ بج رہا تھا اور بس صدر سے ہوتے ہوئے بہت رینگتی رینگتی گرومندر تک پہنچی۔۔۔ فرصت کی اُس سہ پہر بس کی یہ سست روی ہمیں بہت بہت بھلی لگی تھی کہ اچھی طرح شہر کا نظارہ کر رہے ہیں، لیکن ابو وقت کے ضیاع پر بہت ناخوش تھے۔ ہم گرومندر پر اتر گئے۔۔۔ اِدھر اُدھر نظر گھمائی کہ ’اسلامیہ کالج کہاں ہے۔۔۔؟
ارے، اِدھر کہاں؟ ابھی تو پیدل چلنا ہوگا۔۔۔ سو، گرومندر کی سبیل والی مسجد سے سامنے کی سمت کو نکلنے والی سڑک پر آئے۔۔۔ یہ تو ایک الگ دنیا تھی۔۔۔ ویرانہ تو نہ تھا، لیکن بہت کم آباد ضرور تھا۔۔۔ ’کاسموپولیٹن سوسائٹی‘ نام کی یہ نگری اپنے اندر ایک عجیب سی پُر اسراریت رکھتی ہے، خیر ہم پیدل چلنا شروع ہوئے۔۔۔ سڑک کے کنارے پر کاٹھ کباڑ زیادہ پڑا ہوا تھا، کہیں پنکچر اور ٹائر والے بیٹھے ہیں، تو کہیں پرانی گاڑی کھڑی ہیں، تو کہیں کوئی ریڑھی اور ٹھیلے والے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ کہیں گھوڑا گاڑی والے اپنے گھوڑوں کو سُستانے کے لیے گاڑی سے الگ کیے بیٹھے ہیں۔۔۔ کہیں وہ اس کی مالش کر رہے ہیں، کہیں پر گھوڑے کے پیر اٹھائے اس کی ’نال‘ کو درست کر رہے ہیں، کوئی گھوڑا چہرے پر تھیلا چڑھائے چارہ کھانے میں بھی مگن ہے۔ ’گرومندر‘ کے شور شرابے سے نکلیے، تو یہاں واضح ٹھیراﺅ سا محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ اس دو رویہ سڑک پر آمدورفت ذرا کم کم ہے۔۔۔ چلتے چلتے درمیان میں پھر ایک چھوٹی سی چورنگی آگئی، دائیں سے بائیں ایک سڑک جا رہی ہے، ہم اسے پار کرکے مزید آگے بڑھتے گئے، لیکن کالج ابھی اور دور تھا۔۔۔ ہم راستہ ذہن نشین کرنے کو چوکنا تھے، کہ بس ’گرومندر‘ سے اتر کر سیدھا سیدھا چلنا ہے، آخر کو یہ ’شانت سڑک‘ ہم سے رخصت ہوئی اور سامنے دنیا کا ایک بڑا سا گلوب نصب دکھائی دینے لگااور اب اس شاہ راہ پر دائیں طرف بغلی سی سڑک سے نکلنے والی گاڑیوں کا شور گویا ہاہاکار مچا رہا تھا۔۔۔ دائیں طرف سرخ رنگ کی سفید جالیوں والی عمارت ’اسلامیہ کالج‘ تھی۔۔۔ منفرد عمارت میں نصب سفید سمینٹ کی مخصوص جالیاں اسے اس منظر میں کچھ الگ طرح کا ہی رخ دے رہی تھیں۔۔۔
پھر ہم آگے آئے۔ ’اپنے‘ مستقبل کے اس کالج کو چُھو کر دیکھا۔۔۔ داخلہ فارم لینے کی غرض سے کالج کی موٹی سی دیوار میں بنی ہوئی بہت ہی چھوٹی سی ’کھڑکی‘ سے دیکھا تو اندر ’زندگی‘ موجود تھی، مگر پتا چلا کہ اب تو یہ ’شام‘ کے کالج کا عملہ ہے، جب کہ ہمارا کالج تو ’صبح‘ کا ہے، اس لیے ہمیں صبح کو ہی فارم وغیرہ مل سکے گا۔۔۔ تو یوں ہمارا اسلامیہ کالج کا پہلا درشن ہوا۔۔۔ بس کی طویل مسافت کے بعد پیدل چلنے نے سفر کو اچھا خاصا طویل کر دیا تھا۔۔۔ پھر شاید واپسی میں ہی ہم نے دیکھ لیا تھا کہ جس راستے کو ہم نے پیدل طے کیا ہے، اس پر بھی دو مسافر بسیں 11-C اور 4M بھی دکھائی دے رہی ہیں، پھر شاید ہم واپس صدر تک اسی کسی بس میں آئے اور غالباً یوں ہمیں دو بسیں بدل کر سفر آسان کرنے کی ایک راہ معلوم ہوگئی۔۔۔ اس کے بعد معمول کی آمدورفت براستہ صدر دو بسیں بدل کر ہی ہوتی رہی۔۔۔ شروع میں مسافر بس کا کرایہ چار روپے ہوتا تھا، تو طالب علم ہونے کے ناتے نصف یعنی دو روپے لگتا۔۔۔ پھر پانچ روپے ہوا تو دونوں بسوں میں ڈھائی، ڈھائی روپے بنتے تے۔۔۔ اور پھریہی کرایہ برقرار رہا۔۔۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ ہم کرایہ بچانے کی خاطر گرومندر سے 4H میں بیٹھنے لگے، لیکن فور ایچ کی گاڑیاں خاصی کم تھیں، اس لیے یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا۔۔۔ ’فور ایچ‘ میں بیٹھنے کے لیے کالج سے گرومندر کی مسافت کوئی 10منٹ پر محیط تھی، اگر کسی سے باتیں کرتے ہوئے جا رہے ہوں، تو یہ راستہ معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، لیکن ہم نے تنہا بھی اس شانت مسافت سے بہت ’لطف‘ لیا ہے۔۔۔ بوڑھے پیڑوں والا یہ راستہ ہمیں دھیان نہیں پڑتا کہ کبھی شدید گرمی یا دھوپ کے سبب پریشان کُن رہا ہو۔۔۔ یہ راستہ جامعہ کراچی کے ’سلور جوبلی‘ گیٹ سے آرٹس لابی جتنا طویل تو نہیں کہ جس سے گزرنے کے دوران بقول حیدر اقبال انصاری کہ ”آپ کا شیو بڑھ جائے اور اس دوران بہت سی لڑکے لڑکیوں کے دل مل کر الگ بھی ہوجائیں اور کچھ کے شادیاں اور بچے تک ہو جائیں۔“
بہرحال کالج میں داخلے کے مراحل کے لیے ایک دو بار اپنے دوست اسحٰق کے ساتھ آئے، نجی اسکول سے نکل کر سرکاری کالج میں آکر داخلہ فارم، بینکوں میں فیسیں جمع کرانا اور رجسٹریشن کے دیگر مراحل بڑی جان جوکھم کے تھے۔۔۔خاص طور پر بنوری ٹاﺅن مسجد کے پاس واقع ’ایم سی بی‘ بینک سے قطار میں لگ کر پے آرڈر بنوانا۔۔۔ پھر فارم کی لائن۔۔۔ اور پھر فارم کے ساتھ ’سیاست میں حصہ نہ لینے اور 75 فی صد حاضری کا ایک عدد حلف نامہ اور پھر اس پر 17 گریڈ کے دو افسران کے دستخط کرانا، بہت زیادہ کوفت والے تھکا دینے والے عمل تھے۔۔۔ ہمیں لگا کہ میٹرک میں اس طرح کے فارم اسکول کو خود بھرنے کے بہ جائے طلبہ سے پُر کروانا چاہئیں، تاکہ انھیں اس مرحلے پر دقّت نہ ہو۔۔۔
٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights