Categories
Education Health Interesting Facts Society تعلیم تہذیب وثقافت دل چسپ سمے وار بلاگ صحت

چائے کے مزے پر موڈ بگاڑنے والے ‘جین زی’

تحریر: فاروق احمد
دنیا بھر کی نئی جنریشن المعروف جینزی میں اپنی پیش رو جنریش کی نسبت بے گانگی اور لاتعلقی کا عنصر کہیں زیادہ ہے ۔ اس کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ایک شہر سے گزرنے یا مختصر قیام کرنے والا مسافر اپنے اردگرد سے لاتعلق رہتا ہے بہ نسبت ایک رہائشی کے۔ فرض کیجیے آپ کسی ہوٹل یا “گیسٹ ہاؤس” میں دن گزار رہے ہیں، جہاں آپ کو نہ پانی کا دھیان رکھنا ھے نہ ‘اے سی’ پنکھے کھلے چلتے رہنے سے فرق پڑتا ھے اور نہ ہی اس سے کہ ہوٹل انتظامیہ کھانے کا انتظام کیونکر کریں گے۔ یہ اس لیے کیوں کہ آپ کو سب پکا پکایا تیار کمرے میں بیٹھے بیٹھے مل رہا ہے یا فقط ایک گھنٹی یا روم سروس کا نمبر ملانے سے۔ جینزی اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ۔ انھیں تو ان سب چیزوں کا بل بھی نہیں ادا کرنا۔ یہ سب ان کے اماں باوا کی ذمے داری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کی اپنے اطراف اور ماحول اور ذمے داریوں سے بے گانگی کیسے دور ہو؟
جنریشن زی کی پہلی اور دوسری کھیپ اب عملی زندگی یعنی کمانے کے دور میں قدم رکھ چکی ہے اور وہ بھی اس دھج سے کہ اپنے کافی اور چائے کے ذائقے کے علاؤہ انھیں کسی سے غرض نہیں ہے۔ چائے بری ہے تو دن برباد، کافی کا فلیور اور جھاگ مناسب نہیں تو ڈپریشن اور موڈ خراب ۔ ۔
ہمارے ابا کے الفاظ میں “سالے لینڈی خاں۔۔” اب یہ لینڈی خاں جنزی ہماری والی جنریشن کی اولاد ہیں تو اس لیے ہاؤ ہو کر لیتے ہیں اور ہم یعنی جنٹل پیرنٹنگ والے فلسفے کے جگالسث کنفیوزڈ ہیں کہ بچے کو ڈانٹا تو سب تھو تھو کریں گے۔ اگر کہیں اگر ہمارے باپ دادا والی جنریشن کی ڈائریکٹ اولاد ہوتے تو چوٹ کھائے کتے کی طرح آج یہ سارے “جینزی” تیر کی طرح ستے ساوترے ہوتے ۔ اتنا مذاق بنتا کہ سیدھے ہو کر انسان کا بچہ بنے رہنے کے سوا چارہ ہوتا نہ لُوسن۔۔
لیکن جنریشن زی کی اس لینڈی خانیئت کا یہ ماجرا اے خدا کیا ہے یہ قصہ ہے فراوانی اور بہ آسانی فراہمی کا۔۔ زندگی اچھی طرح سے گزارنے کی تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ سوچیے، گئے وقتوں میں اچھی شخصیت، اچھی تعلیم، اچھی آمدنی دراصل اچھی لڑکی اور اچھی رہائش ملنے کی بنیادی شرائط ہوا کرتی تھی۔۔ آج یہ ہدف بنا کسی تیر بہ ہدف نسخے کے حاصل ہو جاتے ہیں ۔ جس کے پاس باپ کی پراپرٹی کے نام پر گئے وقتوں کا دس گز کا چبوترہ ہے جس کی قیمت ایک آدھ کروڑ کو پہنچ گئی ہے وہ اسے بیچ کر فلیٹ کار پکڑ لیتا ہے اور لڑکی تو پھر بیوی کے نام پر بے چاری کے ماں باپ اللہ توکل تھما ہی دیتے ہیں کہ گدھا نہ سہی الو یا اس کا پٹھا ہی سہی۔۔
اب وہ شادی دو دن چلے یا دو ہزار سال۔
تو پیارے بھائی، بات یہ ہے کہ یہ جو جین زی ہیں یہ زمینی حقائق سے دور ہیں اور سمجھتے ہیں من و سلویٰ ازل سے یوں ہی استوار ہے اور تا ابد ملتا رہے گا ۔ کاش ایسا ہوتا، خیر اب بات اتنی سادہ بھی نہیں۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights