(تحریر: رضوان طاہر مبین)
”وہ چار سال سے اپنی مرحوم شریک حیات (روشن آرا) کی یادوں میں گُم ہیں۔ اس ہجر اور جدائی نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی حقیقت نہیں بلکہ کہانیوں، کتابوں، افسانوں اور ڈراموں کی کوئی فرضی کتھا ہو، لیکن یہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور سراسر حقیقت پر مبنی ہے۔“ ہماری دو نومبر 2023ءکو ان سے ملاقات ہوئی، جو بدقسمتی سے آخری ملاقات ثابت ہوئی
اردو ادب کے معروف جاسوسی قلم کار ایچ اقبال 14 اپریل 2025ءکو 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، وہ 1941ءمیں رام پور میں پیدا ہوئے، 1947ءمیں کراچی آگئے اور پھر 1960ءکے زمانے سے لکھنا شروع کیا اور نمایاں ترین قلم کاروں میں شمار ہوئے۔ انھیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے کتنے ناول لکھے، لیکن ایک تحقیق کے مطابق یہ تعداد 136 ہے، ان کی مقبولیت کی بنا پر ان سے ملتے جلتے مختلف ناموں سے بھی بے شمار ناول آنے لگے تو ناولوں پر ان کی تصویر بھی دی جانے لگی تھی۔
ایچ اقبال سے ہماری اُس آخری ملاقات میں ہم نے ’فیڈرل بی ایریا‘ کراچی میں اُن کے چھوٹے سے کرائے کے نئے گھر کا منظر بھی دیکھا، بس یہی ان کی خواب گاہ بھی تھی، پلنگ پر سرہانے ان کی شریک حیات کا تکیہ رکھا ہوا تھا، اور اس پر اُن کا موبائل فون بھی دھرا تھا قریب ہی موجود ایک سنگھار میز پر لپ اسٹک اور بناﺅ سنگھار کے جملہ لوازمات کچھ یوں سجے ہوئے تھے، گویا یہاں سے کوئی ابھی ابھی میک اپ کر کے اٹھا ہو!
سامنے کی جانب چار تصاویر کے علاوہ بائیں جانب ان کے سرہانے بھی اپنی شریک حیات کی ایک تصویر رکھی ہوئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ میں جینے اور خوش رہنے کی کوشش کرتے کرتے تھک چکا ہوں، کہیں جا آ بھی نہیں سکتا، مجھے اسی کمرے میں آکر سکون ملتا ہے۔ ابھی ایک جگہ شادی میں گیا، تو آدھا پونے گھنٹے کے اندر ہی طبعیت گھبرا گئی، وہاں لوگوں کو دیکھ کر مجھے اپنی بیوی اور زیادہ یاد آئی اور میں زار وقطار روتے روتے وہاں سے اٹھ آیا اب تو میں نے لوگوں سے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے نہ بلایا کیجیے، خوامخواہ آپ کی تقریب خراب ہوگی اور مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا۔ شکیل عادل زادہ میرے بہت پرانے اور مخلص ساتھی ہیں، ان کی بیٹی میرے ہاتھوں کی کھیلی ہوئی ہے، اُس کی شادی پر نہ جانے پر شکیل بھائی بہت برا مان رہے تھے، لیکن میں کیا کروں؟
اپنی شریکِ حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ ڈیڑھ، پونے دو گھنٹے کی اِس ملاقات کے دوران تین سے چار بار اپنے جذبات نہ سنبھال سکے، اشک بار نگاہوں کے ساتھ گویا ہوئے کہ ’بالکل قابو نہیں رہتا، آپ سے بات کرتے ہوئے بھی اُس کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا انھوں نے محبت کی شادی کی تھی؟ تو انھوں نے بتایا کہ ہاں، ہم نے ایک دوسرے کی آواز سے ہی ایک دوسرے کو پسند کیا تھا۔ ہم نے حیرت ظاہر کر کے استفسار کیا، تو انھوں نے بتایا کہ روشن آرا میری بھاوج کی بہن تھیں، ایک دن میں یونھی سیڑھیوں پر سے گنگناتا ہوا جا رہا تھا، تو انھوں نے سن لیا اور کہا کہ میری بہن بھی بہت اچھا گاتی ہے، یوں ہم ایک دوسرے متعارف ہوئے اور یہ سلسلہ چل نکلا، جب شادی کی بات ہوئی، تو میری کمزور مالی حیثیت آڑے آئی تھی، لیکن روشن آرا نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ میں شادی کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ الگ گھر لے لیجیے، کسی پر کیا بوجھ بننا، میں نے شادی تک تین چار ہی ناول لکھے تھے۔ اس سے کہا کہ ذرا ہاتھ میں پیسے آجائیں، اُس نے کہا میں آپ کے ساتھ ایک جھونپڑی میں بھی رہ لوں گی، میں نے کہا کیوں کہ نئے گھر میں تو اور بھی بہت سی چیزیں لینی پڑتی ہیں، تو وہ ایک رومال میں باندھ کر اپنا سارا زیور لے آئی کہ یہ بیچ دیجیے ورنہ میں اِسے پھینک دوں گی! مجبوراً میں نے ’رہن‘ رکھوایا اور گھر لیا، بعد میں جب پیسے آگئے تو وہ زیور چھڑا لیا۔ شادی کے بعد اس کی ماں نے بلایا، تو اس نے کہا کہ آپ اُن سے کہیے، گھر کے سربراہ تو یہی ہیں، پھر انھوں نے مجھ سے کہا تو پھر ہم ان کے ہاں گئے۔ میرے بغیر وہ کبھی کہیں نہیں گئی، میں تو کام کاج کے لیے ظاہر ہے اس کے بغیر چلا جاتا تھا تو اس کی نگاہ میرے لوٹ آنے تک دروازے پر ہی رہتی تھی۔
ایک مرتبہ میکے والوں کے ساتھ طارق روڈ پر شاپنگ کر رہی تھی، تو اس نے اس زمانے میں 10ہزار تک کی خریداری کرلی، جب کہ میکے والوں نے چار پانچ ہزار تک کی کی ہوگی، میں نے پوچھا کہ ہم نے خریداری تو کرلی تھی، یہ آج اتنی زیادہ کیوں، تواس نے کہا یہ میں نے ان کے منہ پر جوتا مارنے کے لیے کی ہے، کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی مالی حیثیت کم ہے، آج انھیں یہ سب دکھانا تھا۔
وہ گھر میں سارے کام خود کرتی تھی، سِل بٹّا دیکھ کر بھی مجھے وہ یاد آجاتی ہے۔ شامی کباب تو اسی پر پیستے تھے، آخری میں جب اسے نیچے بیٹھنا ممکن نہیں رہا تھا، تو پھر میں سِل بٹّے پر پیستا تھا۔ الماری میں اس کی ساڑھیاں بھری ہوئی ہیں، لیکن میں کسی کو دینے کی ہمت نہیں پاتا، میرے مرنے کے بعد فی سبیل للہ دے دیں، لیکن جیتے جی مجھ سے اس کی کوئی چیز الگ ہو تو میں مر جاﺅں گا!
جب میں بال کٹوا کر آتا تھا، تو دیکھتی تھی کہ صحیح نہیں کاٹے، حجام کو فون کر کے کہتی کہ ایسے کاٹنے چاہیے تھے، اور پھر دوبارہ بھیجتی۔ اب بال بھی کٹوا کر آﺅں، تو وہی یاد آتی ہے۔ مجھے تو اس کی ایک ایک بات ہر وقت یاد آتی ہے، یہاں تک کہ وہ پان چھوٹا سا کھاتی تھی، اور اپنے دانتوں کا بہت خیال رکھتی تھی، 72 سال کی عمر میں بھی اس کا ایک دانت بھی خراب نہ تھا، جب کہ میری اپنی بے پروائی کے سبب سارے دانت خراب ہوگئے، میں پان منہ میں رکھ کر سو جاتا تھا، مجھے اپنی بتیسی بنوانا پڑی، جو پرانا گھر بدلنے میں کھو گئی، پھر دوبارہ نہیں بنوائی۔
ہماری شادی ہوئی، تو وہ کوئی کام نہیں جانتی تھی، سب کچھ میری خالہ اور بڑی بہن ’باجی جان‘ سے سیکھا، پھر ’باجی جان‘ کہتی تھیں کہ یہ مجھ سے بھی اچھا پکانے لگی ہے۔ اس کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ہم ہندوستان گئے، وہاں کوئی ڈش کھائی، تو اس نے وہاں کھاتے ہوئے کاغذ قلم سے ساری چیزیں لکھ لیں اور گھر آکر انھی مسالوں کے ساتھ پکایا، تو کہنے لگی ویسا نہیں پکا، کیوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے یہ مسالے کتنی مقدار میں ڈالے۔ اس طرح جب چوتھی بار پکایا، تو بالکل وہی ذائقہ تھا۔ ایسے ہی ساڑھی کے بلاﺅز کے سوا کبھی کچھ درزی سے نہیں سلوایا، سبھی کچھ خود سیتی تھی، بس ایک بار دیکھ لیا اور پھر گھر آکر ویسا خود ہی سی لیا۔
میں خود کو سمجھاتا رہتا ہوں کہ اگر اس سے پہلے میں چلا جاتا تو اُس کا کیا ہوتا، لیکن دماغ کی یہ دلیل میرا دل نہیں مانتا۔ ہم نے کہا یہ دلیل آپ کی واقعی بہت وزن دار ہے، آپ اسے اپنی زندگی کا ان پر ایک اور احسان سمجھ لیجیے کہ آپ نے انھیں دکھ دینے کہ بہ جائے یہ اذیت بھی آپ ہی نے لی۔
جون 2019ءمیں ہم نے روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے لیے ایچ اقبال صاحب کا انٹرویو لیا تھا، جس کے بعد سے ان سے ہمارا ایک تعلق قائم ہوگیا تھا۔ اس انٹرویو کے وقت بھی ان کی شریک حیات روشن آرا بیگم علیل تھیں، پھر پانچ اگست 2019ءکو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ جس نے اُنھیں بالکل تنہا کر دیا تھا، اس کے بعد انھوں نے باقی وقت انھی کی یادوں میں گزارا۔ اور بھی بہت سی تلخیوں کا انھوں نے ہمیں شریک کیا تھا، مختصر یہ کہ ہم نے بہ حیثیت مجموعی اردو ادب کے اس عظیم قلم کار کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا!
کچھ ضروری کام انھوںنے ہمارے ذمے بھی کیا تھا، جس کے لیے ہم کوشاں بھی رہے تھے، لیکن ہم اس کوشش میں خاطر خواہ کام یاب نہ ہو سکے پھر وہ دنیا سے چل بسے۔ اب شاید عالم بَرزخ میں ان کی اپنی شریک حیات سے ملاقات بھی ہوگئی ہوگی، جس کی یادوں میں انھوں نے اپنی زندگی کے تقریباً چھے برس گزار دیے تھے!
٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
”میں جینے کی کوشش کرتے کرتے تھک چکا!“ ایچ اقبال سے آخری ملاقات کا احوال
