(تحریر: تحریم جاوید)
رواں ماہ (جولائی 2025) میں کراچی آرٹس کونسل اور جامعہ کراچی میں بنائی گئی “شاہ عبدالطیف بھٹائی چئیر” نے ذوالفقار علی ہالیپوٹو کی کتاب “میرے حصے کا کراچی” کی تقریب رونمائی کی گئی۔ جس میں کراچی آرٹس کونسل سے ایک مرتبہ پھر کراچی کے حوالے سے مخصوص ذہنیت اور تاثر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، جو کراچی کو دل وجان سے اپنانے والے مہاجر قوم کے خلاف ہے۔
یہ ایک تسلسل ہے، جو لیاری کی ادھوری کہانی نامی کتاب لکھنے والے رمضان بلوچ صاحب کی کراچی کے حوالے سے کتاب “ایک لاپتا شہر کا سراغ” شائع اور اس کی بھرپور تشہیر کراتی ہے۔ عالمی اردو کانفرنس میں احمد شاہ انھیں اصلی کراچی والا کہہ کر گویا مہاجر قوم کے نگر میں انھی کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں۔
اس سے پہلے ڈان نیوز پر بلاگ لکھنے والے اختر بلوچ (مرحوم) کی تین جلدوں پر مشتمل “کرانچی والا” بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے، جو بتاتی ہے کہ کراچی پہلے سے اچھا تھا اور کراچی کے وہی رنگ نمایاں کیے جاتے ہیں جو 1947 سے پہلے کے ہیں، اور ان پر سینتالیس میں پاکستان بننے کے بعد آنے کی بنا پر فرق پڑا یا “نقصان” ہوا۔ مقصد وہی مہاجر قوم کے کراچی سے تعلق اور ان کی کراچی کی شناخت کو ہدف بنانا۔
اقبال اے رحمن مانڈویا صاحب کی مرتب کردہ “اس دشت میں اک شہر تھا” اور “میرے زمانے کی کراچی” اگرچہ ہم اس طرح اس فہرست میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن کم وبیش وہ کراچی کے اُسی مہاجر مخالف بیانیے ہی سے زیادہ نزدیک دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال اور بھی کچھ ‘غیر مقامی’ اور کراچی والوں کے مخالف لکھنے والے ہیں، جن کی کتابیں کچھ دنوں میں سامنے آئی ہیں، یہ سب کتابیں کراچی والوں کے حوالے سے اِسی بیانیے کو فروغ دیتی ہیں، جو کراچی والوں کی شناخت، ان کی موجودگی کو بلڈوز کرتا ہے، اسے ایک برا واقعہ، بوجھ اور “سندھ کا احسان” بنا کر دکھاتا ہے۔
یہ مہاجر دانش وروں کے چھوڑے گئے منچ کا شاخسانہ ہے کہ پورے پاکستان کا کم سے کم 10 فی صد پڑھی لکھی اور پانچویں بڑی شناخت مہاجر کو ان کے شہر میں نہ صرف اقلیت میں بدلا جا رہا ہے، بلکہ کون مہاجر؟ کہاں مہاجر؟ مہاجر کیا ہوتا ہے؟ سندھی بن کر رہو!
تم پر سندھ نے احسان کیا!
تم سندھ کے نمک خوار ہو
اجرک، سندھی زبان اور سندھ کا صوبہ ہی تمھارا آخری حوالہ ہے
تم ہندوستان سے کیوں آئے؟
تم ہندوستان میں مر رہے تھے،
اتنے ہی اہم تھے تو ہندوستان میں پاکستان کیوں نہیں بنا لیا
سندھ دھرتی کے بیٹے بن کر رہو ورنہ بحیرہ عرب میں غرق ہوجائو ٹائپ بیانیے فروغ دیے جا رہے ہیں۔
اس میں کراچی آرٹس کونسل مکمل طور پر کراچی سے نکل کر “سندھ” میں ضم ہوچکا ہے ایوب شیخ سے شروع ہونے والا سلسلہ نورالہدیٰ شاہ اور نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ چکا ہے۔
شاہ لطیف چیئر کے تحت سندھی مصنف کی کراچی پر لکھی گئی کتاب کا ڈھنڈورا پیٹا جانا اس امر کا اظہار ہے کہ کراچی مہاجروں سے چھینا جاچکا۔ اب کوئی سانس بھی نہیں لے سکتا۔ کون سے مہاجر اور کہاں کے مہاجر؟
کراچی آرٹس کونسل میں جامعہ کراچی کے سینے میں سندھی ثقافت کا علم شاہ لطیف چیئر کے نام پر گاڑ دیا گیا ہے۔ تم کچھ نہیں کرسکتے
ڈاکٹر جعفر احمد جیسے متضاد مفکر اور عنبرین حسیب عنبر سے لے کر ڈاکٹر ہما بقائی جیسے معذرت خواہانہ مہاجر ان کے اسٹیج پر ان کی مرضی سے ناچ رہے ہیں اور کراچی چھینا جاچکا ہے۔ یہ سب اسی کے اظہار ہیں!
آپ یہ سوچیے کہ جامعہ کراچی کی شاہ لطیف چیئر کا “میرے حصے کے کراچی” کی کتاب کی تقریب رونمائی میں حصے دار بننا اور کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا شاہ لطیف نے کراچی پر لکھا، کیا شاہ لطیف کراچی میں پیدا ہوئے یا مرے تھے؟ اگر نہیں تو پھر جان لیجیے کہ یہ وہی مہاجروں کو بلڈوز کرنے کا عمل ہے اور کچھ بھی نہیں!
۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
کراچی کیسے چھینا جا رہا ہے؟
