(تحریر:ساجد احمد)
گذشتہ کچھ دنوں سے روزانہ ہماری صبح بڑی دیگوں اور دیگچوں پر جہازی سائز کے چمچوں کے زور زور سے بجنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ آواز کسی پڑوسی کے گھر سے نہیں آتی، بلکہ ہماری اس بہ مشکل آٹھ سے دس فٹ چوڑی گلی میں ایک عدد ’پکوان سینٹر‘ کھولا گیا ہے، جو صبح سویرے اپنی دیگیں چڑھانے آجاتا ہے۔ چلیے یہ چمچوں کی دَھمک کچھ دیر کے لیے نظرانداز کر دیجیے، اصل مسئلہ یہاں رکھے ہوئے جہازی سائز کے گیس کے سلینڈر ہیں، جو اس تنگ اور گنجان آباد گلی میں کتنے خطرناک ہیں، شاید کسی کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔
اگر خدانخواستہ کبھی کوئی بڑا سلینڈر پھٹ گیا، تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال بہت خوف ناک ہوگی۔ یہ بات درست ہے کہ اب پورے کراچی کی طرح ہمارے محلے میں بھی سوئی گیس کی تنگی ہے اور لوگوں نے اپنے گھروں میں بھی گیس کے سلینڈر رکھے ہوئے ہیں، لیکن یقیناً وہ سلینڈر بہت چھوٹے تین چار کلو کے ہیں، جب کہ یہ 50، 50 کلو کے گیس سلینڈر ہیں۔ یہ سلینڈر اگر پھٹیں بھی نہ، تو کسی آتش زَدگی کی صورت میں یہ سلینڈر کسی خوف ناک بم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، لیکن
مجال ہے کہ گلی میں سے کسی نے کوئی چوں بھی کی ہو!

بات یہ ہے کہ ہمارے محلے ہی کیا پورے کراچی میں ایسی بھیانک نفسا نفسی، بے گانگی اور تقسیم پیدا کر دی گئی ہے کہ کوئی کسی بھی مسئلے کی سنگینی پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمیں بھی اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت حال صرف خاص ہمارے لیے ہی خطرناک ہے، باقی رہائشیوں کو اس سے کوئی خطرہ ہی نہیں ہے، تبھی ابھی تک کسی نے بھی کچھ نہیں کہا!
مقبوضہ کراچی شہر تو ویسے بھی لوٹ کا مال ہے، جس پر قبضہ جمانے کے لیے نت نئے غیر مقامی بدمعاش ٹولے سامنے آگئے ہیں اور ہم ’مقامیوں‘ نے محض اپنے چند نوٹ سیدھے کرنے کے لیے خود کو بیچ ڈالا ہے، باقی پاس پڑوس اور محلے داروں کا درد تو اب بھول ہی جائیے۔ ہمیں صرف اپنے مفادات اور روپیے پیسے سے مطلب ہے۔ جائز وناجائز بھی دیکھا جاتا رہے گا بعد میں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ وہ محلہ ہے کہ پہلے جہاں لوگ آنے جانے والوں پر ایسی کڑی نظر رکھتے تھے کہ مشکل ہی سے کوئی مشکوک فرد یہاں سے گزر بھی پاتا تھا۔ ایک دوسرے کا اپنے خاندان کی طرح خیال رکھتے تھے۔ انتہا یہ ہے کہ اپنا گھر بیچتے ہوئے بھی خیال رکھتے تھے کہ آنے والا ایسا خاندانی اور شریف ہو کہ ہمارے پڑوسیوں کو تکلیف نہ ہو، وہاں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ بھانت بھانت کے لوگوں کو فلیٹ کرائے پر دے دیے گئے ہیں۔ دس، دس، بارہ، بارہ غیرمقامی چَھڑے لڑکے اکھٹے رہ رہے ہیں، جن کے آگے پیچھے کا کچھ پتا نہیں ہے وہ رات بے رات منہ پھاڑے گلی میں چیختے چلاتے آتے جاتے ہیں بنیان پہنے گلی میں موبائل لیے بیٹھے رہتے ہیں آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ہیں اور بھی پتا نہیں کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کچھ کہنے سننے والا ہی نہیں۔
پہلے جس محلے میں گھروں کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے، وہاں اب آدھے گھنٹے کے لیے گھر بند کرنا محال ہوگیا ہے۔ دن دیہاڑے گھروں میں چوریاں معمول ہو چکی ہیں، واردات کرنے والوں کی طرف سے اتنی سخت نظر رکھی ہوئی ہے کہ ذرا سی دیر کو گھر بند کر کے نکلیے اور لیجیے گھر کا تالا ٹوٹ گیا، کسی کو خبر ہی نہیں، کون آیا؟ کس نے کیا؟
اس محلے میں اب آپ جہاں چاہے گلیوں کے اندر اور تنگ راستوں میں دھڑلے سے دکانیں کھول لیجیے، دیوار پھوڑ کر پوری مارکیٹ نکال لیجیے، بلکہ جس کو چاہے یہ دکانیں کرائے پر بھی چڑھا دیجیے، آپ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ اور ہمیں صرف نوٹ ملنے چاہئیں! جیسے سرکار کے مختلف کارندوں کو ان کے حصے دے کر ان کے منہ بند کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی رہائشی اگر اعتراض بھی کرتا ہے تو پھر اپنے ہم سایوں میں بھی تنہا رہ جاتا ہے، جب کہ حالت یہ ہے کہ ہم سب کی اپنی بہن، بیٹیاں اور بچے یہاں رہ رہے ہیں، ہم کچھ سوچتے ہی نہیں، ہمارے اپنے گھروں میں وارداتیں ہوئیں، اپنی بائیکیں اور گاڑیوں کی بیٹریاں چوری ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود محلے کے ہم پرانے لوگ تک بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم سب اپنے گھروں کی دہلیز پر غیر مقامی جُتھوں سے کتّوں کی طرح ذلیل ہو رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ہم سے یہ نہیں ہوتا کہ اگر گلی میں سے کوئی بات کر رہا ہے، اس میں اُس کا ذاتی مفاد تو ہے نہیں، ہم سب گلی اور محلے والوں کا ہی بھلا ہے، اگر ہم خود اپنے لیے نہیں بول رہے تو کم از کم جو ہمارے لیے بول رہا ہے، اسی کا ساتھ دے لیں!
۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)