(تحریر: رضوان طاہر مبین)
عمر شریف نے اپنے ایک پروگرام میں مذاق مذاق میں ہمارے سماج کا یہ بہت بڑا سچ کہہ دیا تھا کہ عام آدمی کی وجہ سے مشاعرہ کام یاب ہوتا ہے۔ شاعری کی سب سے زیادہ داد وہی دیتا ہے، جب کہ پڑھے لکھوں کی تو آپس میں لَگی ہوئی ہوتی ہے، وہ اچھے شعر پر بھی یہی کہتے ہیں کہ ”کوئی خاص شعر تو نہیں ہے بس ٹھیک ہے پہلے بھی سنا ہوا ہے!“
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ’تعلیم یافتہ‘ لوگ کم ہی ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں۔ میدانِ سخن وری میں بھی یہی چلن عام ہے، سو ’فیس بک‘ پر افتخار عارف کے ’جیو‘ کو دیے گئے انٹرویو پر اظہار خیال دیکھا۔ جس میں مرکزی طور پر افتخارعارف کی جانب سے آج کل کے اچھے ’نوجوان‘ شعرا کے حوالے سے دیے گئے جواب کو موضوع بنایا گیا کہ انھوں نے جوانوں کے بہ جائے عمر رسیدہ شعرا کا نام لے دیا۔ اور جان بوجھ کر فلاں نام نہیں لیا اور فلاں کا نہیں لیا۔ یقیناً ہر کلام، ہر بیان اور ہر خیال پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ اور یہ تنقید کوئی ایسی غلط بھی نہیں تھی، لیکن یہ تو انٹرویو لینے والے (سلیم صافی) کو چاہیے تھا کہ وہ ان کو لقمہ دیتے کہ آپ تو سَن رسیدہ شعرا کے نام لے رہے ہیں، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر جو افتخار عارف کو جانتے ہیں، وہ شاید اس سے اتفاق کریں گے کہ شعرا کے نام لینے کے حوالے سے ان کی یادداشت اس موقع پر ممکنہ طور پر دھوکا دے سکتی ہے، وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ خود کو تو معمر کہہ رہے ہیں، لیکن خود سے ہر چھوٹے کو شاید ’جوان‘ ہی خیال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ افتخار عارف نے ’بوڑھے‘ شعرا کو جوان میں شمار کرلیا ہو۔
باقی افتخار عارف پر تنقید کرنے والے ہمیشہ سے رہے ہیں اور اب بھی ان پر تنقید کی جا سکتی ہے کہ وہ 1965ءمیں لکھنﺅ سے اٹھ کر یہاں چلے آئے اور یہاں آکر اکثر سرکاری عہدوں پر براجمان ہے۔ ہم نے بھی ’ایکسپریس‘ کے لیے ان کے انٹرویو میں ان کے ایک معروف شعر کے حوالے سے سوال پوچھا تھا کہ ’آپ نے کون سے قرض اتارے ہیں کہ واجب نہیں تھے‘ جس پر انھوں نے کہا تھا کہ آپ کبھی کسی اور کے احساسات کو بھی شعروں میں ڈھال رہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں اُس تحریر کے اِس ”بھرپور“ الزام کی طرف کہ ”افتخار عارف کا ایک شعر نورجہاں کی وجہ سے مشہور ہوگیا۔“
بھئی افتخار عارف پر تنقید کے لیے تو آپ کے پاس اتنے بھرپور دلائل ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسا انتہائی سستا الزام لگادینا ہماری تو بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ”تحریر نگار موصوف“ نے نور جہاں کے گائے ہوئے جس کلام کی طرف اشارہ کیا وہ ’دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو!‘ ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ شہرت فقط اسی شعر کے رہین منت ہے، تو دیکھیے کہ کیا افتخار عارف کے اور کوئی شعر معروف نہیں ہیں؟
اُن کا یہ شعر تو متعدد سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے بیانات میں استعمال کیا
ہے۔
دھرتی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
اُن کے اس شعر کا مصرع ثانی تو اردو میں ضرب المثل کی طرح مشہور ہے
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
کیا یہ اشعار بھی ”غیر معروف“ ہیں؟
میرے خدا مجھے تو اتنا معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
عمر بھر چلے اور گھر نہیں آیا
یہ غزلیں تو کسی نے بھی نہیں گائیں، لیکن اس کے باوجود یہ بھی افتخار عارف کا ایک اہم حوالہ بنیں
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا، اب پوچھتے ہیں
اس کے بعد ’بارہواں کھلاڑی‘ جیسی منفرد نظم تو غالباً 40 سال سے مسلسل اردو سخن وری کے ایوانوں میں گونج رہی ہے۔
اور بھی بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں، لیکن اختصار سے عرض ہے کہ جناب افتخار عارف بھی دوسرے شعرا کی طرح ایک انسان ہیں۔ ان کی بھی اپنی ایک زندگی ہے، ان کی زندگی میں بچپن سے آج تک بہت سے نشیب وفراز رہے، شاید بہت سی محرومیوں کا ایک خلا بھی رہا ہے۔ ہم سبھی کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے، اور کبھی یہ سب ہماری شخصیت کا گہرا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر سخن وَر تو حساس ہوتے ہیں، ان کی شخصیت پر ان کے ذاتی تجربات ضرور دَر آتے ہیں۔
ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بالکل ان پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ ان کے کام اور اور شاعری میں ان کے مقام پر خط تنسیخ پھیر کر ہی کی جائے۔ باقی اگر کسی کو کسی قسم کا ذاتی عناد یا تعصب ہے تو پھر تو ظاہر ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے!
بہرحال آپ ’بارہواں کھلاڑی‘ کا لطف لیجیے
خوش گوار موسم میں
اَن گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حوصلہ بڑھاتے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
بارہویں کھلاڑی کو
‘ہُوٹ’ کرتا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتا ہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملۂ خوش کن
ایک نعرۂ تحسین
اس کے نام پر ہو جائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہو جائے
پر یہ کم ہی ہوتا ہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کا یہ رشتہ
چھوٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے
تم بھی افتخار عارف
بارہویں کھلاڑی ہو
انتظار کرتے ہو
ایک ایسے لمحے کا
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے
جس میں سانحہ ہو جائے
تم بھی افتخار عارف
تم بھی ڈوب جاؤ گے
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے!
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)