(تحریر: تحریم جاوید)
“ان دونوں کے بیچ چند انچ اور صدیوں کا فاصلہ ہے”
پڑھیے صاحب، یہ عاطف توقیر صاحب کی ایک پوسٹ ہے، جو انھوں نے “ایکس” پر شیئر کی ہے۔
عاطف توقیر ایک شاعر ہیں، لیکن وہ سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ نظریات کے حساب سے وہ لبرل اور سیکولر نظریے کے بہت پرزور حامی ہیں۔ باقی مذہب پسند، دائیں بازو یا شدت پسندی طرح کے کسی جذبے اور نظریے پر وہ مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
شاید لبرل ازم اور سیکولر ازم کی یہ شبیہہ ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے، کہ ہر فرد اپنی زندگی میں آزاد ہے، جیسے چاہے زندگی گزارے۔ جیسے چاہے سوچے، جیسے چاہے کھائے پیے، پہنے اوڑھے اور کام کرے۔ بس اُسے دوسرے کی زندگی میں مداخلت نہیں کرنی۔۔۔۔
لیکن عاطف توقیر صاحب نے اپنی مندرجہ بالا پوسٹ کے ذریعے اپنے نظریات ہی کو بے توقیر کردیا ہے۔ یہ کہہ کر کہ ان دونوں کے بیچ چند انچ اور صدیوں کا فاصلہ ہے!
بھئی لبرل ازم جب ہر فرد کو مرضی سے جینے کی آزادی دیتا ہے تو آپ نے کیسے کسی کے لباس اور پہننے اوڑھنے پر اظہار خیال فرما کر اس کی ہتک فرمائی؟
اگر بات کی جائے گی تو بات گھمائی جاسکتی ہے کہ انھوں نے تو کچھ نہیں لکھا کہ وہ برقع پوش خاتون کی بات کر رہے ہیں یا شرٹ پہنی خاتون کی۔ لیکن بات وہ ان دونوں خواتین ہی میں سے کسی کی کر رہے ہیں ان کی یہ حرکت ان کے نام نہاد لبرل ازم سے کسی طور لگا نہیں کھاتی۔
آپ نے بھی کسی شدت پسند کی طرح کسی کی زندگی میں مداخلت کی ہے۔ آپ نے کسی کے لباس اور اس کے حلیے کے انتخاب کو سبوتاژ کیا ہے، جس کا آپ کو کسی طور حق نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت ٹی شرٹ پہننا چاہتی ہے تو اس نے پہنی ہے، بالکل ایسے ہی اگر ایک عورت خود کو اچھی طرح چھپانا چاہتی ہے تو یہ بھی اتنا ہی حق ہے۔
اگر کسی کو شرٹ پہنی خاتون پر بات کرنے کا حق نہیں ہے تو برقع پہننے والی خاتون بھی اس کا پوار حق رکھتی ہے!
اب آجاتے ہیں عاطف توقیر کے لکھے گئے کیپشن پر، صدیوں کا فاصلہ؟
جناب آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں انسان پہلے بے لباس تھا، پھر لباس پہننے لگا، اور پھر بے لباس ہوگیا، لیکن آپ نے اپنے دیگر لبرل فاشسٹوں کی طرح مذہب سے بغض کی آڑ میں ایک خاتون پر یہ بھپتی کسی کہ وہ شاید نیکر پہنی خاتون سے صدیوں پیچھے ہے، جب کہ اصل بات تو یہ ہے کہ انسان پہلے بے لباس ہوتا تھا، تو ممکن ہے کہ کم لباس پہننے والی خاتون اس سے صدیوں پیچھے ہو۔ یہ ہم صرف آپ کی نام نہاد دانش وری کے تحت کہہ رہے ہیں۔ جیسا آپ نے لکھا۔
عاطف توقیر یہ سستی لبرل ازم سے باہر آئیے۔ یاد رکھیے یہ اوچھی حرکتیں ہر گز لبرل ازم نہیں ہوتیں، آپ بھی دیگر پاکستانی لنڈے کے لبرلوں کی طرح اپنی مذہب بیزاری کو لبرل اور سیکولر ازم کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، لیکن آپ بے نقاب ہوچکے ہیں
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)