(تحریر: یاسمین زیدی)
معاشرہ انسانی شخصیت کے ساتھ انسانی صحت پر خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی ہو ایک گہری چھاپ چھوڑتا ہے. اسی طرح کسی کی تنہائی بھی معاشرے کی مرہون منت ہے. کچھ چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں….
پہلا: عدم قبولیت
معاشرہ بیشک بہت سے لوگوں سے مل کر بنا ہے مگر یہی معاشرہ بہت سے لوگوں کو کسی صورت قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوتا. کچھ لوگ جو یا تو ذہنی بیماری رکھیں یا الجھن کا شکار ہوں وہ معاشرے کی طرف سے بیگانہ رویہ دیکھتے ہیں. ان کی سوچ،نظریہ،اصول،فیصلے یا رضامندی معاشرے کے لئے الگ مگر ناقابل قبول حثیت رکھتے ہیں.ایسے لوگوں کو معاشرہ تنہا کر دیتا ہے. ان کو ہجوم میں بھی اکیلےپن کا احساس ہوتا ہے جو ان کی دماغی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کے لئے بھی مضر ہے.
دوسرا: طنزو تنقید
معاشرہ کسی بھی صورت انسانی کوشش یا جدوجہد کو کبھی نہیں سراہتا. وہ انسان کی چھوٹی سے چھوٹی بات، کام، چیز یا رویے کو اس انسان پر تنقید ذریعہ بنا دیتا ہے. بظاہر معاشرہ یہی دکھاتا ہے کہ وہ اصلاحی تنقید کر رہا ہے مگر در حقیقت وہ تنقید کے راستے انسان کی ان کاوشوں کو نشانہ بناتا ہے جس سے انسان ذہنی اثر لے. اور تنہائی کو چن کر اپنا راستہ معاشرے سے الگ کر لے.
تیسرا: موازنہ کرنا
معاشرے کا ہر انسان اپنی الگ پہچان رکھتا ہے. یہی معاشرے کا حسن ہے کہ وہ مختلف نظریوں کا امتزاج دکھاتا ہوا سانس لے رہا ہو. کچھ مقامات پر معاشرہ دو لوگوں میں یا دو سے زیادہ لوگوں میں مقابلہ شروع کر دیتا ہے. یہ مقابلہ طاقتوں کا بھی ہو سکتا ہے اور ذہانت و قابلیت کا بھی ہو سکتا ہے. کسی ایک طرف کو معاشرے کا مکمل جھکاؤ دوسرے فریق کے لئے اذیت کی وجہ بنتا ہے.یہ اذیت انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہر طرح کے معاشرتی مقابلوں سے باہر ہو کر خود کو تنہائی کے سپرد کر دے.
چوتھا: سماجی دباؤ
انسانی دماغ دباؤ کو زیادہ وقت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا. کسی نہ کسی مقام پر دماغ بغاوت پر اکساتا ہے. سماج کا انسانی دماغ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے. سماج اگر ایک انسانی ذہن پر مسلسل دباؤ کا زور رکھتا رہے تو وہ دماغ کچھ عرصے کے بعد بغاوت کا علان کر دیتا ہے. یہ بغاوت انسان کی معاشرے سے الگ ہو جانے کی حد تک ہوتی ہے. انسان تنہائی میں سماج کے دباؤ سے پناہ لے لیتا ہے.
پانچواں: جذباتی نقصان
ہر انسان اپنے وجود میں لاتعداد جذبات رکھتا ہے. وہ اپنے بہت قریبی لوگوں میں ہی اپنے جذبوں کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے. کچھ لوگ اپنی چالاکیوں کو اپنا ہتھیار بنا کر ایسے لوگوں کے قریب ہوتے جاتا ہے جو جذباتوں میں سچے ہوں.مگر جب ان کا دل بھر جائے یا کوئی اور متبادل مل جائے تو وہ ان سچی جذبوں کو روند کر چلے جاتے ہیں. اس سے انسان ذہنی اذیت تو دیکھتا ہی ہے جسمانی اذیت بھی دکھائی دیتی ہے. انسان یقین کرنا چھوڑ دیتا ہے. خوش ہونا یا اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے ڈرتا ہے.لوگوں سے دور رہتا ہے. اس کو تنہائی ہی سکوں دیتی ہے جس میں وہ کسی کے قریب نہ جانے کے لئے پناہ لیتا ہے.
چھٹا:جدت
تیز رفتار زندگی میں ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے آگے نکل جائے. وہ اس آگے نکلنے کی دوڑ میں لوگوں کا نقصان کرنے سے نہیں کتراتا. جن لوگوں کا نقصان ہو وہ اپنے اس نقصان کے ساتھ ذہنی اذیت بھی دیکھتے ہیں. ایسے وقت میں وہ تنہائی کو اپنا ساتھ بنا لیتے ہیں. انھیں تنہائی میں کسی دوڑ میں نہیں بھاگنا پڑتا نہ ہی وہ کسی سے پیچھے رہ جاتے ہیں. ان کی تنہائی میں وہ بس اکیلے ہوتے ہیں.
نفسیات اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
تنہائی انسانی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے. ماہرین نفسیات نے تنہا رہنے والوں کے رویے اور زندگی پر بہت سی تھیوری دی ہیں جو درجہ ذیل ہیں…
پہلی: ابراہم میسلو کی ضرورتوں کی درجہ بندی
اس تھیوری میں بتایا ہے کہ انسان کی ایک بنیادی ضرورت محبت اور تعلقات ہیں.اگر ایک انسان تنہائی کا شکار ہو اور سماج سے کٹ کر رہے اس کی یہ ضرورت پوری نہ ہو رہی ہو تو وہ اگلے مرحلوں تک نہیں پہنچ سکتا جو کہ سلف اسٹیم اور سلف اکچلا ئیزشن ہیں.
دوسری: جان باؤل بی کا نظریہ تعلق (اٹچمنٹ تھیوری)
یہ تھیوری بتاتی ہے کہ ایک فرد کے بچپن کے تعلقات کی نوعیت یہ طے کرتی ہے کہ یہ انسان بڑا ہو کر تنہائی کو کیسے برداشت کرے گا. مضبوط تعلقات رکھنے والے تنہائی میں بھی پرسکون راہیں گے جب کہ کمزور تعلقات والے انگزائٹی یا ڈپریشن کا شکار ہوں گے.
تیسری:ارکسنز سا ئیکلوجکل ڈویلپمنٹ تھیوری
یہ تھیوری بتائی ہے کہ زندگی میں ایک فرد مختلف مراحل سے گزرتا ہے.جوانی میں انسان اگر تعلقات بنانے میں ناکام رہ جائے تو وہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے.
چوتھی: پیریل مین اور پیپلو کا نظریہ
اس تھیوری میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی بس جسمانی اکیلاپن نہیں ہے.اگر تنہائی میں انسان کو لگے کہ وہ اکیلا ہی ہے تو یہ زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے. یعنی کہ ایک انسان ہجوم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہو.
پانچوی: سوشل کمپیریزن تھیوری
یہ تھیوری ہمیں انسانی دوڑ کے بارے میں بتاتی ہے. یہ بتاتی ہے کہ انسان کیسے اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں کی زندگی سے کرتا ہے اور اگر وہ خود کو دوسروں سے کم یا کٹا ہوا محسوس کری تو کیسے وہ تنہائی یا احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے.
چھٹی: وجودی نفسیات
وجودی فلسفہ کہتا ہے کہ تنہائی انسانی وجود کا ہی حصہ ہے.یہ انسانی فطرت میں شامل ہے.انسان کو اپنی آخری درجے کی تنہائی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے. اس کو قبول کرنا ذہنی پختگی کی اعلی علامت ہے.
تنہائی انسانی فطرت کا حصہ ہے. یہ انسان کو مثبت راستہ بھی دکھا سکتی ہے اور منفی راستہ بھی دکھا سکتی ہے.ہر چیز خواہ وہ مادی ہو یا خیالی حد سے تجاوز کرتی نقصان کا سبب بن جاتی ہے. معاشرہ انسانی دوست بھی ہو سکتا ہے اور دشمن بھی ہو جاتا ہے.تنہا رہنے والے انسان حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں جن میں ہر جذبہ اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے.
تنہائی ایک آئینہ ہے جو انسان کو اس کی اصلی صورت دکھاتا ہے.یہی وہ لمحہ ہے جب دنیا کے سب شور تھم جاتے ہیں اور انسان اپنی ذات کی سرگوشیاں سننے کے قابل ہو جاتا ہے.اگر یہ تنہائی ہمیں ہماری کمزوریوں کو سمجھنے، طاقت کو پہچاننے اور حقیقت کو قبول کرنے میں مدد دے تو یہ ایک انمول خزانہ ہے.اگر یہی آئینہ مایوسی، ٹوٹے خواب اور اندھیروں کا عکس دکھائے تو یہ قید بن جاتی ہے. اصل راز ہی یہ ہے کہ ایک انسان اپنی تنہائی کو اپنے پیروں کی زنجیر بناتا ہے یا کامیابی کا زینہ بنا کر منزل کی طرف چل پڑتا ہے. تنہائی انسان کو یا تو ٹوٹا ہوا بنا دیتی ہے یا تو مکمل کر دیتی ہے یہ فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے.
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
