Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم تہذیب وثقافت رضوان طاہر مبین سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

پاکستان: ہم تو سب کو مانتے ہیں، لیکن کیا آپ بھی ہمیں مان سکتے ہیں؟؟؟

تحریر :رضوان طاہر مبین

ہم یہاں ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کی تیسری پُشت سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے والدین نے اسی ملک میں اور اسی شہر کراچی میں جنم لیا ہے۔ ہم بیسویں صدی کے آخری زمانے کے ’بچے‘ ہیں۔ ہم نے صحیح معنوں میں اپنے بزرگوں میں صرف اپنی نانی ہی کو پایا، ہمیں کالج کے زمانے تک اُن کی صحبت میسر رہی وہ پرانی دلی سے فضائی راستے سے ہجرت کر کے یہاں تشریف لائی تھیں، تب ان کی عمر کوئی 16 برس رہی ہوگی، لیکن اس کے بعد انھیں کبھی اپنی جنم بھولی دیکھنے کا موقع نہ مل سکا، لیکن انھیں سب کی طرح اپنی جنم بھومی دلی بہت عزیز تھی، وہاں کی مخصوص روایتی بولی، وہاں کے موسم، مشہور جگہیں، روایات، وہاں کے مخصوص کھانے، یہاں تک کہ وہاں کے کوﺅں تک کے بارے میں انھوں نے ذکر فرمایا کہ وہ کراچی میں پائے جانے والے کوﺅں کی طرح گردن سے سفید نہیں ہوتے تھے، بلکہ مکمل کالے ہوتے تھے۔

کئی بار ایسا ہوا کہ جیسے کوئی چھٹی والا دن ہوا، یا کسی بھی سبب یونھی دلّی کا کوئی واقعہ نکل آیا اور پھر بات سے بات نکلتی ہی چلی گئی، بقول ان کے یادوں کی پوری ایک کیسٹ کھل جاتی ہے، دلی میں اپنے گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکلنا اور پھر کئی دنوں تک دلی کے پرانے قلعے میں پناہ گزین ہونا اور راستے میں جا بہ جا مرنے والوں کے لاشے پڑے ہوئے دیکھنا، انھیں سب یاد تھا، وہ سب بتاتی تھیں۔ انھیں اس ملک کے حالات سے بہت تکلیف تھی، ان کی تعلیم واجبی سی تھی، لیکن مطالعے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا، ایک مرتبہ کسی اخبار میں یہ سرخی لگی تھی، جس کا کچھ مفہوم یہ تھا کہ ”اگر کراچی کی تاریخ جمع کی جائے، تو یہاں پاکستان بننے سے زیادہ خوں ریزی ہوئی ہے!“ وہ ان کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی اور ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ بار بار یہ بات دہراتی رہتی تھیں۔ غالباً یہ جنرل اسلم بیگ کا کوئی بیان تھا۔ وہ اس بات سے بالکل ماورا تھیں کہ یہ جرنیل، جمہوریت اور آمریت کیا ہوتی ہے۔ انھیں حالات اچھے اور خراب ہونے سے زیادہ مطلب تھا۔ ہجرت کے بعد انھیں کراچی کے فسادات میں ایک بار گھر میں مرچیں گھول کر رکھنا پڑیں، کیوں کہ بلوے کا خطرہ تھا، اور تحفظ کے لیے یہی واحد ”ہتھیار“ تھا! ذرا سوچیے پرانے قلعے میں موت کا خوف جھیلنے والی کو ہجرت کے بعد جب ’اپنے‘ شہر میں بھی ایسی صورت دیکھنا پڑے تو اس پر کیا گزرتی ہوگی، لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے کبھی ملک پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی، یہاں تک بھی شکایت نہیں کی کہ کاش پاکستان نہ بنتا یا انھیں وہیں دلی میں رہنا پڑتا، جب کہ دلی انھیں بہت عزیز تھی، بس یہی تو ہماری ماﺅں اور بڑوں کا جذبہ تھا، جو اب ہمارا تاریخی ورثہ بھی ہے۔

انھوں نے تو ہمیں کبھی یہ تک نہ بتایا کہ ہماری شناخت کیا ہے۔۔۔؟ نہ ہی ہمارے بڑوں نے کبھی ہمیں یہ بتایا کہ ہم کون ہیں۔۔۔؟ ہم تو پاکستان سے آگے کبھی کچھ سوچتے ہی نہ تھے۔۔۔! لیکن جب ہم گھر سے باہر نکلے تو دیواروں پر لکھے ہوئے ’جیے مہاجر‘ کے نعرے دیکھے، اس سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ’مہاجر‘ ایم کیو ایم کے کارکن یا حامی کو کہتے ہوں گے۔ بطور قوم اپنی اس شناخت تک پہنچنے میں ہمیں ذرا اور وقت لگا، جب ہم نے اپنے ہی شہر میں باہر کی دنیا دیکھی، تو دھیرے دھیرے اپنے لیے نفرتیں، تفریق اور ’علاحدہ قوم‘ کے برتاﺅ سہتے رہے۔ ہمیں پڑھایا تو یہی جاتا تھا کہ تعلیم آتے ہی انسان ان نسلی اور قومی شناختوں سے بالاتر ہوجاتا ہے یا کم سے کم اس بنیاد پر نفرت یا تفریق کرنے کی جہالت نہیں کرتا، لیکن ہم کالج ، انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی گئے، دفاتر میں ملازمت کی اور اخبارات پڑھتے رہے تو اس تلخ حقیقت نے خو دکو منوا لیا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ قومیتی شناخت نہ صرف ایک حقیقت ہے، بلکہ ہماری قوم کے لیے ہمارے اپنے ہی شہر ہمارے ہی اداروں میں گنجائش موجود نہیں ہے!

یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہماری ہی ریاست کے شہریوں کو دراصل کسی مخصوص شخصیت سے کوئی سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ اصل ماجرا نسلی اور قومی تعصب کا ہے! یہ وہ سارے سبق تھے جو سماج اور وقت نے دیے، یہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے کسی سبق سے بھی زیادہ حقیقت پر مبنی تھے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقتیں اور زیادہ عیاں ہوتی چلی گئیں۔ ہمارے بڑوں نے تو اتنے نفرت اور تعصب کے ماحول میں بھی ہمیں ’پاکستانی‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں بنایا۔ ہم اسکول میں یوم آزادی پر بھی ’سندھی ہم، بلوچی ہم، پنجابی ہم اور پٹھان ہم!‘ گاتے اور سنتے سمے بھی ہم خود کو نہ پہچان پائے کہ ہم نہ سندھی، نہ بلوچی، نہ پنجابی اور نہ پٹھان! پھر آخر ہم کون ہیں؟ بس اس کا کوئی جواب ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہماری تربیت اور گھر کے ماحول میں یہ سوال ہی موجود نہیں تھا!

وقت گزرا، اردگرد کا مشاہدہ بڑھا، تجربات کے ذخیرے میں وسعت ہوئی، تاریخی حقائق سے آگہی ہوئی، سیاسی معاملات سے واقفیت ہوئی تو اپنی شناخت کی حقیقت پر مہر ثبت ہوتی چلی گئی، بلکہ اِسے شناخت کا احساس پہنچاتی ہوئی تفریق اور تعصب کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آج جب ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہم اپنی لسانی شناخت کے سبب اس ریاست میں تیسرے درجے کے شہری ہیں، ہمارے بڑے جب ہندوستان میں رہتے تھے، تب بھی وہ ’الگ قوم‘ کے تھے اور اب اس ملک میں بھی ہم پر ایک اور ہی قسم کا ”دو قومی نظریہ“ لاگو ہو رہا ہے! ہمیں ہمارے شہر، ہمارے علاقوں میں غیر اعلانیہ طور پر اجنبیت اور اقلیت میں دھکیلا جا رہا ہے۔۔۔! ہم پابہ زنجیر ہیں آج ہماری نمائندگی کہیں نہیں ہے… ہماری سیاسی آواز مفلوج کی جا رہی ہے… ہم پر سنگینوں کے پہرے ہیں… ہم ریاستی جبر کا شکار ہیں… ہمیں کچھ نامعلوم سے خوف لاحق ہیں۔۔۔ ہم ہر گھڑی گُھٹ گُھٹ کر زندگی کر رہے ہیں۔۔۔ ہمارے اپنے وسائل ہم سے چھینے جا رہے ہیں۔۔۔ پھر بھی ہم ہی پر لعن طعن ہوتی ہے، کھل کر اور اشاروں اور کنایوں میں نفرت کے اظہار کیے جاتے رہتے ہیں۔۔۔ ہم ریاستی اور حکومتی امور سے پوری طرح بے دخل ہیں۔۔۔

روشنیوں کے شہر میں ہم پر اجالے حرام ہیں۔۔۔! سمندر کے کنارے پر رہ کر ہم پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔۔۔ ملک کے لیے 70 فی صد روپیا جمع کرنے کے باوجود ہم پر سات فی صد بھی خرچ نہیں ہوتا۔۔۔ جہاں سڑکیں دھلا کرتی تھیں، وہاں صفائی ستھرائی اور سڑک کی سہولت تک چھین لی گئی ہے۔۔۔ معاشی دارالحکومت ہونے کے باوجود گرمیوں میں بھی گیس عنقا ہے۔۔۔ یہاں کے مختلف اداروں میں دوسری قوموں کے لوگ غالب ہیں۔۔۔ ہمارے محلوں میں باہر سے آنے والا ہم پر دھڑلے سے ظلم کرتا ہے، اور ہمیں چُپکا رہ کر برداشت کرنا ہوتا ہے۔۔۔! سڑکوں پر دوسری قوموں کے سرکاری اہل کار ہم سے ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں۔۔۔ ہم پر بندوقیں تان لیتے ہیں گولی تک چلا دیتے ہیں۔۔۔ نہیں تو راہ زَن مہینے بھر کی اور کہیں عمر بھر کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔۔۔! ہمارے شہر کے پریس کلب، ایوان صنعت، کراچی بار اور آرٹس کونسل میں میں کہیں بھی ہماری ثقافت کا تصور بھی باقی نہیں رہا، حتیٰ کہ آرٹس کونسل میں ہماری زبان اردو کی ’عالمی کانفرنس‘ میں سارے جہاں کی ثقافت نمایاں کی جاتی ہے، لیکن ہماری ثقافت یا علاحدہ تشخص کا کبھی کوئی ذکر خیر تک نہیں ہوتا، دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے ہماری قوم کے دانش وَر ٹسوے بہاتے رہتے ہیں، ملک کے دیگر مظلوم قوموں کے لیے ریاستی جبر پر دھڑلے سے بات کی جاتی ہے، جن قوموں کے مختلف گروہ براہ راست ملک دشمنی بھی کرتے ہیں، ریاستی اداروں، افواج پاکستان پر حملوں اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے جب کہ ہماری نہتی قوم نے تو کبھی ملک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، کوئی حملے دھماکے جیسے انتہائی قدم کبھی نہیں اٹھائے، پھر بھی اس پر عتاب، پھر بھی ’غداری‘ کے فتوے اور حب الوطنی مشکوک ہے، ہماری آہوں پر ہمارے ملک کے دوسرے صوبوں اور قوموں کے دانش ور ہمیں تنگ نظر، متعصب اور ملک دشمن تک کہہ دیتے ہیں، ان دانش وَروں کو اس شہر پر بندھی ہوئی موٹی زنجیر، آنکھوں پر پٹی اور پیروں میں بیڑیاں کبھی دکھائی نہیں دیتیں، چاہے یہاں ویرانوں سے لاشیں ملتی رہیں، یہاں کے نوجوان لاپتا ہو جائیں، لیکن ہمارا دانش وَر دیکھ ہی نہیں پاتا یا پھر ہٹ دھرمی سے کہتا ہے کہ یہ تو کوئی بات ہی نہیں، اس کے جواز کے لیے اس کے پاس کوئی اصول، کوئی دستور اور کوئی قانونی جواز بھی نہیں ہوتا!

لیکن اس کے باوجود ہماری تربیت اور ہماری گنگا جمنی تہذیب اور ہمارے خمیر میں موجود انسانیت اپنے ہی شہر میں دوسری قوموں کے غریبوں کے لیے کبھی ختم نہیں ہوئی، ہماری قوم کے لوگوں کے نجی اداروں میں تو بلاتفریق سب قوموں کو جگہ دی جاتی ہے ، لیکن دوسری قوموں کی دکانوں اور کاروبار میں آپ کو زیادہ تر انھی کے گاﺅں اور قوم کے آدمی ہی ملازم دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری قوم نے کبھی تنگ نظری نہیں دکھائی، ہم کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ کسی دوسری قوم کے ساتھ کوئی ذرا سا بھی ظلم ہو یا ہمارے شہر میں کسی دوسری قوم کے فرد کے کوئی کانٹا بھی چبھے! ہم تو ننگے پیر پھرتے خانہ بدوش افغان بچوں کے لیے بھی تڑپ اٹھتے ہیں، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ افغان لڑکے وارداتوں اور چوری چکاریوں میں ملوث ہیں، لیکن شاید جو کچرے سے گتا، پلاسٹک اور دیگر چیزیں چنتے ہیں وہ یقیناً سب کے سب ایسے نہیں ہیں، ایسے ہی یہاں ڈکیتی اور راہ زنی میں بھی ’غیر مقامی‘ ملزموں کا بہت شور بلند ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارا مطالبہ شہر میں صرف جرائم کی بیخ کنی کرنے کا ہوتا ہے!

ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی جینے دو اور تم بھی جیو۔۔۔ دیکھو۔۔۔! ہمارے بزرگ اس ملک کے لیے آگ اور خون کا دریا پار کر کے آئے تھے۔۔۔ ہم نفرت کرنے والے کبھی نہیں تھے، شاید ہم سجھا نہیں سکے یا شاید تم ہمیں سمجھ نہیں سکے۔ آج اس ملک میں ہم پر ظلم کے باوجود ہماری آنکھیں اس ملک کے لیے نم ہو ہی جاتی ہیں، کیوں کہ اس ملک کے لیے 56 فی صد ووٹ تو ہمارے ہی بزرگوں نے دیے تھے، یعنی وہ لوگ جن کے صوبے اور علاقے کبھی اس پاکستان کا حصہ نہ بنے، لیکن ان کے علاقوں سے کچھ لوگ پاکستان ضرور آئے اور بہت بڑی تعداد میں ملک چلانے کے لیے باقاعدہ ماہر افراد بلائے بھی گئے تھے۔

دیکھو۔۔۔! کوئی بھی اس ملک کو بنانے اور اسے زندہ رکھنے میں ہمارےءآباو اجداد کے واضح کردار کی نفی نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے 56 فی صد ووٹ کی جگہ 10 فی صد سے بھی کم حصہ ہی مانگ رہے ہیں! پی آئی اے، اسٹیٹ بینک، جامعہ کراچی اور جامعہ سندھ کے بانی ہوں یا نجی بینک کاری کو لانے والے، سرمایہ ہو یا اس وقت کے ملک چلانے والے کلیدی عہدے دار ہوں۔ ابولحسن اصفہانی، اے بی حلیم، زاہد حسین اور آغا حسن عابدی وغیرہ یہ سب کے سب مہاجر ہی تھے۔۔۔! یہ یہاں صرف پاکستان کے لیے آئے تھے، یا پھر وہ جو نظام حیدرآباد میر عثمان کی طرح نہ آسکے، لیکن انھوں نے پاکستان چلانے کے لیے روپیا فراہم کیا۔ یا وہ بڑے جو حسرت موہانی کی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے واپس چلے گئے یا راجا صاحب محمود آباد کی طرح یہاں نہ رہ سکے، لیکن انھوں نے اس پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات دیں۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہ یہاں کسی قوم کو دبائیں گے، کسی کی زمین یا صوبے پر قبضہ کریں گے یا اسے خدانخواستہ نیچا دکھائیں گے۔ ہاں شاید غیر دانستگی میں کسی نے کبھی یہاں پہلے سے موجود قوموں کے ساتھ کہیں کچھ تفریق کی ہو تو اسے ان کے پاکستان بنانے کے بڑے احسان، اسے چلانے کے لیے قربانی اور ان کی خدمات دیکھتے ہوئے ایک چھوٹی غلطی سمجھ کر درگزر کر دینا۔ ہم بھی ماضی میں بے زمینی کے سبب دوسری قوموں کے کسی بھی ردعمل کی تلخیوں کے دفتر کو کبھی نہیں کھولیں گے۔

آﺅ چلو مل کر ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں، ہمیں گلے لگاﺅ! ہمیں بھی اس ملک کی ایک قوم تسلیم کرو۔ اپنے ذہنوں میں ہمارے علاحدہ تشخص کے ابہام اور الجھن کو ختم کرو۔ جیسے دیگر صوبائی اور غیر صوبائی قوموں کے باوجود ملک اپنی جگہ مستحکم ہے، تو پھر مہاجر قوم کے الگ وجود کے اعتراف سے یہ ملک کیسے کمزور ہو سکتا ہے؟ تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ہم نسلی طور پر تو ’ہندوستانی‘ ہیں، لیکن ماضی کے حالات یا طعنوں کے بعد ہمارے بزرگوں نے اپنی شناخت ’مہاجر‘ چنی ہے اور ہمیں اب یہ بالکل ایسے ہی عزیز ہے، جیسے تمھیں، سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون ہونا عزیز ہے۔۔۔ دیکھو! یہ ہماری شناخت یعنی مہاجر وہ تشخص ہے کہ جو اعلان ہی یہ کرتا ہے کہ ہم پاکستانی ہی ہیں، اس لیے تجاہل عارفانہ دکھاتے ہوئے لفظ مہاجر کی لغوی معنوں کے بے منطقی سوال بار بار کرکے ہمارے دل نہ دکھایا کرو! ہمارا خود کو مہاجر کہنا یہ معنی دیتا ہے کہ ہم اب ہندوستانی نہیں ہیں، ہم اسی پاکستان کے واسطے ہی تو مہاجر کہلاتے ہیں۔

دیکھو، ہم دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، آﺅ اسے تھام لو۔ ماضی کو تو کوئی نہیں بدل سکتا، تو کیا ہم اور تم سماجی مضبوطی کے لیے، پاکستان کے نام پر ایک دوسرے کے اچھے ساجھے دار نہیں بن سکتے؟ تم چاہے ہمیں الگ صوبہ نہ دو، لیکن ہمیں ہمارے وجود اور علاحدہ لسانی تشخص کو تو کھل کر مانو اور تسلیم کرو! ہمیں ہمارے وسائل اور اختیار میں جائز حق اور حصہ دے دو۔ ہمارے جو دو چار شہر ہیں، جنھیں ہمارا گھر سمجھا جاتا ہے، وہاں ہماری اکثریت کا حق تسلیم کرو اور اس کا تحفظ کرو! ہر قوم کا ایک گھر ہوتا ہے، کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص وغیرہ اب ہمارے آبائی گھر ہیں، اگر ہم سے یہ بھی چھین لیے جائیں، تو پھر بتاﺅ ہم کہاں جائیں گے۔۔۔؟ آئینِ پاکستان بھی ملک کے تمام نسلی گروہوں کے شناخت کےتحفظ کا حق دیتا ہے۔ دیکھو، آج ہم تمھارے صوبے سے تمھاری جذباتی وابستگی تسلیم کر رہے ہیں، تو کیا تم اس کے بدلے میں ہمارے تشخص اور ہمارے حق کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اس کا مثبت جواب نہیں دو گے۔۔۔؟ نہ تم نے ہم پر احسان کیا اور نہ ہم نے تم پر۔ ہم سب برابر ہیں۔ اگر واقعی ہمیں شناخت اور کسی بھی صوبائی قوم کے برابر حقوق ملتے ہیں، تو یقین کرو ’متروکہ سندھ‘ یا متروکہ املاک کے مطالبے بھی دَم توڑ دیں گے۔ ہمارے بڑوں نے کبھی کسی صلے کے لیے تو پاکستان نہیں بنایا تھا، بعد میں اگر املاک کے تبادلے کا معاہدہ ہوا تھا، تو چلیے ہم اب اسے وسیع تر مفاد کے لیے جانے دیتے ہیں، بقائے باہمی کے واسطے یہ کوئی مہنگا سودا تو نہیں۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہم الگ صوبے کے ساتھ ’متروکہ سندھ‘ سے بھی دست بَردار ہونے کے لیے تیار ہیں، لیکن کیا اس کے بدلے میں ہمیں اس ملک میں اول درجے کا اور برابر کا شہری تسلیم کیا جائے گا۔۔۔؟ کیا اس ملک میں ہماری نمائندگی اور آواز انصاف کی بنیاد پر ہوگی…؟ کیا باہمی تصادم اور تنازع کے بہ جائے ہم سب مل کر س دھرتی سے بھوک افلاس اور نفرتوں کا خاتمہ کرسکیں گے…؟ کیا آئندہ کبھی کوئی بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ پالیسی ہماری قوم کے خلاف نہیں بنے گی؟ غیر اعلانیہ طور پر ہم پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا…؟ ہمارے تمام صلب شدہ دستوری اورانسانی حقوق بحال ہوں گے…؟ ہم سب ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں گے، اور ایثار وقربانی اور محبت کے ساتھ آگے بڑھیں گے…؟ کیا ایسا ہوگا…؟

کم از کم 76 سال بعد کیا ہم اتنی گنجائش پیدا کرنے کے لائق ہو جانے چاہئیں، ہمیں اتنا بڑا تو ہو جانا چاہیے کہ کم ازکم ہم اپنی ساری توانائیاں اپنے ہی ملک کے لوگوں اور قوموں کے خلاف استعمال نہ کریں، کیا ہم اپنی یہ کوششیں علم وتحقیق اور ملک کو مضبوط تر کرنے کے لیے نہیں لگا سکتے…؟ کیا یہ ممکن نہیں…؟ کیا یہ پرخلوص صدا کہیں سنی جائے گی…؟ کیا کوئی ہے جو اس پر لبیک کہے گا..۔؟ کوئی ہے جو میری ’نانی اماں‘ جیسی لاکھوں ماﺅں کے جبر ہی کو سامنے رکھ لے، یا وہ ہزاروں بے نام لوگ، جو اس ملک کی جدوجہد میں ہر دور میں اپنے اپنے طور پر کام کرتے رہے، کچھ احساس ان کا کرلو۔ اپنا دل صاف کرلو۔۔۔

ہاتھ ملاﺅ، ایکا کرو، اپنے لیے، ہمارے لیے، ہم سب کے لیے۔۔۔!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *