تحریر: رضوان طاہر مبین
سال بھر سے بارود کی برسات سے دہکتے غزہ میں اسرائیل اور حماس “پولیو ویکسین” کے لیے صبح 6بجے سے 3 بجے تک جنگ میں وقفے پر متفق ہوگئے!
یعنی جہاں جنگ وجدل میں بلا مبالغہ ہزاروں انسان شہید ہوچکے ہیں، ان میں اسپتالوں کو بخشا نہ معصوم بچوں اور عام آبادی کو۔ ۔ ۔ ۔لیکن صاحب، یہ پولیو کی ویکسین کے لیے جنگ بندی ہونا ضروری ہے، تاکہ بچے معذور نہ ہوں!!!
کچھ سمجھ میں آیا؟
یہ عالمی بساط کے وہ تضادات ہیں، جسے بہت خوب صورتی سے مختلف دل فریب نعروں، خوب صورت نظریات اور نام نہاد خبروں سے چھپا دیا جاتا ہے۔
انھیں بڑے صحافتی اداروں کے ذریعے قابو کیا جاتا رہا، اب تو سوشل میڈیا کی اسکرین نے آپ کے ذہن پر تالے اور آنکھوں پر اندھیرے ڈال دیے ہیں، اس کا نشہ ٹی وی چینلوں سے کہیں زیادہ ہے، یہاں بھاڑے کے ٹٹو یعنی “سوشل میڈیا انفولئینسر” آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا میں یہ ہو ہو رہا ہے، اور یہ غلط ہے، اصل مسئلہ یہ ہے اور خبر دراصل یہ ہے !
کوئی سوالات، ۤآزادانہ مکالمہ اور خیالات اور سوچوں کی آب یاری کی گنجائش نہیں ہے، اگر آپ نے ایسی کوئی کوشش بھی کی تو آپ کی آواز عملاً نقار خانے میں طوطی ی آواز بن جائے گی اور کسی بھوکے کتے کی طرح یہ سارے کرائے کے ڈھنڈورچی جو پیسے لے کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور پیسے دینے والے کے حق میں باقاعدہ رائے عامہ ہموار کرتے ہیں، یہ سب آپ کو لعن طعن کریں گے، آپ کو بتائیں گے کہ آپ تو جاہل ہیں، آپ غلط ہیں، آپ دقیانوسی ہیں، آپ زمانے کے چلن کے خلاف ہیں، گویا ساری دنیا کو اختلاف اور رائے کی آزادی دینے کا ڈھونگ یہیں بے نقاب ہوگا کہ آپ کو بریکٹ کردیا جائے گا کہ آپ فلاں قسم کے “خراب” آدمی ہیں، آپ فلانے مکروہ نظریات رکھتے ہیں، فلاں متعصب جماعت کے حامی ہیں، آپ تنگ نظر ہیں وغیرہ وغیرہ۔
سو غزہ میں ویکسین کی اس “بے ہودگی” پر بھی یہی بات ہوگی، تبھی یہ خبر اس طرح جگہ نہ پاسکی، کیوں کہ یہ اتنی بڑی خبر تو نہ تھی، نہ اس کی اتنی اہمیت تھی کہ اس کے تضادات اور شرم ناکی پر بات کی جاتی کہ جہاں معصوم بچوں کو سفاکی اور بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے، وہاں آپ پولیو ویکسین کے نام پر یہ نوٹنکی کر رہے ہیں، مطلب یہ کیا مذاق ہے؟
Categories