Categories
Exclusive Imran khan Interesting Facts Karachi Media MQM PTI Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم پنجاب پیپلز پارٹی جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ عمران خان قومی تاریخ قومی سیاست کراچی

کیا الطاف حسین اور عمران خان ایک جیسے ہیں؟

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
کسی بھی عام سیاسی کارکن سے لے کر کوئی بھی سیاسی رائے رکھنے والے باشعور شہری تک کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ کم از کم اہم سیاسی تاریخ سے نابلد نہ ہو۔ اُسے اپنی کوئی بھی رائے قائم کرتے ہوئے دلائل اور حقائق کا اچھا خاصا ادراک ہو۔ اسے خبر ہو کہ ماضی میں بھی کیا کچھ ہوتا رہا۔ ہمارا سیاسی تاریخ کا مطالعہ جتنا اچھا ہوگا، ہماری رائے اتنی ہی مستحکم اور پختہ ہوگی۔
ہوا یوں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے بہت سے لوگ مختلف انداز سے الطاف حسین اور عمران خان کا موازنہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اس میں کچھ لوگوں کا مقصد اپنا کوئی موقف ثابت کرنا ہوتا ہے، تو کچھ اپنی اور کوئی دوسری رائے دیتے ہوئے ان دونوں قائدین کا ذکر ایک ساتھ کردیتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں جماعتوں کی مماثلتوں کا ذکر کرتے ہیں اور یہ دل چسپ اتفاق گوش گزار کراتے ہیں کہ دونوں ہی سیاسی جماعتیں خود کو ایک ’تحریک‘ قرار دیتی ہیں، جو ان کے ناموں کا حصہ بھی ہے۔
سو اسی مناسبت سے ہم نے سوچا کہ اگر تاریخ اور سیاست کا کوئی طالب علم واقعی ہماری سیاست کے ان دونوں ’کرشماتی‘ اور ’متنازع‘ قائدین کا ایک موازنہ دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنی بساط بھر کوشش پیش کر دی جائے۔
1
سیاسی شروعات
دونوں سیاسی جماعتوں کو نوجوان قیادت یا نوجوانوں کی سیاسی جماعت کہا گیا۔
ایم کیو ایم کا قیام 18 مارچ 1984ءکو کراچی میں عمل میں آیا۔ ’ایم کیو ایم‘ قائم ہوئی تو اس کے قائد الطاف حسین کی عمر 31 سال تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کا قیام 25 اپریل 1996ءکو لاہور میں عمل میں آیا۔ تحریک انصاف قائم ہوئی، تو اس کے چیئرمین عمران خان کی عمر 44 سال تھی۔
2
سیاست سے پہلے کا پس منظر
الطاف حسین نے سیاست میں قدم رکھا، تو وہ اور ان کے کسی بھی ساتھی کا کسی قسم کا کوئی بھی قابل ذکر سیاسی یا غیر سیاسی پس منظر موجود نہیں تھا، یہ سب متوسط طبقے کے بالکل غیرمعروف لوگ تھے۔
دوسری طرف عمران خان نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا، تو ان کا 20 برس (-1971 1992ء)کا بین الاقوامی کرکٹ کا ایک بھرپور کیرئیراور اس کے بعد چار سال تک اپنے کینسر اسپتال کے لیے مستقل چندہ مہم شامل رہی تھی۔
3
سیاسی جدوجہد اور نظریہ
’ایم کیو ایم‘ یوں تو ’مہاجر حقوق‘ اور ’مہاجر شناخت‘ کے لیے قائم ہوئی، لیکن جلد ہی اس نے ملک بھر میں متوسط طبقے کی حکم رانی کی بات کرنی شروع کی اور ملک میں وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری نظام کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا۔
تحریک انصاف ملک میں تبدیلی لانے کے لیے متحرک رہی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی مایوس کن کارکردگی میں اس نے کسی ’تیسری سیاسی قوت‘ کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی اور بالآخر اِسے انتخابی کام یابی بھی حاصل ہوئی۔
اس طرح ایک لحاظ سے ملک میں جاری نظام کے خلاف دونوں جماعتوں میں انداز مختلف ہونے کے باوجود ایک قدر مشترک محسوس کی جا سکتی ہے۔
4
موروثی قیادت کے خلاف
’ایم کیو ایم‘ اور تحریک انصاف دونوں ہی ’موروثی قیادت‘ کے خلاف دکھائی دیتی ہیں۔ الطاف حسین نے سیاسی اور تنظیمی عہدوں سے کونسلر، اسمبلی، سینٹ، میئر اور گورنر تک کے لیے کبھی خود یا اپنے کسی رشتے دار تک کو نہیں لیا۔ صرف ایک بار کچھ عرصے کے لیے ان کے سسر فیصل گبول مشیر وزیراعلیٰ سندھ رہے، لیکن انھیں بھی جلد ہٹا دیا گیا تھا۔ کئی آپریشن، گرفتاریوں اور جلاوطنی کے بعد کبھی ان کے خاندان کے کسی فرد کو آگے نہیں لایا گیا۔
دوسری طرف ’تحریک انصاف‘ کی انتخابی شروعات عمران خان ہی کے قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہوئی تھی اور پھر وہ وزیراعظم کے منصب تک بھی پہنچے۔ ان کے علاوہ اور کوئی رشتے دار سیاسی اور سرکاری عہدوں کے لیے نام زد نہیں ہوا، دوسری طرف 2023ءمیں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی بہن علمیہ خان بھی سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی باقاعدہ تنظیمی عہدہ موجود نہیں ہے۔
دونوں بانی قائدین ابھی بہ قید حیات ہیں، اس لیے یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی سیاسی تحریک کس طرح آگے چل سکے گی یا چل بھی سکے گی یا نہیں۔
5
نئے اور پرانے لوگ
’ایم کیو ایم‘ کے تقریباً 99 فی صد ارکان نوجوان اور نئے لوگوں پر مشتمل رہے، جب کہ تحریک انصاف نے ’تبدیلی‘ کے نعرے کے باوجود پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ق لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور ’ایم کیو ایم‘ سے نکلے ہوئے مختلف لوگ بھی اپنے ساتھ شامل کیے۔ اس طرح پہلے سے سیاست میں موجود لوگ تحریک انصاف کا حصہ بن کر سیاسی نظام میں ’تبدیلی‘ کے عَلم بردا بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے لیے بہت سے مال دار لوگوں کی سرگرمیاں بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتیں، جیسے جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ، جو بعد میں عمران خان سے راہیں الگ کرگئے۔
6
تیسری بڑی سیاسی جماعت
دونوں جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی موجودگی میں ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھریں۔ ’ایم کیو ایم‘ نے یہ مقام صرف کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے مہاجر آبادی کی بنیاد پر حاصل کیے، جب کہ تحریک انصاف مجموعی طور پر ملک بھر میں پھیل کر یہ مرتبہ حاصل کیا۔
’ایم کیو ایم‘ تیسری بڑی سیاسی جماعت 1988ءکے عام انتخابات میں بنی، یعنی اپنے قیام کے چار سال بعد۔
’تحریک انصاف‘ نے ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر 2013ءمیں ’ایم کیو ایم‘ کی جگہ لی، یعنی اپنے قیام کے 17 سال کے بعد۔

ایم کیو ایم کے 8 اگست 1986 کے پہلے بڑے جلسے کا منظر، جب کہ مندرجہ ذیل میں تحریک انصاف کے اکتوبر 2011 کے بڑے جلسے کی تصویر ہے

7
ریاستی رویہ
’ایم کیو ایم‘ کے حوالے سے ریاستی رویہ اکثر مخالفانہ رہا، 2002ءکے بعد جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حکومت میں شمولیت ’ایم کیو ایم‘ کے لیے سب سے زیادہ آزادی اور اختیارات کا دور تھا۔ 2008ءمیں جیسے ہی جنرل پرویز مشرف عتاب کا شکار ہوئے، ایم کیو ایم کے لیے بھی مشکلات بڑھتی چلی گئیں اور پھر 2016ءمیں ’ایم کیو ایم‘ کے صرف ’سرکاری دھڑے‘ کو کام کرنے کی اجازت ملی۔ 22 اگست 2016ءکے بعد ’ایم کیو ایم‘ کے مرکز نائن زیرو کو نہ صرف سیل کر دیا گیا، بلکہ اِس میں آتش زدگی کے بعد یہ جل کر راکھ بھی ہوگیا۔ 22 اگست کو الطاف حسین کے اشتعال انگیز بیان کے بعد شہر بھر میں ’ایم کیو ایم‘ کے بلامبالغہ سو سے 150 یونٹ اور سیکٹر دفاتر ’غیرقانونی‘ اور ’قبضہ‘ کہہ کر کسی حرف غلط کی طرح مٹا دیے گئے۔
دوسری طرف تحریک انصاف بننے سے پہلے ہی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ رہے، لیکن اس کے باوجود اس جماعت کے قیام کے بعد 2009ءکے بعد تک تحریک انصاف قابل ذکر سیاسی قوت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ 2011ءتحریک انصاف کے عروج کا سال تھا، اس کے جلسے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ خورشید محمود قصوری، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، اویس لغاری وغیرہ جیسے بڑے بڑے نام ان کے کاررواں کے حصے بنتے چلے گئے۔ اکتوبر 2011 ءکو لاہور اور دسمبر 2011ءمیں کراچی کے بڑے جلسوں کے بعد تحریک انصاف نے گویا ملک کی ایک اہم ترین سیاسی قوت ہونے کا مژدہ سنا دیا، جس کے بعد 2013ءکے انتخابات میں وہ باقاعدہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوگئی۔ نو مئی 2023ءمیں فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد آپریشن میں بھی تحریک انصاف کے کسی دفتر کو مسمار نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کو فوج کے اندر باقاعدہ حمایت حاصل ہونا بھی اب کوئی راز نہیں رہا، جس کی بنا پر سابق ’آئی ایس آئی‘ چیف جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل بھی ہوا۔
8
ذرائع اِبلاغ کا طرزِ عمل
’ایم کیو ایم‘ کے قیام کے بعد کافی عرصے تک اِسے کبھی اخبارات کے صفحہ¿ اول تو کیا کسی نمایاں جگہ پر بھی شائع نہیں کیا گیا۔ آٹھ اگست 1986ءکے نشتر پارک کے جلسے کے بعد پہلی بار ’ایم کیو ایم‘ قومی منظر نامے پر نمایاں ہوئی اور اِس کی خبروں اور بیانات کو اخبارات میں بھی نمایاں جگہ ملنا شروع ہوئی۔ 1987ءکے بلدیاتی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد میں کلین سوئپ اور 1988ءکے عام انتخابات کے بعد ’ایم کیو ایم‘ ملک کی تیسری بڑی اور ایک منفرد سیاسی قوت ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود ’ایم کیو ایم‘ کو ذرائع ابلاغ سے شکایات رہیں، دوسری طرف صحافیوں کو بھی ’ایم کیو ایم‘ کی طرف سے جبر، دھونس، دھمکی اور تشدد کی شکایات ہونے لگی تھیں۔
’تحریک انصاف‘ کے ’ون مین شو‘ ہونے کے باوجودعمران خان کو اپنی شہرت کے سبب ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو 2011ءکا عروج دلانے میں نجی خبری چینلوں کا کلیدی ہاتھ رہا، جس کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد ان سے وابستہ ہوئی، اس نئی نسل کے ہاتھ میں اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا ہتھیار آیا، تو اس نے تحریک انصاف کے سیاسی سفر کو اور مہمیز کیا۔ جس طرح ’ایم کیو ایم‘ کو تشدد کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، ایسے ہی سوشل میڈیا پر بدزبانی اور مغلظات کے حوالے سے تحریک انصاف کے حامیوں کو شدید نکتہ چینی سہنا پڑی۔
9
میڈیا کا بائیکاٹ اور میڈیا پر پابندی
2014ءمیں عمران خان نے ’روزنامہ جنگ‘ اور ’جیو نیوز‘ کا بائیکاٹ کیا اور کہا کہ ’جنگ‘ اور ’جیو‘ نے 2013ءکے عام انتخابات کی مبینہ دھاندلی میں کردار ادا کیا تھا۔
’ایم کیو ایم‘ نے بھی 1990ءکے زمانے میں ’روزنامہ جنگ‘ کا بائیکاٹ کیا تھا، اور کہا تھا کہ انھیں جائز کوریج نہیں دی جاتی۔ اس کے بعد کراچی کی دیواروں پر ”جنگ سے نفرت، امن سے محبت“ کے نعرے درج ہوئے۔
اس کے علاوہ اگست 2015ءکو الطاف حسین کے فوج اور ایجنسیوں کے خلاف سخت بیانات کے بعد ان کے بیانات، ان کی تصویر اور ان کا نام لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جس کے بعد صرف منفی خبروں میں ہی الطاف حسین کا ذکر ہوا اور اکثر ’بانی متحدہ‘ کر کے بات کی گئی۔
اگست 2022ءکو عمران خان کے ملکی اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر ان کی تقریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی، مارچ 2023ءمیں ان پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔
10
آپریشن اور ریاستی جبر
’ایم کیو ایم‘ کو ملک کی تیسری بڑی جماعت بننے کے چار سال پورے ہونے سے پہلے ہی 1992ءمیں وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں اس کی پوری قیادت روپوش ہوگئی اور اس کے قائد الطاف حسین کو لندن میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ اس کے بعد 1995ءمیں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے پولیس کی قیادت میں ایک اور زبردست بے رحمانہ آپریشن شروع کیا، جو 1997ءمیں نئی حکومت کے بعد ختم ہوا اور پھر 2013ءسے شروع ہونے والا آپریشن 2016ءکے بعد بدترین ریاستی جبر کی شکل اختیار کر چکا ہے، یہ نو سال سے مسلسل جاری ہے۔ آج الطاف حسین سے وابستہ کسی شخص کو سیاسی سرگرمیوں کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔
جنوری 2018ءمیں جامعہ کراچی کے سابق پروفیسر اور ایم کیو ایم (لندن) کے پاکستان میں انچارج ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی لاش ابراہیم حیدری کے ویرانے میں ان کی گاڑی سے برآمد ہوئی، جسے ایک پراسرار قتل کہا گیا۔ 2024ءمیں الطاف حسین کے نام زَد آزاد سیاسی امیدواروں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا، اور انھیں انتخابات میں حصہ لینے پر شدید دباﺅ اور جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
’تحریک انصاف‘ کو ملک کی تیسری بڑی جماعت بننے کے 10 سال کے بعد ایک آپریشن کا سامنا ہوا، 9 مئی 2023ءکو عمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد ملک بھر میں سرکاری اداروں، مختلف فوجی عمارتوں اور دفاعی تنصیبات پر حملے اور جلاﺅ گھیراﺅ کیا گیا، جس کے بعد تحریک انصاف کے خلاف سخت آپریشن شروع ہوا، لیکن اس کا 1992ءکے آپریشن سے کوئی موازنہ نہیں، جس میں بلا مبالغہ پورے پورے علاقوں کے محاصرے، چھاپے اور تلاشیوں کے سلسلے رہے، ماورائے عدالت قتل سے لے کر لاپتا، مقدمے گرفتاریوں کے سلسلے بھی کہیں زیادہ تھے۔ یہی نہیں 2024ءکے عام انتخابات میں عمران خان کے امیدوار اگرچہ یک ساں انتخابی نشان سے محروم کردیے گئے تھے، انھیں کوئی جلسہ نہیں کرنے دیا گیا لیکن انھیں اپنے الگ الگ نشانات کی تشہیر کی اچھی خاصی آزادی حاصل رہی۔
ایک طرف تحریک انصاف ریاستی اداروں پر حملوں کے خلاف ردعمل میں ایک آپریشن کا شکار ہوئی، تو دوسری طرف ’ایم کیو ایم‘ نے ملک توڑ کر الگ ملک ’جناح پور‘ بنانے کے ایک مبینہ منصوبے پر بدترین فوجی آپریشن کا سامنا کیا، ’جناح پور‘ کے الزام کو بعد میں بہت سے اعلیٰ افسران نے غلط قرار دیا۔
11
دونوں جماعتوں کی دھڑے بندی
1992ءکے آپریشن کے ساتھ ’ایم کیو ایم‘ میں ’حقیقی‘ کے نام سے آفاق احمد اور عامر خان کے زیرقیادت ایک مضبوط اور مسلح دھڑا سامنے لایا گیا، جس نے ریاستی چَھپر تلے ’ایم کیو ایم‘ کو خوب نشانہ بنایا اور کراچی میں دونوں دھڑوں کے تصادم کے نتیجے میں ہزاروں لڑکے مارے گئے۔
2023ءمیں تحریک انصاف کے خلاف آپریشن کے بعد ’استحکام پاکستان پارٹی‘ (آئی پی پی) کے نام سے ایک دھڑا سامنے لایا گیا، جس میں ’نو مئی کے واقعات‘ کی مذمت اور ان سے لاتعلقی کرنے والے تحریک انصاف کے سابق ارکان شامل ہوتے چلے گئے۔ اس کے علاوہ اس گروہ کا لوگوں کو گرفتار یا مخبری کرنے میں کوئی خاص کردار نہیں رہا۔ ’حقیقی‘ کی طرح اِس ’سرکاری‘ گروہ ’آئی پی پی‘ کو بھی بدترین انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
12
اپنے بانی وقائد سے لاتعلقی
2023ءکے تحریک انصاف کے خلاف ریاستی جبر کا موازنہ اگر ’ایم کیو ایم‘ کے 2016ءوالے منظرنامے سے کیا جائے، تو تحریک انصاف نے صرف اپنے قائد کی گرفتاری پر ریاست کے خلاف حملے اور توڑپھوڑ کر ڈالی، جب کہ 2016ءمیں ’ایم کیو ایم‘ تین سال سے جاری ماورائے عدالت قتل، چھاپے، لاپتا کارکنان اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی بھوک ہڑتال کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر حملے کے بعد زیر عتاب آئی۔
’ایم کیو ایم‘ کو 1992ءاور 1995ءکے بدترین آپریشنوں کے بعد اب تیسرے سخت ترین آپریشن کا سامنا تھا، ایک بار پھر مارچ 2016ءمیں ’ایم کیو ایم‘ کے نئے دھڑے کو میدان میں اتارا گیا، اس بار آفاق احمد اور عامر خان کی ’حقیقی‘ کی جگہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی ’پی ایس پی‘ (پاک سرزمین پارٹی) تھی اور ’ایم کیو ایم‘ کے لوگ جبری طور پر اس نئے دھڑے میں شامل کروائے جا رہے تھے۔ مختلف مقدمات اور الزامات کے ڈراوے دے کر کارکنان اور راہ نما اس گروہ میں آتے اور ’صاف ستھرے‘ قرار پا جاتے۔
22 اگست 2016ءکے بعد اگلے دن 23 اگست کو کراچی پریس کلب پر ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے فیصلے لندن میں الطاف حسین کے بہ جائے خود کرنے کا اعلان کر دیا اور یوں ’بانی ایم کیو ایم‘ کو مائنس کرنے کا عمل برپا ہوگیا۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے راہ نما اور ارکان ریاستی جبر کے باوجود کسی نہ کسی طور پر عمران خان سے جُڑے رہے اور انھوں نے اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا، باوجود اس کے کہ عمران خان کو پارٹی کی قیادت سے سبک دوش ہونا پڑا۔ (تحریک انصاف کی اس ’استقامت‘ کی بات کرتے ہوئے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف 1992ءتاحال جاری تیسرا بدترین آپریشن، قیادت کی جلاوطنی اور طویل پروپیگنڈے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔)
13
باپ بیٹے جتنا فرق!
ریاستی جبر میں تفریق اور دُہرے رویے کے ساتھ قائدین کے ردعمل کا تجزیہ کیجیے، تو عمران خان نے استقامت سے اسیری قبول کی ہوئی ہے، جب کہ الطاف حسین دو بار مختصر اسیری سہنے کے بعد 1992ءسے مسلسل جلاوطن ہیں۔ اگر وہ لندن نہ جاتے یا وطن واپس آجاتے، تو اس کا قوی امکان تھا کہ انھیں بھی مار دیا جاتا۔ بہت سے احباب یہ موازنہ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ الطاف حسین 1988ءمیں جب تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہوئے، تو ان کی عمر فقط 35 سال تھی، جب کہ عمران خان 2013ءمیں جب اپنی جماعت کو تیسری بڑی جماعت بنا سکے تو ان کی عمر61 برس ہو چکی تھی!
کیا آپ 35 سال کے ایک ’لڑکے‘ کے تجربے، درست فیصلے، سیاسی ادراک اور استقامت کا مقابلہ 61 سال کے عمر رسیدہ شخصیت سے کر سکتے ہیں؟
یہی نہیں جب بدترین ریاستی عتاب نازل ہوا تب بھی الطاف حسین اور عمران خان بالترتیب 38 اور 71 سال کے تھے! اگر آپ ان دونوں کی عمروں کو نظرانداز کر کے موازنہ کریں گے، تو پھر آپ شاید اپنی پسند کی بات تو ضرور کرسکیں، لیکن یہ بات مکمل منظرنامے یا حقائق کے اچھے خاصی منافی ہوگی، کیوں کہ 71 سال کا بزرگ کسی 38 سال کے نوجوان کے باپ کی عمر کا ہوتا ہے، گویا آپ 1992ءاور 2023ءمیں ریاستی جبر کا موازنہ کرتے ہوئے ایک باپ کی عمر کے شخص سے اس کے بیٹے کی عمر کے ایک فردکے ردعمل اور ادراک کا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں۔
(واضح رہے یہ بات الطاف حسین اور عمران خان سے ریاستی رویے میں فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے کی گئی ہے، ورنہ آپ بالائی سطروں میں دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں کو درپیش سیاسی صورت حال میں کس قدر واضح فرق موجود تھا)
14
فرسودہ نظام کے لیے خطرہ
دونوں قائدین میں یہ مماثلت ضرور ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں بڑی جماعتیں جب ملک کے روایتی جاگیردارانہ نظام کے لیے خطرہ بننے لگیں، تو ان کے خلاف کسی نہ کسی جواز کے تحت کارروائی شروع کر دی گئی۔ طرزِ عمل اور طور طریقوں کے فرق کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کو ریاست نے اپنے جاری نظام کو چھیڑنے سے روک دیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے الطاف حسین اس نظام کے لیے کیسے خطرہ بن رہے تھے تو پھر آپ 1992ءسے پہلے کی الطاف حسین کی پنجاب کی تقریریں ضرور سنیے، جس میں علی الاعلان متوسط طبقے کی سیاست شروع کرنے کے لیےدعوت دی گئی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف فوجی آپریشن ہوا.

نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے پنجاب کی طرف بڑھتے ہوئے قدم، جس میں اہلیان لاہور کی جانب سے الطاف حسین کو خوش آمدیدکہا گیا، جب کہ درج ذیل میں 2010 میں دوبارہ پنجاب کی طرف پیش قدمی کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

پھر 2007ءکے زمانے کی ’ایم کیو ایم‘ کی اُٹھان دیکھیے کہ جس نے پنجاب کے ہر ضلعے میں اپنے دفاتر کھول لیے تھے۔ بیانوے میں ایک فوجی آپریشن ہوا تو 2007ءاور 2008ءکے بعد کے حالات نے ’ایم کیو ایم‘ کے سیاسی نقصان اور مشکلات میں اضافہ کیا جو ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف آپریشن اور پھر ان کی تنظیم کی روپوشی کی صورت میں منتج ہوا۔
15
عمران خان اور ’نائن زیرو‘
17 دسمبر 1996ءکے روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہونے والی تصویر اب بھی انٹرنیٹ پر دست یاب ہے۔ جس میں عمران خان نے ’نائن زیرو‘ کا دورہ کیا اور الطاف حسین کو سچا محب وطن قرار دیا۔

اس کے بعد 12مئی 2007ءکے واقعات کے بعد عمران خان نے الطاف حسین کے خلاف ایک بھرپور محاذ سنبھال لیا اور لندن میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا۔ وہ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ لندن بھی گئے، لیکن انھیں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ ہو سکی۔ عمران خان کی اس مہم جوئی کے بعد ان کے کراچی آنے پر پابندی لگی رہی، پھر غالباً وہ دو سال بعد 2009ءیا 2010ءمیں کراچی آسکے تھے، ورنہ ان کی کراچی آنے کی ہر کوشش پر انھیں ائیرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا جاتا تھا۔

چودہ نومبر 2007 کو جامعہ پنجاب سے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے گرفتار کروادیا، جب وہ روپوشی ختم کرکے وہاں احتجاج کرنے پہنچے تھے۔

اس کے بعد عمران خان اپنی سیاسی جماعت کی بڑھوتری میں اتنے مصروف ہوئے کہ الطاف حسین اور ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف مہم پس منظر میں چلی گئی، یہاں تک کہ دسمبر 2011ءکے کراچی جلسے میں بھی انھوں نے الطاف حسین کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا اور ’ایم کیو ایم‘ کی طرف سے انھیں ایک بڑے جلسے کی مبارک باد دی گئی، لیکن اس کے بعد کے عرصے میں انھوں نے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے کچھ اس طرح کہا تھا کہ ہمارے ہاں کا ایک ’دہشت گرد‘ الطاف حسین لندن میں بیٹھا ہوا ہے، کیا ہم اُسے بھی ڈرون بھیج کر مار دیں؟ جس پر ایک بار پھر الطاف حسین اور عمران خان کے چاہنے والوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
2013ءکے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے عمران خان نے 2014ءمیں دھرنا دیا، تو کینیڈا سے علامہ طاہر القادری بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ یہاں آگئے اور قریب تھا کہ الطاف حسین بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیتے، لیکن انھوں نے آخری لمحے میں اس سے گریز کر لیا۔ یوں ایک بار پھر دونوں جماعتوں میں قربت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد 2016ءمیں الطاف حسین کی ’ایم کیو ایم‘ پابندیوں میں جکڑتی چلی گئی اور 2018ءمیں عمران خان وزیراعظم بن گئے، لیکن جب 2022ءکے بعد عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے بعد ہٹایا گیا اور ان پر ریاستی عتاب نازل ہوا تو الطاف حسین نے لندن سے غیر مشروط طور پر عمران خان کے حق میں بیانات دینے شروع کر دیے ۔ الطاف حسین نے عمران خان کو سراہتے ہوئے یہاں تک کہا کہ عمران خان نے سخت حالات کا سامنا کیا ہے، جو میں بھی نہیں کر سکا۔ اس کے باوجود بھی عمران خان یا تحریک انصاف کے کسی راہ نما کی جانب سے کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔
****
تجزیہ اور خلاصہ کیا رہا۔۔۔؟
دونوں جماعتوں کی سات واضح مماثلتوں میں ان کی سیاسی جدوجہد اور نظریہ…. موروثی قیادت کے خلاف ہونا…. تیسری بڑی سیاسی جماعت بننا…. میڈیا کا بائیکاٹ اور میڈیا پر پابندی…. دونوں جماعتوں کی دھڑے بندی…. ’فرسودہ نظام کے لیے خطرہ‘ اور ’آپریشن اور ریاستی جبر‘ سامنے آتی ہیں۔ دوسری طرف ان کی سیاسی شروعات…. سیاست سے پہلے کے پس منظر…. نئے اور پرانے لوگ…. ریاستی رویے…. ذرائع اِبلاغ کے طرزِ عمل…. ’باپ بیٹے جتنے فرق‘ اور ’اپنے بانی وقائد سے لاتعلقی‘ کے حوالے سے تفاوت بھی سامنے آتے ہیں، جب کہ عمران خان اور ’نائن زیرو‘ میں ہم ملا جلا رجحان پاتے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار 23 اگست 2016 کو الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔

اس تفصیلی جائزے کے بعد ہم دیکھ سکتے ہیں کہ الطاف حسین اور عمران خان کے سیاسی سفر اور سیاسی حالات میں بہت سی مماثلتوں کے باوجود بہت سے واضح اختلافات اور فرق بھی موجود ہیں، جس میں ریاستی رویے سے لے کر میڈیا کے طرزِ عمل تک کو بالکل بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان آج بھی بڑے صحافیوں سے لے کر اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے لوگوں کے پسندیدہ ہیں۔ جب کہ دوسری طرف الطاف حسین اور ان کی تنظیم نے جامعہ کراچی سے لے کر کراچی کے اپنی گلی کوچوں تک میں مخالفت اور مخاصمت کی ایک چومکھی لڑی ہے، پھر ظاہر ہے وہ بھی اسلحے کی سیاست میں ملوث ہوگئے، لیکن وہ اس عمل میں پہل کرنے والے ہر گز نہیں تھے اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج کراچی میں مختلف گروہوں کی جانب سے منہ زوری دیکھتے ہوئے کراچی والے ’ایم کیو ایم‘ کے ’یونٹ‘ اور ’سیکٹر‘ کی کمی محسوس کرنے لگے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ الطاف حسین جس مہاجر قوم کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے، اس کے اکثر عمائدین، قلم کاروں اور نمایاں شخصیات نے اِن کی مخالفت کی یا ان سے ایک فاصلہ قائم رکھا۔ یہاں تک کہ ذرائع اِبلاغ میں باقاعدہ ہفت روزہ ’تکبیر‘ اور روزنامہ ’امت‘ کی تو روزی روٹی ہی ان کے خلاف ایسی جھوٹی سچی رپورٹوں اور مبالغہ آرائی پر چلتی رہی۔ دوسری طرف اخبارات کے دور سے نجی خبری چینلوں تک لوگوں نے عمران خان کے قصیدے لکھے اور باقاعدہ ان کے لیے مہم بھی چلائی، جو دونوں کے حوالے سے ایک بہت نمایاں فرق ہے۔
اس موازنے میں ایک اہم پہلو تعصب کا بھی ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج الطاف حسین کے سیاسی منظرنامے سے جبری بے دخلی کے نو برس بعد مہاجر شناخت کے حوالے سے جو رویے سامنے آرہے ہیں، اس سے آشکار ہے کہ وطن عزیز میں گنجائش اور وسعت کتنی ہے۔ آج کراچی سے کشمیر تک شاذونادر ہی کوئی دوسری قوم کا نمایاں شخص ’مہاجر شناخت‘ کی تائید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہو، جب کہ عمران خان کو ایسی نسلی تفریق کا دور دور تک کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights