سمے وار (خصوصی رپورٹ)
لیاقت علی خان کے یوم شہادت کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل میں 16 اکتوبر کو منعقدہ پروگرام میں ممتاز مدرس پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ لیاقت علی خان پر سرکاری خزانے کو خرچ کرنے کا الزام لگا تو وہ اپنے دلی کے درزی کو عوامی جلسے میں لے کر آئے اور کہا کہ یہ جواب دے گا، اس درزی کا صدر میں جبیس ہوٹل کے سامنے آج بھی نام لکھا ہوا ہے۔ اس درزی نے بتایا کہ دلی میں ہم صرف نواب صاحب ہی کے گھرانے کے کپڑے سیتے تھے اور ان کا یہ عالم تھا کہ بہت کم کوئی کپڑے دوبارہ پہنتے تھے، جب کہ یہاں انھوں نے ہم سے دو شیروانیاں سلوائی ہیں، جس میں سے ابھی ایک شیروانی کی سلائی ان پر ادھار ہے۔ انیس زیدی نے لیاقت علی کی شہادت اور محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخاب میں شکست اور پنجاب میں پیسے لے کر فاطمہ جناح کے خلاوف ووٹ دینے پر رئیس امروہوی کے لکھے گئے قطعات سنا کر لوگوں کے دلوں کو موہ لیا۔
لیاقت علی خان میموریل سوسائٹی کے سربراہ محفوظ النبی خان نے صدراتی خطاب میں کہا کہ لیاقت علی نے اصلاحات نافذ کیں جس کے تحت زمین کی ملکیت کی حد نافذ ہوئی۔ لیاقت علی پر بطور سیاست داں تنقید کی جاسکتی ہے لیکن یہ تنقید ان کی کردار کشی تک جا پہنچتی ہے، جو نہیں ہونی چاہیے۔
جامعہ کراچی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی نے کہا کہ لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کو جانب دار کہا جاتا ہے، لیکن انھوں نے ناوابستہ تحریک میں شمولیت کی، سوویت یونین سے دو طرفہ سفارتی تعلقات قائم کیے، پھر امریکا کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین سے گہرے تعلقات قائم کیے، امریکا نے تو 1971 تک اِس چین کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا، جب کہ پاکستان نے 1949 ہی میں تسلیم کرلیا۔ اگرچہ وہ امریکا کے دورے پر گئے تھے، لیکن ہم آج کے دور میں بیٹھ کر بہت سہولت سے کسی بھی اقدام کو غلط کہہ رہے ہوتے ہیں، جب اس کے اچھے برے نتائج سامنے آچکے ہوتے ہیں، ہمیں فیصلوں کو ان کے زمانے اور حالات کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان پر تحقیق کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی فنڈ نہیں دیا جاتا۔
سابق صوبائی مشیر اقبال یوسف نے کہا کہ کاش لیاقت علی نے جاگیرداری نظام ختم کرنے کی خواجہ ناظم کی تجویز مان لی ہوتی۔ اور جو لوگ آج لیاقت علی سے زیادتی کی شکایت کر رہے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ جب ان کے پاس طاقت تھی تو انھوں نے لیاقت علی کے لیے کیا کیا؟
سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرا نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی کو ہماری تاریخ سے کھرچ کر نکالا جارہا ہے ، لاہور کے ایک میوزیم میں بھی میں نے یہی مشاہدہ کیا کہ قائد کے ساتھ اقبال تو موجود ہیں، لیکن لیاقت علی نہیں ہیں، میں جب قومی اسمبلی میں تھی تو پنڈی کے نوتعمیر شدہ ائیرپورٹ کو لیاقت علی سے منسوب کرنے کی قرار داد پیش کی تو اسے روک کر خلاف ضابطہ ہنگامی طور پور اس ائیر پورٹ کو بے نظیر بھٹو سے منسوب کرنے کی قرار داد پیش کردی گئی۔ یہی نہیں جامعہ کراچی میں بھی لیاقت علی خان، ٹیپو سلطان وغیرہ کی تصویر یہ کہہ کر صاف کردی گئی کہ اس سے خوب صورتی پر اثر پڑتا ہے، جہاں یہ ذہنیت ہو تو وہاں صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
محقق انیس شیخ نے کہا کہ ہندوستان میں اورنگ زیب عالم گیر کو برا نہیں کہا جارہا دراصل یہ مسلمانوں کی ہتک ہو رہی ہے، کیوں کہ جب آپ کسی کو براہ راست برا نہیں کہہ سکتے تو ان کے ہیروئوں کو برا کہتے ہیں. آج ہم لیاقت علی کا یوم شہادت منا رہے ہیں، کیوں یہ پروگرام لاہور، کوئٹہ یا پشاور وغیرہ میں نہیں ہو رہا ہے، یہ پروگرام صرف کراچی میں کیوں ہو رہا ہے، اس لیے کہ ہم انھیں اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ لیاقت علی کو ہم نے بھی اتنا نظرانداز کیا ہے کہ ہمٰں ان کے حوالے سے کتابیں بھی نہیں ملتیں، اب سوشل میڈیا کا دور ہے، ضوری ہے کہ نئی نسل کو ان کی خدمات سے روشناس کرایا جائے اور کتابیں لکھنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
Categories
“درزی نے کہا دو میں سے ایک شیروانی کی سلائی ادھار ہے”
